ہمارے حکمران روحانی محفلوں میں اسوہ حسنہ کے حوالے سے جو تقاریر کرتے ہیں‘ ان کی ایک ہلکی سی جھلک اگر ان کے طرزِ حکمرانی میں بھی نظر آنا شروع ہو جائے تو بخدا نہ صرف عوام کے دن پھر جائیں بلکہ اس ملک کو فلاحی مملکت بنانے کا وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائے‘ جو دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران عوام کو دکھایا جاتا رہا تھا۔
سوچتا ہوں‘ بنیادی ضرورتیں خلقِ خدا کی دسترس سے باہر کر کے بخشش کے تمنائی کس قدر خود فریبی کا شکار ہیں۔ کیا یہ اپنے اُس رَبّ کو دیدہ دلیری سے دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جو شہ رَگ سے زیادہ قریب ہے اور دلوں کے بھید بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا؟ ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ اس سے کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح احساسِ عوام کے تحت شانِ رمضان منانے والے حکمرانوں نے عوام کو کب پریشان نہیں رکھا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہ صرف عوام کی قوتِ خرید سے باہر جا پہنچی ہیں بلکہ اکثر تو ناپید ہو چکی ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ لیلۃ القدر کی تلاش میں اپنے رَبّ کے حضور گڑگڑاتے‘ معافیاں مانگتے اور رحم اور کرم کے طالب بھی ہوتے ہیں۔ یہ آہ و زاریاں کرتے ہیں کہ اے خدایا! بس ایک بار معاف کر دے، ایک موقع اور عطا فرما دے، تیری نافرمانیوں اور گستاخیوں سے توبہ کر کے، تجھ سے رحم طلب کرتے ہیں۔ یہ سبھی اس یقین کے ساتھ اپنی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کا رَبّ ان پر ضرور مہربان ہو گا۔ اپنے رَبّ سے رحمت اور بخشش کی اُمید اور طلب کے لیے اچھا گمان رکھنا اس کی شانِ کبریائی کا تقاضا ہے۔ اس کے خزانے میں کیا کمی ہے‘ وہ دینے پر آئے تو دنیا بھر کے خزانے، نعمتیں، رحمتیں اور برکتیں ایک پل میں دے ڈالے۔ اور بلا شبہ وہ غفورالرحیم معاف کر بھی دیتا ہے‘ مگر تعجب اس امر پر ہے کہ رات بھر عبادات میں مگن اور سجدہ ریز رہنے والے یہ عبادت گزار دن چڑھتے ہی اپنے معمولات اور کام دھندوں میں اس طرح اُلجھے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہیں رہتا کہ وہ چند گھنٹے پہلے اپنے رَبّ سے کیسے کیسے وعدے کرکے معافیاں طلب کرتے رہے۔ رَبّ کے حضور سجدہ ریز ہو کر کس طرح گریہ زاری اور بخشش کی التجائیں کرتے رہے ہیں۔ لیلۃ القدر کی مقدس رات ملنے والی اس مملکتِ خداداد کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے سبھی ناشکرے اس کو مسائل کی دلدل میں دھکیلنے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ لوگ حقوق العباد سمیت کئی دیگر معاملات میں صفر پائے گئے ہیں۔ رات بھر توبہ اور استغفار کرنے والے صبح اٹھتے ہی اوزان و پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر حقوق العباد پر چھری چلانے تک کسی معاملے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ کس ڈھٹائی سے وہ سارے کام کرتے نظر آتے ہیں جن کی معافیاں وہ اس بابرکت رات میں مانگتے نہ تھکتے تھے۔
اسی طرح ہمارے ہاں شب برأت پر بھی عجب سماں ہوتا ہے پوری قوم معافیوں اور معذرتوں کی گٹھڑیاں اٹھائے پھرتی نظر آتی ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر تو ان نمائشی پچھتاووں کی ریل پیل نظر آتی ہے۔ ایسی ایسی پوسٹیں نظر آتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے‘ اس قوم کی زندگی میں گویا کوئی انقلاب آگیا ہے۔ معافیاں اور معذرتیں بھی انہی رشتے داروں اور دوستوں سے کی جاتی ہیں جو پہلے سے ہی راضی اور رابطے میں ہوتے ہیں۔ ناراض اور روٹھے ہوئے احباب اور رشتہ داروں کے پاس جانا یا ان سے رابطہ کرناکوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ یعنی روٹھے تو روٹھے ہی رہ جاتے ہیں اور ہم پہلے سے راضی رشتہ داروں اور دوست احباب سے ستائشِ باہمی کا میچ کھیل کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ گویا کوئی بہت بڑا بوجھ سر سے اُتار ڈالا ہو۔ یہ کیفیت صرف رات اور زیادہ سے زیادہ اگلے دن تک رہتی ہے۔ اس کے بعد سارا سال اپنی اپنی اناؤں میں گم وہی کینہ، وہی بغض، وہی عناد، وہی منافقت، وہی ناراضی اور وہی خفگیاں جاری رہتی ہیں۔ یہ منافقت ہے یا خود فریبی؟ دونوں صورتوں میں باعثِ فکر ہے۔
