وزیراعظم عمران خان بالآخر اپنے اتحادی اور شریکِ اقتدار چودھری برادران کے گھر پہنچ ہی گئے۔ وزیراعظم ہاؤس سے ظہور الٰہی ہاؤس تک کا یہ سفر تاخیر ہی سے سہی لیکن کٹ تو گیا۔ حکومت میں ''اتحادیوں اور فسادیوں ‘‘کے چرچے روزِاول سے ہی زبان زدِ عام ہیں جبکہ چودھری شجاعت حسین وزیراعظم کو مسلسل مشورے دیتے چلے آرہے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں پر اعتماد اور فسادیوں سے اجتناب کریں۔ چودھری شجاعت کا کہنا ہے کہ یہ وہی فسادی ہیں جنہوں نے ہر دور میں نفرت اور انتشار کی سیاست کی ہے۔ چودھری صاحب کا کوئی مشورہ ہو یا کوئی اشارہ‘ وزیراعظم تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے اسے کیا سے کیا بنا دیا جاتا ہو۔ بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے نتیجے میں وہ باتیں بھی ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر کر دی جاتی ہیں جو نہ ادھر ہوتی ہیں نہ اُدھر۔ یہ سارا چمتکار ان چیمپئنز کا ہے جو وزیراعظم کے حلقۂ مشاورت میں کسی دانا اور مدبِّر شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
چودھری شجاعت حسین انتہائی زیرک اورمنجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ وہ معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے اور نبھانے کے قائل ہیں۔ اُن کی ''مٹی پاؤ‘‘ پالیسی انتہائی مقبول و معروف ہے۔ وضع داری اور دنیا داری کے تقاضوں کو بھی خوب سمجھتے اور نبھانا جانتے ہیں۔ جن دنوں شریف فیملی جدہ میں مقیم تھی چودھری شجاعت تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود لاہور میں موجود حمزہ شہباز کی مشکلات میں کمی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی ظاہری تو کبھی پوشیدہ مدد گار بنتے رہے۔ تقریباً پانچ ماہ قبل چودھری شجاعت نے حکومت اور میڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کے پیش نظر وزیر اعظم کو ایک خط بھی لکھا جس کا متن کچھ یوں تھا ''میں اتحادی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ اُمید ہے آپ اسے تنقید کے پیرائے میں نہیں لیں گے بلکہ حکومت کے سامنے جو بھی اصلاح کی بات کی جاتی ہے اسے تنقید میں نہیں لیا جاتا۔ حکومت اور میڈیا کے درمیان قربت کے بجائے ایسے فاصلے پیدا کروائے جاتے ہیں جن میں دوریاں پید اکرنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ نقصان صرف اور صرف آپ کا ہو رہا ہے۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور ریاست کے استحکام کے لیے اس ستون کا مستحکم ہونا بھی ضروری ہے۔ میڈیا سے محاذ آرائی کسی صورت مناسب نہیں‘‘۔
چودھری شجاعت حسین کے اس خط کا نہ تو کوئی جواب آیا اور نہ ہی ان کے مشورے کو قابلِ غور سمجھا گیا۔ خط کا جواب نہ آنے سے بڑا جواب اور کیا ہوگا۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم کے عشائیہ میں چودھری برادران نے ''بوجوہ‘‘ شرکت نہ کر کے کھلا پیغام دیا تھا کہ ہم اتحادی ضرور ہیں لیکن اسے ہماری کمزوری ہرگز نہ سمجھا جائے۔ یہاں بھی وہی چیمپئنز اپنا کام دکھا گئے جو ادھر کی باتیں اُدھر اور اُدھر کی باتیں ادھر کرنے کو اپنا نصب العین بنائے بیٹھے ہیں۔وزیراعظم صاحب کی گفتگو بھی چودھری برادران سے دوری کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنتی چلی آرہی تھی تاہم اس خلیج کو مزید بڑھانے کا کریڈٹ حکومت کے مخصوص چیمپئنز کو ضرور جاتا ہے۔
وزیراعظم نے چودھری برادران کے مؤقف اور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ان کے گھر جاکر چودھری شجاعت کی نہ صرف عیادت کی بلکہ انہیں یہ بھی کہا کہ آپ مجھے پرویز الٰہی ہی سمجھیں۔ گویا پانچ ماہ قبل لکھے جانے والے خط کے جواب میں وزیراعظم خود ہی آن پہنچے۔ اُن کے اس اقدام سے مشیروں اور مصاحبین کے دلوں پر کیسے کیسے سانپ لوٹے ہوں گے اس کا اندازاہ صرف واقفانِ حال ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ ''جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ پورا ملک چلا رہے ہیں‘‘۔ کیا حلیف کیا حریف‘ کیا وزیر کیا مشیر‘کیا اپنے کیا پرائے‘ سبھی خدشات اور تحفظات میں گھرے نظر آتے ہیں بلکہ اکثر اپنوں کے تحفظات اور گلے شکوے اختلافات کی صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔
