"AAC" (space) message & send to 7575

آمدن سے زائد اثاثے اور عقل سے زائد گفتگو

آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام پر خواجہ آصف بھی نیب کے مہمان بن چکے ہیں۔ ان کی گرفتاری کافی عرصے سے التوا کا شکار تھی۔ دور کی کوڑی لانے والے تو ان کی گرفتاری کو بوجوہ ناممکن قرار دیتے ہوئے بعید از قیاس بھی تصور کرتے رہے؛ تاہم اپوزیشن کی گرفتاریوں کا سکور کافی ہائی جارہا ہے جبکہ سرکار کی چھتر چھایا میں وہ سبھی پناہ گزین تاحال محفوظ ہیں جو کافی عرصے سے نیب کے ریڈار پر ہیں۔ شریف برادران کے بعد چوہدری برادران پر بھی ٹیٹیوں (ٹیلی گرافک ٹرانسفرز) کا کیس بنایا جا چکا ہے؛ تاہم سینیٹ کے الیکشن تک تو ان کے خلاف احتسابی کارروائی ہوتی دِکھائی نہیں دیتی۔ الیکشن کے بعد کیا خبر کوئی مشیر نما چیمپئن کب یہ مشورہ دے ڈالے کہ چوہدریوں کے خلاف کارروائی سے ناصرف وزیر اعظم کی غیر جانبداری کا تاثر تقویت پائے گا بلکہ ان کی انصاف پسندی کے چرچے بھی عوام میں خوب ہوں گے۔ جس طرح جہانگیر ترین کے بارے میں قائل کر لیا گیا ہے کہ ان کے خلاف ہر جائز و ناجائز کارروائی ناصرف حکومت کی ساکھ کو چار چاند لگا رہی ہے بلکہ بلا امتیاز احتساب کا تاثر بھی خوب اُجاگر ہو گا۔ یہ مشورہ دینے والوں کا خیال ہو گا کہ اس طرح ہر خاص و عام کو اچھی طرح کان ہو جائیں گے کہ جب جہانگیر ترین کے معاملے میں کوئی مصلحت اور نرمی آڑے نہیں آ سکی تو باقی سبھی کی کیا حیثیت ہے۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے خلاف حالیہ مقدمہ درج ہونے تک وزیر اعظم کو بے خبر رکھا گیا تھا اور توجیہ کے طور پر یہ جواز گھڑا گیا کہ شہباز شریف کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے جہانگیر ترین پر مقدمہ درج کرنا ضروری تھا‘ بصورت دیگر وزیر اعظم کی جانب داری کا سوال پیدا ہو سکتا تھا؛ تاہم اس سوال کے امکان کو ختم کرنے کے لئے جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی محض صورتحال کو بیلنس کرنے کے لیے کی گئی ہے اور وزیر اعظم بھی اس منطق پر ناصرف ایمان لے آئے ہیں بلکہ وہ جہانگیر ترین کے خلاف ہر کارروائی پر راضی دِکھائی دیتے ہیں۔ اس تناظر میں سینیٹ الیکشن کے بعد تک چوہدری برداران پر کوئی مشکل وقت بعید از امکان نہیں۔ ادھر وزیر اعظم نے سپیکر قومی اسمبلی کو بھی اشارہ دے دیا ہے کہ اپوزیشن ارکان کے استعفے آنے پر بلا تاخیر قبول کر لیے جائیں جبکہ اکثر ارکان استعفے دینے کے باوجود منحرف دِکھائی دیتے ہیں۔
اسی طرح پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی اپنی پارٹی میں ہونے والی بغاوت اور ٹوٹ پھوٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان پارٹیوں کا نیا ڈیزائن کیا ہو سکتا ہے۔ اداروں کے ساتھ براہِ راست محاذ آرائی اور شعلہ بیانیاں کیا کچھ جلا چکی ہیں اور آنے والے وقتوں میں کیا کچھ خاکستر ہو سکتا ہے اس کا فیصلہ بہت جلد ہوتا دِکھائی دے رہا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کے بعد ایم کیو ایم ماڈل میں ڈھلتی نظر آرہی ہے اور پیپلز پارٹی شطرنج کی وہ چالیں چل رہی ہے کہ ایک بار پھر زرداری سب پہ بھاری ہو سکتے ہیں۔ 
کالم کے آغاز میں بات ہو رہی تھی آمدن سے زائد اثاثوں پر گرفتاریوں کی‘ جب بھی آمدن سے زائد اثاثوں کے کسی کیس کے بارے میں خبر نظر سے گزرتی ہے تو یہ سوچ مجھے بے اختیار گھیر لیتی ہے کہ جس طرح آمدن سے زائد اثاثوں پر کارروائیاں دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں کاش! ویژن اور عقل سے زائد گفتگو اور بیان بازی پر بھی کوئی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی پر عقل سے زائد گفتگو اور بیان بازی کا الزام تو بہرحال لگایا جا سکتا ہے اور وہ اس الزام سے انکاری بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے ایسے ہزاروں بیانات آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جو عقل سے عاری گفتگو کی زد میں آتے ہیں۔ ماضی کے زیادہ تر حکمران تو ملک و قوم سے دغا اور جفا کے مرتکب ہو کر مکافاتِ عمل کی چلتی پھرتی مثالیں بن چکے ہیں؛ تاہم انصاف سرکار کے دعووں اور وعدوں پر ہی عوام جھوم اُٹھے جو انہوں نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اتنے اعتماد اور زور و شور سے جاری کیے تھے کہ کئی دہائیوں سے بھٹکتے عوام بھی مغالطے میں آ گئے کہ آ گیا وہ شاہکار‘ تھا جس کا سبھی کو انتظار۔ 'اب راج کرے گی خلقِ خدا‘ اور اس طرح کے نجانے کیسے کیسے سنہرے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ ڈالے کہ جن کی بھیانک تعبیروں نے ناصرف دن کا چین لوٹ لیا ہے بلکہ رات کی نیندیں بھی حرام کر ڈالی ہیں۔ 
