قارئین ‘کالم کے باقاعدہ آغاز سے قبل ان چند خبروں کے مزے سے آپ کو محروم کرنا یقینا ناانصافی ہوگی۔ یہ خبریں بڑی شدت سے قلم آرائی کے لیے مسلسل اُکسائے جا رہی ہیں جبکہ میری کوشش اور مصمم ارادہ یہی تھا کہ مجہول سیاست سے بچ بچا کر آج صرف' علی گڑھ سے قصور ‘کے سفر پر بات کریں گے جو ڈاکٹر امجد ثاقب نے صرف چند گھنٹوں میں مجھے چشمِ تصور سے کروا ڈالا‘ لیکن ان خبروں کا کیا کروں جو میرے قلم کو تقریباً جکڑے ہوئے ہیں‘ان دو منتخب خبروں پر مختصر تبصرے کے بعد ہم علی گڑھ سے قصور کا سفر اکٹھے ہی طے کریں گے۔ مجھے اُمید نہیں یقین ہے کہ آپ کو اس سفر میں بوریت کا قطعی احساس نہیں ہوگا بلکہ آپ اس سفرنامے کے سحر میں مبتلا ہو جائیں گے۔
٭وزیراعظم کی بنی گالا میں رہائش کو 12لاکھ کے جرمانے کی وصولی کے بعد ریگولرائز کر دیا گیا ہے‘ سی ڈی اے نے وزیراعظم کو جرمانے کی سہولت دے کر ان کا گھر نہ صرف مسماری سے بچا لیا ہے بلکہ اسے قانونی تحفظ بھی دے ڈالا ہے۔ کاش یہی سہولت ان ہزاروں بدنصیب شہریوں کو بھی میسر آسکتی جو گھروں کی مسماری کے نتیجے میں دربدر اور اکثر تو زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ یاد رہے انصاف سرکار نے برسر اقتدار آتے ہی تجاوزات اور غیر منظور شدہ تعمیرات کے خلاف اتنا بے رحم آپریشن شروع کیا تھا جس میں گیہوں کم اور گھن زیادہ پس گیا‘ حتیٰ کہ تین مرلے اور پانچ مرلے کے گھروں میں سر چھپائے نجانے کتنے شہری بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے بال بچوں سمیت کھلے آسمان تلے آگئے۔ یہ مسماری کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں مہینوں چلتی رہی‘ لیکن نہ کسی جرمانے کی رعایت ملی سکی اور نہ ہی کسی کی چھت کو بچانے کے لیے کوئی قانونی راستہ نکالا گیا۔ آج وزیراعظم کے گھر کو معمولی جرمانے کی وصولی کے بعد قانونی حیثیت تو مل چکی ہے ‘لیکن یہ خبر سبھی دربدر اور زندہ درگور ہونے والوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہ ہوگی جو حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں اپنے گھروں کی چھت کو ترس گئے ہیں۔ کسی کا گھر گیا تو کسی کی دکان‘ کسی کی عمر بھر کی کمائی لٹی تو کسی کا کاروبار تباہ ہوا‘ کس پر کیسی کیسی قیامت ٹوٹی یہ بس وہی جانتا ہے۔ یہ اقدام تحریک انصاف کے وژن کے زیر اثر کیا گیا ہوگا جو تحریک انصاف کے قیام کے وقت منشور کا حصہ بنایا گیا تھا۔
٭دوسری خبر پیش خدمت ہے جس میں نواز شریف کی واپسی کے لیے قانونی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے دیا ہے۔ انہوں نے برطانیہ کو اس کی ذمہ داری کی احساس دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ مجرموں کو اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت ہرگز نہ دے۔ جو حکومت نواز شریف کو جانے سے نہ روک سکی وہ انہیں واپس لانے کے بیانات دے کر اپنی سُبکی میں نجانے کیوں اضافہ کرنے پر بضد نظر آتی ہے۔ نواز شریف کی روانگی کے لیے سرکاری سطح پر کیسے کیسے عذر اور جواز نہیں پیش کئے گئے۔ وزیروں اور مشیروں سے لے کر انتہائی قریبی اور معتمدِ خاص ڈاکٹر فیصل سلطان نے خود جاکر ان کی بیماری کی چھان بین اور تصدیق کر کے وزیراعظم کو مطلع کیا کہ نوازشریف کی حالت واقعی نازک ہے۔ نواز شریف کے جانے کے بعد ان کی بیماری کو ڈرامہ قرار دینے والے ان کی روانگی سے قبل اور بعد ازاں اپنے بیانات کی ریکارڈنگ صبح شام ضرور سنا کریں‘ شاید انہیں کوئی افاقہ ہوسکے۔ نوازشریف کی واپسی کے لیے قانونی کارروائی کا اشارہ دینے والے وزیرِ موصوف کے ایم کیو ایم کے بانی کی واپسی کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟اسے واپس لانے کے لیے تحریک انصاف ریکارڈ پر موجود اپنے بیانات سن کر بجا طور پر نازاں ہو سکتی ہے۔
