گزشتہ چند کالموں میں کوشش کر چکا ہوں کہ حالات کا ماتم اور عوام کی حالتِ زار پہ گریہ زاری کرکے قارئین کا درد مزید بڑھانے کا باعث نہ بنوں۔ اکثر یہی کوشش ہوتی ہے کہ صرف عوام اور انہیں درپیش مسائل اور مصائب پر ہی بات کی جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے بات عوام کے مصائب کی ہو اس میں حکمرانوں اور ان کی طرزِ حکمرانی کا ذکر نہ آئے۔ مجہول سیاست ہو یا حکمرانوں کے بلند بانگ دعوے‘ بیانات کی جگالی ہو یا وعدوں سے انحراف‘ مکافاتِ عمل کی پکڑ میں واویلا کرتی اپوزیشن ہو یا دھوکے پہ دھوکہ کھائے نہ جانے کتنی دہائیوں سے بھٹکتے ہوئے عوام‘ کس کس کا رونا روئیں‘ کب تک روئیں‘ یہ رونا تو اب عوام کا مقدّر بن چلا ہے۔ ہر نیا دور اور ہر نیا آنے والا حکمران اور کچھ کرے نہ کرے عوام کی ذلّت اور دھکّوں میں ضرور اضافہ کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام اچھی خبر کو ہی ترس جائیں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
جس ملک کا طرزِ حکمرانی حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھوں لکھوں اور ہنرمندوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقتور کے سامنے عزت نفس اور غیرت چھین لے، حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں عوام کو تواتر سے دِکھائے جاتے ہیں‘ سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام میں زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے‘ یہ حقیقت ہمارے عوام سے زیادہ کون جانتا ہو گا۔
اپوزیشن کا واویلا اور چیخ و پکار اپنی جگہ‘ حکمرانوں کے بیانات سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے اخبارات گواہ ہیں ان کے بیانات دیکھ کر یوں لگتا ہے ہر اخبار پہلے دن کے اخبار کا چربہ ہے۔ وہی گھسے پٹے بیانات‘ وہی دعوے‘ وہی وعدے‘ وہی عذر‘ وہی جواز‘ وہی توجیہات‘ ان سبھی پر لکھتے لکھتے اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کا چربہ لکھ رہا ہوں۔ اپنی کارکردگی سے بے نیاز اور بے فکر انصاف سرکار سوا دو سالہ اقتدار میں اپوزیشن کے لتے لینے کے سوا کر ہی کیا سکی ہے؟ کرپشن کی وہی کہانیاں‘ وہی وائٹ پیپرز‘ وہی معیشت کا رونا‘ وہی بیانیے جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو سنائے جاتے تھے۔ کب تک یہ اپنی ناکامیوں کا باعث اپوزیشن کو قرار دیتے رہیں گے جبکہ ماضی کے حکمرانوں کی بدترین طرزِ حکمرانی کا کون سا ریکارڈ ہے جو انہوں نے ریکارڈ مدّت میں نہیں توڑا۔
ریاستِ مدینہ کا استعارہ اٹھائے اقتدار میں آنے والی انصاف سرکار ریاستِ مدینہ کی ناصرف تعریف سے نابلد ہے بلکہ جس طرزِ حکمرانی کو وہ ماڈل بنائے عوام کو اب تک بہلاتی رہی ہے‘ اس کی تو جھلک بھی دور دور تک دِکھائی نہیں دیتی۔ وزیر اعظم صاحب کا تازہ ترین بیان ہی لے لیجئے۔ فرماتے ہیں ''ریاستِ مدینہ کے قیام میں حائل عناصر کو این آر او نہیں دوں گا‘‘ جبکہ پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہِ کبیرہ ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں این آر او کسی صورت نہیں دوں گا اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ این آر او مانگا کس نے ہے؟ عجب معمہ ہے‘ پی ڈی ایم اپنی جدوجہد کو حق و باطل کا معرکہ بنائے بیٹھی ہے جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ یہ جدوجہد اقتدار کے فراق میں بے چین اور مارے مارے پھرنے والوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ کچھ غلطی تو عوام سے ہی سرزد ہوتی رہی جو انہیں نجانے کتنی دہائیوں سے نجات دہندہ سمجھ کر اپنے سروں پر بٹھاتے رہے ہیں۔ پھر انہی نجات دہندوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ کیسی کیسی دُعائیں‘ مَنتیں مانگتے رہے ہیں‘ تب کہیں ان سبھی کے آسیب سے جان تو چھوٹ گئی لیکن عوام کی حالتِ زار اب بھی کچھ یوں ہے کہ ؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