تحریک انصاف کے ایک رکنِ صوبائی اسمبلی جو اپنی مالی خدمات کی وجہ سے سابقہ پارٹی سے لے کر تحریک انصاف تک جانے مانے جاتے رہے ‘چند روز قبل انتہائی دکھی اور بددلی کا شکار دکھائی دئیے تو وجہ پوچھنے پر پھٹ ہی پڑے گویا انتظارمیں بیٹھے تھے کہ کوئی انہیں چھیڑے تو وہ اپنے دکھڑے اسے سُنا ڈالیں۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ کے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہوا‘ جہاں آپ سے زیادہ خدمت کرنے والوں کو ناقدری کا شکوہ ہو‘ وہاں آپ جیسوں کو تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ سرکار کے اُن چیمپئنز کی نظروں سے تاحال محفوظ ہیں جو ہر اس شخص سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں جو تحریک انصاف کی جدوجہد میں ہر صورت شریک سفر رہا ہو۔ چلتے چلتے انہیں ایک نصیحت بھی کر ڈالی کہ آئندہ یہ دکھڑے غلطی سے بھی کسی کو نہ سنانا‘ اگر کسی نے جناب کی طرف دھیان بھی کروا دیا تو جو ہو اور جہاں ہو ‘اس سے بھی جاؤ گے۔
سرکار کے چیمپئنز نے ایک اور ڈھکوسلا کمال مہارت سے یہ بنا ڈالا ہے کہ کسی بھی ناپسند کو کھڈے لائن لگانے کے لیے ایک ہی الزام کافی ہے کہ ''یہ ن لیگ کا آدمی ہے‘‘۔ ممکن نہیں کہ یہ الزام کسی پر لگایا ہو اور وہ بچ گیا ہو۔ حکومت میں شریکِ اقتدار ہوں یا حلیف اکثریت( ن) لیگ اور دیگر پارٹیوں سے آنے والے صفِ اول میں کثرت سے دکھائی دیتے ہیں جبکہ بیوروکریسی کے کرتا دھرتا بھی وہی ہیں جو شہباز شریف کی فرنٹ لائن ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے باوجو دچند افسران سے ذاتی عناد کی بنا پر نہ صرف ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے بلکہ اکثر کو تو (ن) لیگ کے کھاتے میں ڈال کر خوار بھی کیا جارہا ہے جبکہ اکثر سرکاری بابوؤں کو کلیدی عہدے اس یقین دہانی پر بھی نوازے جارہے ہیں کہ وہ نہ صرف (ن )لیگ کا بیج مار دیں گے بلکہ متوقع بلدیاتی انتخابات اور آئندہ عام انتخابات میں حکومت کے لیے سازگار حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی یقین دہانیاں کروا کر اہم عہدے حاصل کرنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل نہ صرف ان کے سرکاری منصب کے تقاضوں کے منافی ہے بلکہ انہیں آئندہ سو سال کیلئے بھی تعینات کر دیا جائے تو وہ یہ اہداف ہرگز حاصل نہیں کر سکتے ‘ ان کی تقرری جن سے مشروط کی گئی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ضیا الحق کے کوڑے اور صعوبتیں بھی پیپلز پارٹی کو ختم نہ کر سکیں اور ضیا الحق کے طیارہ حادثے کے تقریباً ایک سال بعد ہی بینظیر بھٹو اس ملک کی وزیراعظم تھیں۔ اسی طرح 2002ء کے الیکشن میں پرویز مشرف ساری اپوزیشن کی جلاوطنی کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور حکومت سازی کے لیے پیٹریاٹ اور ایم ایم اے کا سہارا لینا پڑا اور 2008ء کے الیکشن میں بھی مشرف پیپلز پارٹی کو وفاق میں اور( ن) لیگ کو پنجاب میں حکومت سازی سے نہیں روک سکے اور انہیں قصرِ صدارت سے بھی رخصت ہونا پڑا۔
وزیراعظم عمران خان نے چودھری برادران کے تحفظات دور کرنے کے لیے جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینا سیاسی استحکام اور رواداری کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگلے قدم کے منتظر کوئی اتحادی نہیں بلکہ حکومت میں موجود ان کے وہ وزرا ہیں جو ووٹ لے کر کابینہ میں تو آگئے ہیں لیکن وہ اپنے حلقہ انتخاب میں ووٹروں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی ‘ووٹر کا سامنا تو بہرحال الیکشن لڑنے اور جیتنے والوں کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ مشیروں اور مصاحبین میں سے اکثر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں یا بریف کیس اُٹھا کراگلے پڑائو کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