کنٹینر پر کھڑے ہو کر سماجی انصاف اور سرِعام احتساب سے لے کر طرزِ حکمرانی تک کیسا کیسا ماڈل پیش نہیں کیا گیا۔ آج اُن سبھی بیانات کے ریکارڈ سن کر عوام اپنا سر پیٹنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں؟ نمونے کے طور پر چند بیانیے پیشِ خدمت ہیں جو بجا طور پر ویژن سے کہیں بڑھ کر بیانات کی زدّ میں بھی آتے ہیں: ٭ ایسی ٹیم لاؤں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ ٭ ہمارے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ٭ ہمارا ہوم ورک مکمل ہے۔ ٭ ہمیں اقتدار ملا تو عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ ٭ آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر نہیں جائیں گے۔ ٭ ٹرین حادثہ پر وزیر ریلوے کو فوری مستعفی ہو جانا چاہیے۔ ٭ نواز شریف سرکاری خزانے پر اقربا پروری کر رہے ہیں اور مشیروں کو پال رہے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد کے چند بیانات بھی پیش خدمت ہیں: ٭ اندازہ نہیں تھا حالات اتنے خراب ہیں۔ ٭ بغیر تیاری کے کسی کو حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ ٭ ایک سال تک معیشت کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ٭ برسرِ اقتدار آتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کر لینا چاہیے تھا۔ ٭ اگر آئی ایم ایف سے رجوع کر لیتے تو اقتصادی صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ 
موجودہ سرکار کے دور میں تیزگام کی بوگی نمبر12 آتشزدگی کا شکار ہوئی۔ ٹرین کے اندر اذیت ناک اور یقینی موت دیکھتے ہوئے کتنے ہی مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا دیں جن میں اکثر کو دماغ کی ہڈی کا فریکچر ہو گیا، کسی کا بازو ٹوٹا تو کسی کی ٹانگ... شدید زخمی حالت میں سبھی ہسپتال پہنچائے گئے جبکہ 74 بدنصیب مسافر جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ خواتین اور بچوں سمیت 58 مسافروں کی شناخت بھی نہ ہو سکی ان کے علاوہ درجنوں مسافر بری طرح جھلس گئے۔ نہ وزیر ریلوے کا استعفیٰ آیا اور نہ ہی وزیراعظم صاحب کو اپنا فرمان یاد آیا۔ کسی دور میں الطاف حسین کو ملک واپس لانے کی باتیں کرتے تھے‘ اب نواز شریف کو واپس لانے کا ریکارڈ بجانے کے ساتھ ساتھ اُن کا پاسپورٹ بھی منسوخ کیا جا رہا ہے۔ 
یہ سبھی اقدامات ضرور کریں لیکن فرصت ملے تو تاریخ کے چند اوراق بھی پلٹ کر دیکھ لئے جائیں۔ ضیاالحق بھٹو کو پھانسی لگانے کے علاوہ کوڑوں اور قیدوبند کی صعوبتیں دینے کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم نہ کر سکے بلکہ ان کے فضائی حادثے کے تقریباً ایک سال بعد ہی بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیراعظم بن چکی تھیں۔ اسی طرح جنرل مشرف نے نجانے کس قانون کے تحت نواز شریف کو خاندان سمیت ملک بدر کیا اور 2002ء کے الیکشن میں مطلق العنان حکمران ہونے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے اور پیٹریاٹ بنانا پڑی۔ اس طرح ایم ایم اے اور پیٹریاٹ کی مدد سے حکومت سازی ممکن ہوئی۔ اسی طرح 2008ء کے الیکشن میں صدر مشرف مختارِ کل ہونے کے باوجود وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو برسرِ اقتدار آنے سے نہ روک سکے۔ اپوزیشن پر نت نئے کیسز بنانے سے لے کر سرکاری خرچ پر صبح شام ان کی کرپشن کا ڈھول پیٹنے تک‘ نواز شریف کو واپس لانے سے لے کر پاسپورٹ منسوخ کرنے تک سارے شوق ضرور پورے کریں لیکن اپنے وہ بیانیے‘ دعوے اور وعدے بھی کبھی یاد کر لیا کریں جنہیں عوام نے سیریس لے کر انصاف سرکار بنانے کا موقع دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں