پاک فوج کے سپہ سالار نے کراچی کے واقعہ پر اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے خود احتسابی کا نیا باب رقم کردیا ہے۔ تعجب ہے! انکوائری رپورٹ آنے کے بعد بھی کس ڈھٹائی سے اپنے بیانات کی کیسی کیسی توجیہات گھڑی جا رہی ہیں۔ نہ شرمندگی نہ کسی قسم کی ندامت! سیاسی اور اخلاقی اقدار سے عاری مشیروں‘ وزیروں نے آئی جی سندھ کے 'اغوا‘ کو ڈرامہ ثابت کرنے کے لیے کیسا کیسا سرکس نہیں سجایا ۔مزارِ قائد کی بے حرمتی کا واویلا کرنے والی انصاف سرکار بابائے قوم کے فرمودات کی کون سی نفی نہیں کر رہی؟ شہر قائد کی تباہی سے لیکر خون کی ہولی اور لوٹ مار تک‘ سبھی شریکوں کو شریک اقتدار کرنا قائد سے محبت اور وفا کا کون سا روپ ہے؟
ایوانِ اقتدار سے وزارتوں میں قائدکی تصاویر آویزاں کرنے تک‘ کس ڈھٹائی سے قائد کے فرمودات اور تعلیمات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ گورننس کے نام پر عوام کو زندہ درگور کرنے والے ریفارمز کی آڑ میں ڈیفامز کے انبار لگاتے نہیں تھک رہے۔ مصوّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کو کیا خبر تھی کہ جس آزاد ریاست کا خواب وہ دیکھ رہے ہیں‘ معرض وجود میں آنے کے بعد وہ کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ جس خطے کی آزادی کیلئے بابائے قوم نے انگریز سامراج کی ساری پرکشش آسائشیں اور امتحان میں ڈال دینے والی پیشکشیں ٹھوکر پہ رکھیں‘ آزاد ہونے کے بعد اسی سرزمین پر انہی کی ایمولینس کا پٹرول ختم ہو گیا۔ قائد کو بروقت ہسپتال نہ پہنچانے کا یہ المناک عذر آج بھی ہماری تاریخ کا داغدار ورق ہے۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ یہ مملکتِ خداداد بوئے سلطانی اور ہوسِ زرّ کے مارے ہاتھوں میں اس طرح آجائے گی کہ وہ حصولِ اقتدار سے لیکر طولِ اقتدار تک‘ کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں ہی دو قومی نظریہ اور فرموداتِ قائد کا کیا حشر ہو چکا تھا ،وطن عزیز دولخت ہو گیا اور قوم تقسیم در تقسیم۔ نجانے کیسے کیسے اور کتنے ہی ٹکڑوں میں بٹتے بٹتے آج بھی ہم ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں کا احاطہ کریں تو شریف برادران اور ان کے حواریوں سے لیکر متحدہ کے قائد اور اس کے آلہ کاروں تک‘ کس کس کا ماتم کریں۔ دور نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا‘ آصف زرداری کا یا پرویز مشرف کا‘ کسر تو کسی نے بھی کوئی نہیں چھوڑی۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا قابلِ ذکر سیاستدان نہیں جو اپنی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر وطن دشمن سیاستدان کے پاس نہیں گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس کے در پر حاضری دیتے رہے اور اس تعاون کے عوض شہرِ قائد میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے گردن جھکانے سے انکا ر کیا، وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا۔ سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والے یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذابِ مسلسل ہی بنے رہے۔
حکمرانوں نے ایم کیو ایم کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دیے رکھا یعنی شہر قائد کے عوام وطن دشمنوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔ چندوں، بھتوں، لوٹ مار، داداگیری، قتل وغارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے مال سے وطن دشمن قائد کو پالنے والے سرکردہ رہنما آج اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کر کے شریکِ اقتدار بنے ہوئے ہیں۔ محض اعلانِ لاتعلقی سے وہ دودھ کے دھلے کیسے بن گئے؟ کہاں گئیں وہ شعلہ بیانیاں، کہاں گئے وہ بھاشن، کہاں گئے وہ اعلانات جو شہرِ قائد کی بربادی پر تحریک انصاف کنٹینر پر کھڑے ہوکر کیا کرتی تھی۔ ووٹ کو عزت دینے کا واویلا کرنے والوں نے خود کبھی ووٹ کو عزت دی ہے اور نہ ہی ووٹر کو۔ اسی طرح سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے پاکستان کو ایسی پرائی جنگ میں دھکیل دیا کہ پورا ملک ہی میدانِ جنگ بن کر رہ گیا۔ مفاہمت کی سیاست کے نام پر ''لوٹو اور لوٹنے دو‘‘ کے تحت ایسی اندھیر مچائی گئی کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آتا رہا۔