اب چلتے ہیں علی گڑھ سے قصو رکے سفر کی طرف... ادھر ڈاکٹر امجد ثاقب ان 10ہزار روپے دستِ سوال دراز کرنے والی ایک مجبور خاتون کو قرضِ حسنہ کے طور پر دینے کی روداد سنا رہے تھے کہ کس طرح یہ 10ہزار روپے اس کارِ خیر کا نقطہ آ غاز بنے کہ آج 40لاکھ گھرانے 125ارب کے قرضِ حسنہ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اُدھر میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت طرزِ حکمرانی کے لیے کبھی چینی ماڈل کی بات کرتی ہے تو کبھی ریاستِ مدینہ کو استعارہ بنانے کا اعلان کرتی ہے‘ کبھی انقلابِ ایران کی بات ہوتی ہے تو کبھی مہاتیر محمد سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اخوت کے ماڈل کو ہی اختیار کرلیں تو ان کی یہ مشکل یقینا کسی حد تک آسان ہو سکتی ہے کہ کئی دہائیوں سے اچھے دنوں کی تلاش میں بھٹکنے والے عوام کی مشکلات میں کمی اور ازالہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بتارہے تھے کہ کاش ان دو کروڑ بچوں کی تعلیم کا بندوبست بھی اخوت کر سکتی جو سکولوں سے باہر اور تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ انتہائی تاسف اور ملال سے کہہ رہے تھے کہ دوکروڑ بچوں کا پاکستان کب بنے گا؟ اپنے تعلیمی پروگرام کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ چکوال‘ فیصل آباد‘ کراچی اور قصور کے سنٹرز میں واقع کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اس ترغیب کے ساتھ بلامعاوضہ معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد میدانِ عمل میں اس کارِ خیر کا حصہ بن کر اپنی تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات کا قرض چکا سکتے ہیں۔ تاہم ان اخرجات کو خود پر قرضِ حسنہ تصور کریں۔ اخوت سنٹر کے دورے کے دوران گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں سے مل کر یہ احساس انتہائی حیرت اور طمانیت سے بھرپور تھا کہ کالج میں زیرتعلیم چاق و چوبند اور یہ مہذب بچے کل اپنے آبائی علاقوں کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں یقینا فعال کردار ادا کریں گے۔ اخوت کا تعلیمی پروگرام اس قدر متاثر کن اور جدید خطوط پر استوار ہے کہ دل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش اس ملک کا ہر تعلیمی ادارہ اخوت کالج کا استعارہ بن جائے۔
اُدھر امجد ثاقب اپنے قرضِ حسنہ کے پروگرام کے تحت دوکروڑ افراد کے مستفید ہونے کی داستان سنا رہے تھے کہ کس طرح قرضہ حاصل کرنے والے اپنے حالات بدلنے پر قرضہ دینے والے بنتے چلے جارہے ہیں اور میں سوچ رہا تھا کہ محکمہ کوآپریٹو سے 20ہزار کا قرضہ لینے والی بے کس خواتین کا سود آج لاکھوں سے تجاوز کر گیا ہے اور کتنی ہی حکومتیں بدل گئیں لیکن نہ ان کا قرض اُترا اور نہ ہی ان کے سود کی قسطیں ختم ہوئیں بلکہ ذلّت اور دھتکار کے علاوہ عزتِ نفس گنوانے کے باوجود یہ قرضہ آج بھی اُن کے دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اخوت کے کارِ خیر کا بیس سالہ سفر کوئی معمولی داستان نہیں کہ افسر شاہی کا تام جھام اور سبھی آسائشیں چھوڑ کر ایک ایسے کام کا بیڑہ اُٹھا نے والے ڈاکٹر امجد ثاقب بے وسیلہ گھرانوں کو باوقار روزگار فراہم کرنے سے لے کر اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے تک نجانے کیا کچھ کیے چلے جارہے ہیں۔ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی ان کی سبھی خدمات کے بارے میں جانتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں علی گڑھ کے سرسید کے اس پیروکار سے مخاطب ہوں جو قصور میں بیٹھ کر اس ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کے لیے وہ سب کچھ کر کے دکھا رہا ہے جس کا خواب ہمارے رہنما دیکھتے ہیں۔