سیاسی سورج سوا نیزے پر پہنچ جائے یا سوا سو نیزے پر‘ انصاف سرکار اپوزیشن سے ڈائیلاگ کا راستہ کھولنے پر ہرگز تیار نہیں۔ حالات کی اس گرماگرمی کا کریڈٹ صرف اپوزیشن کو دینا یقینا ناانصافی ہوگی‘ صورتحال کو اس نہج پر پہنچانے میں انصاف سرکار بھی خاصی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ چند روز قبل شہرِ اقتدار سے بلاوے کے نتیجے میں وزیراعظم سے ہونے والی ایک ملاقات میں ان کا دوٹوک مؤقف واضح کر چکا ہوں کہ آئندہ کا سیاسی نقشہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس ملاقات میں خاکسار سمیت دیگر کالم نگاروں اور ایڈیٹرز سے گپ شپ کے دوران وزیراعظم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اپوزیشن سے مذاکرات کا دروازہ کھولا گیا تو یہ سبھی این آراو کا مطالبہ بھی کریں گے اور میں ان کی کرپشن اور لوٹ مار پر کوئی سمجھوتہ کرنے والا نہیں؛ البتہ پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے‘ وہاں ہر قسم کا مذاکرہ کرنے کو تیار ہیں؛ تاہم شہرِ اقتدار سے واپسی پر یہ سوچتا آرہا تھا کہ حزبِ اقتدار ہو یا حزب اختلاف‘ سبھی کا اپنا اپنا کوا ہے اور مزے کی بات یہ کہ دونوں کا کوا سفید ہے۔
حکومت سیاسی مذاکرات پہ یقین نہیں رکھتی اور اپوزیشن کئی دہائیاں اقتدار کی موجیں اُڑانے کے علاوہ ملک و قوم کی ایسی تیسی کرنے تک نجانے کیا کچھ کر گزری ہے۔ خدا جانے وہ کون سی کارکردگی ہے‘ کون سا طرزِ حکمرانی تھا‘ کون سی گورننس تھی‘ وہ کون سا میرٹ تھا‘کون سا سماجی انصاف تھا‘ وہ قانون کی کون سی حکمرانی تھی‘ وہ کون سی خوشحالی تھی‘ وہ کون سی اقتصادی اصلاحات تھیں‘ وہ ترقی کا کون سا دور دورہ تھا‘ خارجی محاذ پر ملکی وقار کو کون سے چار چاند لگائے گئے تھے‘ جن کی بنیاد پر اپوزیشن کو دو سال بعد ہی اقتدار کے دورے پڑنے لگے۔ ان جلسوں اور جلوسوں میں عوام سے کون سے قومی راز شیئر کرنے ہیں۔ ان سبھی کے پلّے کیا ہے‘ اور انہوں نے عوام کے پلّے چھوڑا ہی کیا ہے؟ انصاف سرکار کی حکمتِ عملی پر بھی آفرین کہ وہ سبھی کچھ کر گزرنے کیلئے بے چین ہے جس کا سامنا انہیں دھرنے کے دوران رہا۔
سلام ہے ان وزیروں‘ مشیروں اور مصاحبین کی عقل و دانش کو کہ وہ سارے اقدامات کر گزرنا چاہتے ہیں جن کا واویلا یہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر کیا کرتے تھے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ چند دنوں کے اخبارات ہوں یا ٹی وی ٹاک شوز‘ سبھی کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ عین ویسا ہی سرکس لگا ہوا ہے جیسا 2014ء میں عوام دیکھ چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں بازیگر بدل گئے ہیں تو کہیں تماشا گر‘ انصاف سرکار نے تو ڈی جے والے بابو کو گرفتار کر کے ایکشن ری پلے کا اچھوتا ریکارڈ قائم کر ڈالا ہے۔ 12/13 ستمبر 2014ء کی درمیانی شب بوقت 01:49‘ عمران خان نے ایک ٹویٹ انتہائی غصے میں جاری کیا تھا جو بہت پاپولر بھی ہوا تھا۔ یہ من و عن پیشِ خدمت ہے:
"Under what law is police arresting r workers who have been peaceful throughout? Arresting DJ Butt bec he did r music/lights is N's tyranny"
ڈی جے بٹ کی گرفتاری پر کنٹینر پر کھڑے عمران خان نے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوشِ خطابت میں جن الفاظ سے حاضرین کا خون گرمایا وہ بھی لفظ بہ لفظ پیش خدمت ہیں: ''ڈی جے بٹ محنت کش آدمی‘ اس کو غائب کر دیا ہے‘ یہ کسی جمہوریت میں ہوتا ہے‘ کیا یہ ہے نواز شریف کی ڈیموکریسی‘ اگر آپ ایک پرامن انقلاب کا راستہ روک رہے ہیں تو خونی انقلاب کا راستہ کھولنے لگے ہیں آپ‘ میں اپنے سارے ٹائیگروں کو حکم دیتا ہوں کہ جو کنٹینر آئے اس کو ہٹا دینا راستے سے‘ سو سو کے جتھے میں آنا سیلاب کی طرح لے جانا۔ شاہ محمود قریشی میں آپ کو کہتا ہوں کہ ان سے کوئی بات چیت مزید آگے نہ کریں‘‘۔