تعجب ہے! اﷲ کو مانتے ہیں لیکن اﷲ کی نہیں مانتے‘ اﷲ سے تو ڈرتے نہیں‘ اﷲ کے بندوں سے جان جاتی ہے‘ قانون شکنی سے ہاتھ نہیں کانپتے‘ پولیس کے چھتروں کے خوف سے ٹانگیں ضرور کانپتی ہیں‘ خود ساختہ مہنگائی سے لے کرذخیرہ اندوزی تک‘ ملاوٹ سے لے کر ناپ تول میں ڈنڈی مارنے تک‘ سارے کرتوت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جاری ہیں۔ گویا جیسے عوام ویسے ہی حکمران‘ پھر رونا کس بات کا ہے؟
آئین سے قوانین تک‘سماجیات سے معاشیات تک‘اخلاقی قدروں سے لے کر مذہب اور عقائد تک‘ سبھی کو بگاڑنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ سربراہ سے لے کر نچلے درجے کے ماتحت تک کسی پر کوئی الزام لگا دیجئے کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔ ایسا اندھیر کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں پایا جاتا جس کے بارے میں شہادت کی اُنگلی اٹھا کر گواہی دی جا سکے کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر دیا۔ کارِ بد کے اس گھمسان میں عوام بھی حکمرانوں سے کبھی پیچھے نہیں رہے۔ ہوسِ زر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کی اولین اور بنیادی خوراک دودھ بھی انہیں پلانے کے قابل نہیں‘ بیرون ممالک سے بین الاقوامی برانڈز کے زائد المیعاد خشک دودھ کے ڈبے سکریپ کے نام پر منگوائے جاتے ہیں جس کی میعادی تاریخ دوبارہ پرنٹ کر کے انہیں تازہ اور قابلِ استعمال ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹِن پیک مشروبات، چاکلیٹ، بسکٹ سمیت دیگر اشیائے خورونوش کے حوالے سے سوچ اور اپروچ یہی ہے کہ بس دھندا چلنا چاہیے‘ کوئی جیئے یا مرے ان کی بلا سے۔ زیادہ دھن کمانے کی دُھن میں کاسمیٹکس سے لے کر ملکی اور غیر ملکی برانڈ کے جعلی سگریٹ تک ملک بھر میں سپلائی کیے جاتے ہیں۔ جو بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز سے لے کر گلی محلے کی دکانوں تک بہ آسانی فروخت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جان بچانے والی ادویات سے لے کرچائے کی پتی اور اسپغول کے چھلکے تک‘ مرچ مسالوں سے لے کر بیسن تک‘ دالوں اور خوردنی تیل سے لے کر گھی سمیت نجانے کس کس چیز تک میں کیا کیا زہر کس دیدہ دلیری اور سفاکی سے ملایا اور عوام کو کھلایا جارہا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے نام پر ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث لوگ عوام کو موذی بیماریوں اور ہلاکت سے دوچار کر کے اپنی اپنی دنیا سنوارتے چلے جارہے ہیں۔ ان چشم کشا حقائق کی تصدیق کے لیے کسی راکٹ سائنس یا ثبوت کی ضرورت نہیں ۔پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کو ہی لے لیجئے‘ والڈ سٹی کے اندر بھول بھلیوں کا منظر پیش کرنے والی چور مارکیٹیں ان سبھی اشیا کے سٹاک سے بھری پڑی ہیں۔ جب جب ان سفاک اور جعلساز تاجروں پر کڑا وقت آیا ‘ سماج سیوک رہنما ان کی امداد اور پشت پناہی کے لیے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر مردہ ضمیری اور کیا ہوگی کہ مردہ مرغیوں کو ٹھنڈی مرغی کا نام دے کر کھلے عام اور ڈھٹائی سے فروخت کر کے حاصل ہونے والے رزق پرنازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔لیکن جس ملک میں حکمرانوں کے احکامات خالص نہ ہوں وہاں ملاوٹ اور چور بازاری کون روک سکتا ہے؟ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم کا اصل مسئلہ اقتصادیات سے کہیں بڑھ کر اخلاقیات ہے۔ اخلاقیات سے عاری قوموں کی اقتصادیات صرف مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ عوام ہوں یا حکمران‘ سبھی انہیں مفادات کے دائروں میں گھومے چلے جارہے ہیں اور جھومے چلے جارہے ہیں ۔