ریاستِ مدینہ کا مطلب گورننس کی وہ تعلیمات ہیں جن میں سماجی انصاف‘ قانون کی حکمرانی‘ عدل اور فلاحی ریاست کا قیام مضمر ہے۔ اسی ریاست مدینہ میں حضرت عمرؓ نے خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا تھا کہ اب آپ کے بازار میں کاروبار کرنے سے کہیں دوسروں کا کاروبار متاثر نہ ہو۔ بھرے مجمع میں خلیفۂ وقت سے سوال کیا جاتا ہے کہ اے عمرؓ! بیت المال سے ملنے والا کرتے کا کپڑا تمہارے قدوقامت کے لحاظ سے ناکافی تھا تو پھر تم نے یہ کُرتا کیسے بنا لیا؟ ایسے میں اپنے صفائی پیش کرنے کے لیے خلیفۂ وقت کو اپنے بیٹے کی گواہی کا سہارا لینا پڑا اور بیٹے نے کھڑے ہوکر جواب دیا کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دے دیا تھا تاکہ ان کا کُرتا بن سکے۔ اسی ریاست مدینہ میں خلیفۂ وقت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ اے علیؓ! تم سے پہلے خلفاء کے زمانے میں فتوحات اور اصلاحات کا دور دورہ تھا جبکہ تمہارے دورِ خلافت میں شورش اور تنزلی دِکھائی دیتی ہے جس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم ہو۔ حضرت علیؓ کا یہ جواب کتنا جامع‘ بامعانی اور حکمت سے بھرپور ہی نہیں بلکہ آج بھی حسبِ حال لگتا ہے۔ یہ جواب ریاست مدینہ کا خلیفہ ہی اپنے مشیروں اور مصاحبین کو دے سکتا ہے۔
مشیروں کا کسی ریاست کی ترقی اور تنزلی میں کیا کردار ہوتا ہے اس راز کو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ریاست مدینہ میں ہی افشا فرما دیا تھا۔ تعجب ہے ریاست مدینہ کا ماڈل پیش کرنے والی انصاف سرکار اس راز سے آج بھی لاعلم ہے۔ احتساب کا مطلب ذاتی عناد اور غصہ ہرگز نہیں نہ جانے وزیر اعظم کن کیفیات کا شکار ہیں‘ اپوزیشن کا نام آتے ہی ناصرف سیخ پا ہو جاتے ہیں بلکہ انتہائی اشتعال میں آکر یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ بھاگنے نہیں دوں گا‘ چھوڑوں کا نہیں‘ ایسے بیانات تو عدالتیں بھی نہیں دیتیں جبکہ وزیر اعظم کا اپوزیشن کے ساتھ نہ کوئی ذاتی لین دین اور نہ ہی کوئی عناد اور تنازعہ۔ ریاست کا مقدمہ ہے‘ ریاست جانے‘ ملزمان جانیں یا مجرمان جانیں... اس سارے عمل پر بیان بازی‘ پوائنٹ سکورنگ اور اپنی ذاتی خواہشات مبنی خیالات کا اظہار احتساب اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
انصاف سرکار کی یہی شعلہ بیانیاں اور احتساب کے عمل کو نہ صرف سبوتاژ کرتی نظر آتی ہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی جواز فراہم کرنے کا باعث بن رہی ہے کہ احتساب صرف اپوزیشن کا اور یکطرفہ ہو رہا ہے۔ ادھر اپوزیشن کی کوئی اہم شخصیت نیب نے گرفتار کی اُدھر وزیروں اور مشیروں نے درجنوں مائیک سجا کر پریس کانفرنس کر ڈالی۔ ناصرف احتسابی کارروائی پر بھرپور زبان آزمائی کی بلکہ نیب کے اگلے اہداف اور گرفتاریوں کے بارے میں بھی پیش گوئیاں کر کے اپنے باخبر ہونے کا بھرپور ثبوت دیا‘ جس کی وجہ سے اپوزیشن کے یکطرفہ احتساب کے بیانیے کو ناصرف تقویت مل رہی ہے بلکہ یہ تاثر بھی دن بدن زور پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہی ہو رہا ہے جبکہ احتساب کو مطلوب کوئی انصاف سرکار کی کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی ایوانِ وزیراعظم میں خود کو محفوظ اور ناقابلِ احتساب تصور کرتا ہے۔ اس پر یہ فخریہ بیانیہ زور و شور سے جاری ہے کہ این آر او نہیں دوں گا۔