چند روز قبل ڈی جے بٹ کو گرفتار کرکے عمران خان صاحب کو ایک سوال کا جواب تو یقینا مل چکا ہوگا کہ ڈی جے بٹ کو کس قانون کے تحت اور کیوں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بات تو عوام بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ ایسی گرفتاریاں کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ ایک مخصوص ذہنیت کے تحت کی جاتی ہیں۔ حکمران کسی بھی دور کا ہو کچھ معاملات میں ذہنیت ہمیشہ مشترک نظر آتی ہے اور یہ ذہنیت اُجاگر کرنے سے لے کر پروان چڑھانے تک‘ ان مشیروں اور مصاحبین کا کلیدی کردار ہوتا ہے جو ہر دور میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے پھرتے ہیں۔ دھرنے کے دوران انقلاب کی اطلاع دینے سے لے کر بجلی کا بل نذرِ آتش کرکے سول نافرمانی پر اکسانے تک‘ پی ٹی وی پر چڑھائی کرنے سے لے کر سرکاری املاک کو برباد کرنے تک‘ 126دن وفاقی دارالحکومت کو عضوِ معطل بنائے رکھنے والے آج اپوزیشن کی ان ''جلسیوں اور جلوسیوں‘‘ سے کس قدر خائف اور بوکھلائے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم دھرنے کے دنوں میں جس پولیس کو للکارے مارا کرتے تھے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں سے باز رکھنے کیلئے انتباہ کیا کرتے تھے‘ آج اپوزیشن کے خلاف اسی پولیس کے ذریعے وہ سبھی کارروائیاں اسی زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈی جے والے بابو نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سبھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ڈی جے والے بابو میرا گانا چلا دے‘ گویا ہمارا گانا چلاؤ تو ٹھیک ہے اگر اپوزیشن کا چلاؤ گے تو قانون حرکت میں آئے گا۔
کالم کی اشاعت تک پی ڈی ایم مینارِ پاکستان پر اپنا شو چلا چکی ہوگی۔ گویا ملکی تاریخ کے اوراق پر ایک اور میوزیکل چیئر کا کھیل رقم ہونے جارہا ہے۔ اس کھیل کا انجام کیا ہوگا‘ اپوزیشن اپنے اہداف حاصل کر پائے گی یا نہیں‘ حکومت اپنی وکٹیں بچانے میں کامیاب رہے گی یا نہیں‘ اس کا فیصلہ سیاسی میوزیکل چیئر کا کھیل ہی کرے گا‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام کے لیے کچھ نیا ہرگز نہیں ہوگا۔ میدان لگے گا‘ پنڈال سجے گا‘ عوام کے درد میں مرے جانے والے سبھی نام نہاد 'نجات دہندہ‘ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فوٹو سیشن کرواتے یہ سبھی 'سماج سیوک نیتا‘ وہی پرانے ریکارڈ چلاتے نظر آئیں گے۔ عوام کیلئے کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔ وہی بیانات وہی بڑھکیں‘ وہی دعوے‘ وہی وعدے‘ وہی جھانسے‘ وہی دھوکے‘ وہی ذلّت‘ وہی دھتکار۔ صرف کردار‘ چہرے اور مقام بدلے ہیں باقی سارا سرکس جوں کا توں ہے۔
نجانے کون سا آسیب ہے جو ایوان میں راج کرتا ہے جو انقلابیوں اور عوام کے درد میں مرے جانے والے 'سماج سیوک نیتاؤں‘ کو برسرِ اقتدار آتے ہی ان کی مت مارنے کے علاوہ کچھ یوں جکڑ لیتا ہے کہ ان کے وعدوں اور دعووں سے اہداف اور عزائم تک سب کچھ یادداشت سے یوں دھو ڈالتا ہے کہ ان کا کوئی نقش بھی باقی نہیں رہتا اور وہ سبھی کچھ اس قدر زوروشور اور فخریہ انداز میں کرتے نظر آتے ہیں جن کے سب سے بڑے ناقد یہ خود رہے ہوتے ہیں۔ جس طرزِ حکمرانی پر تنقید کے نشتر برساتے نہیں تھکتے تھے اسی بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ توڑنے کی دھن یوں سوار ہوتی ہے کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہ وہی آسیب ہے جو سیاسی میوزیکل چیئر کا کھیل مستقل کھیلے جارہا ہے۔ سیمی فائنل کے بعد فائنل کے بجائے کھیل دوبارہ شروع کردیا جاتا ہے۔ نہ اس کا کوئی انت نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کا فائنل راؤنڈ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بس کردار مقام اور چہرے بدلتے ہیں۔
جن کا فخریہ بیانیہ قانون کی حکمرانی‘ سماجی انصاف اور سرعام احتساب تھا وہ آج مالم جبہ‘ بلین ٹری اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی تحقیقات سے نہ صرف گھبراتے اور کتراتے نظر آتے ہیں بلکہ ایوانِ اقتدار اِن سبھی ذمہ داران کیلئے محفوظ پناہ گاہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کابینہ کو ڈھال بنائے بیٹھا ہے تو کوئی وزیراعظم سیکرٹریٹ کو‘ کوئی سماج سیوک نیتا ہے تو کوئی سرکاری بابو‘ کوئی نہلے پہ دہلا ہے تو کوئی سیر پہ سوا سیر‘ یہ کیسا احتساب ہے جو ''نیئرز اینڈ ڈیئرز‘‘ پر لاگو ہی نہیں ہوتا؟