کراچی کے واقعے کو سازش قرار دینے والی انصاف سرکار کے ان چیمپئنز کی عقل و دانش کو سلام کہ کس مہارت سے انہوں نے وزیراعظم کو گمراہ کیا اور کیپٹن (ر)صفدر پر مزارِ قائد کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کروانے کے لیے اپنے لیڈر کا خون گرمانے سے لیکر اعصاب و نفسیات سے کھیلنے تک کیسا سماں باندھا ۔مقدمہ درج کروانے کے بعد اس واقعے کو اپوزیشن کی سازش قرار دینے کے لیے کیسی کیسی قلا بازی نہیں لگائی گئی؟ درجنوں مائیک سامنے سجائے حکومتی مشیر اور وزیر یہ ثابت کرنے پر کس طرح تُلے ہوئے تھے کہ انہوں نے یہ مقدمہ درج کروا کے گویا بابائے قوم پر کوئی احسان کیا ہے۔
پاک فوج نے واقعے کے ذمہ داروں کا نہ صرف تعین کیا بلکہ انہیں سزاوار بھی قرار دے ڈالا جبکہ دوسری جانب انصاف سرکار کو اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے جو مسلسل سُبکی اور ندامت کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے چیمپئنز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان کے خلاف کارروائی تو درکنار انہیں ''شٹ اَپ‘‘ کال بھی نہیں دی گئی بلکہ شاید اُلٹا انہیں تھپکی دے کر سبکی اور جگ ہنسائی کا اگلا ٹارگٹ دیا گیا ہوگا۔ حواس گم کردینے والے واقعات ہوں یا دل دہلا دینے والے سانحات‘ کیا کچھ نہیں ہو رہا، ہر طرف حشر برپا ہے۔ سابق حکمرانوں کی بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کی دھن تو ایک طرف‘ اقربا پروری اور بندہ نوازی کے کیسے کیسے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔
بابائے قوم کے مزار کی توہین کا ڈھول پیٹنے والے‘ شہزاد اکبر ہوں یا علی زیدی، حلیم عادل شیخ ہوں یا دیگر وزیر و مشیر‘ سبھی وضاحتوں کی گٹھڑیاں اٹھائے نظر آتے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے جس میں وزیراعلیٰ ہو یا کوئی وزیر ومشیر‘ سرکاری بابو ہوں یا شریکِ اقتدار‘ سبھی کی وجۂ تقرری کی وضاحتیں اور توجیہات وزیراعظم کو خود پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اکثر مشیروں اور معاونین کی اہلیت اور قابلیت پر اٹھنے والے سوالا ت آج بھی معمہ ہیں۔ وزیراعظم اپنی اکثر تقاریر میں اپنی سیاسی اور انتظامی ٹیموں کی قابلیت اور مہارت کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں مجھے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے :
ایک شخص دوسرے سے: مجھ میں بے پناہ ٹیلنٹ اور صلاحیتیں ہیں۔
دوسرا شخص: مثلاً کیا کیا؟
پہلا شخص:مجھے علم نہیں، وہ تمام ابھی پوشیدہ ہیں۔
روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا جھانسہ ہو یا نظامِ مصطفی کا نعرہ، لانگ مارچ ہو یا تحریکِ نجات اور قرض اُتارو ملک سنواروجیسا ڈھکوسلا، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ہو یا جمہوریت‘ بہترین انتقام کا بیانیہ، 126دن جاری رہنے والا تبدیلی کا دھرنا ہو یا انصاف سرکار‘ سبھی ایک دوسرے کے روپ بہروپ ہیں۔ منصب کا لحاظ ہے نہ آئین کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی ہے نہ اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس‘ احساسِ ذمہ داری‘ وضع داری اور رواداری جیسی صفات تو کبھی کسی کو چھو کر بھی نہیں گزریں۔ حکمران دورِ ماضی کے ہوں یا عہدِ حاضر کے‘ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار‘ سبھی کی اہلیت اور قابلیت کے بارے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ :They're all hidden۔