"AAC" (space) message & send to 7575

سفارش پر آئے… میرٹ پر گئے

جس ملک کا طرزِ حکمرانی ابھی طے ہونا باقی ہو‘ حکمران اسی مخمصے میں ہوں کہ کون سا ماڈل اپنایا جائے‘ ریاستِ مدینہ‘ انقلابِ ایران‘ ملائیشیا یا چین؟ ان سبھی ماڈلز کو آئیڈیل بنا کر آئے روز مثالیں دی جاتی ہوں کہ وہاں مختصر ترین دورانیے میں وزارتوں سے لے کر انتظامی مشینری تک ریکارڈ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جہاں بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر ملک و قوم کے مفادات سے بے پروا ہوکر فیصلے اور اقدامات کیے جاتے ہوں‘ وہاں سازش اور سفارش کے زور پر آنے والے میرٹ پر ہی فارغ ہوتے ہیں۔ قد سے بڑے دعووں سے لے کر لمبے چوڑے اہداف تک‘ سبھی کی قلعی ایسے کھلتی ہے جیسے کچے رنگ اُڑ جاتے ہیں اور ان کا نشاں تک باقی نہیں رہتا۔ خود پسندی سے لے کر خوشامد پسندی تک یہ سبھی کردار گورننس اور میرٹ کے نام پر ایسی دھمال ڈالتے ہیں کہ چین آف کمانڈ سے لے کر باہمی احترام تک سبھی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ 
کوئی عاجزی کے تکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کوئی قابلیت اور مہارت کے گھمنڈ میں اترائے پھرتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں یہ سبھی کردار نہ صرف مطوبہ اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں بلکہ اپنے منصب کی سبکی کا سامان بھی پیدا کرنے سے نہیں چوکتے۔ سالِ نو کے پہلے روز ہی لاہور پولیس کی کمان کی تبدیلی کا فیصلہ کیا آیا‘ کیا افسرانِ بالا‘ کیا چھوٹے بڑے تھانیدار‘ کیا سپاہی کیا حوالدار‘ سبھی خوشی سے یوں جھوم اُٹھے کہ گویا ان میں جان پڑ گئی ہو۔ انہیں لگا کہ ان کی عزتِ نفس سے لے کر کیریئر کی بربادی تک سبھی کچھ محفوظ ہو گیا ہے۔ غیر یقینی اور بد اعتمادی کا شکار لاہور پولیس مجھے اپنے مورال کو ایک بار پھر اکٹھا کرتی دکھائی دی۔ وزیروں اور مشیروں کی طرف سے مدح سرائی اور اُوٹ پٹانگ اقدامات کا دفاع تو ان کی مجبوری ٹھہری لیکن سربراہ حکومت بھی سبکدوش ہونے والے لاہور پولیس کے سربراہ سے کیسی کیسی خوش گمانیاں وابستہ کیے ہوئے تھے کہ نون لیگ کو کنٹرول کرنے سے لے کر جس پولیسنگ کے نفاذ تک جس کا خواب دھرنوں میں دکھایا جاتا تھا‘ یہ سبھی کچھ صرف عمر شیخ ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے مشیروں کو بھی خدا ہی پوچھے جنہوں نے عمر شیخ کو ایک ایسا نمونہ بنا کر پیش کیا‘ جس کی تعیناتی کے ساتھ ان کے چھڑی گماتے ہی سارا منظر بدل جائے گا۔ یہ کہ نون لیگ کے سرکردہ لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے سے لے کر متوقع بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو کلین سویپ کروانے تک یہ چیمپئن سبھی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ جبکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان صاحب کی تعیناتی پر آنے والے ردِ عمل نے وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ کو مزید تقویت دے ڈالی کہ یہی وہ چیمپئن ہے جس کی لاہور پولیس کو ضرورت تھی۔
جناب وزیر اعظم اس بریفنگ پر نہ صرف یقین کر بیٹھے بلکہ مذکورہ پولیس آفیسر کی قابلیت اور مہارت کے بارے عوام کو آگاہ بھی کرتے رہے۔ ان تعریفی کلمات نے مذکورہ آفیسر میں وہ ہوا بھر دی کہ غالباً وہ آپے سے باہر ہو گئے اور بالآخر خود سے وابستہ تمام امیدوں کے برعکس ثابت ہوئے۔ موصوف کی محض ذاتی پسند ناپسند اور عناد کی وجہ سے ڈیڑھ درجن سے زائد اعلیٰ افسران دربدر ہوئے اور فیلڈ فورس کے ساتھ بدکلامی اور اہانت آمیز رویہ معمول بن چکا تھا۔ شیخ صاحب کی زبان اور رویے پر ردِعمل ظاہر کرنے والے اعلیٰ اور سینئر افسران کی صوبہ بدری نے ان کے حوصلے نہ صرف مزید بڑھا ڈالے بلکہ شاید وہ خود کو ناقابلِ تسخیر بھی تصور کرنے لگے‘ مگر جس پولیس کپتان کے خلاف چھوٹے تھانیدار درخواستوں کے ڈھیر لگا دیں اور ماتحت اعلیٰ افسران آئے روز بد کلامی سے تنگ آکر دست و گریباں ہونے پر اُتر آئیں وہاں کیسی پولیس اور کہاں کی پولیسنگ؟
جب اندرونی حالات یہ ہوں تو عوام کی حالتِ زار کیسے بدلی جا سکتی ہے؟ تھانوں میں وہی ذلت‘ وہی دھتکار اور پھٹکار کیسے رک سکتی تھی؟ اس اعلیٰ افسر کے رویے کا ردِعمل بہرحال عوام کو ہی بھگتنا تھا۔ اعلیٰ عدالتوں اور اپنے سینئر افسران کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے لے کر‘ مرد و زن کی تمیز سے بے پروا ہوکر سب کچھ کہنے تک سبھی کچھ ریکارڈ پر نہ صرف موجود ہے بلکہ سوشل میڈیا کی زینت بھی بنتا رہا ہے۔ خیر ایک باب ختم ہوا‘ اس ''انتظامی چیمپئن‘‘ پر مزید گفتگو الفاظ کے ساتھ ساتھ قارئین کے وقت کا بھی ضیاع ہو گا تاہم اسی ایک جملے پر اکتفا کرتے ہیں کہ: ''سفارش پر آئے... میرٹ پر گئے‘‘۔ ان کی تعیناتی کے فیصلے پر ہونے والی پشیمانی کے بعد ان افسران کے بارے میں بھی نظر ثانی ضرور کی جانی چاہیے جنہیں موصوف کی ذاتی خواہش پر دربدر کیا گیا۔ 
ایک عمر شیخ ہی نہیں یہاں تو جابجا ایسے کردار اپنی قابلیت اور مہارت کا خود ڈنکا بجاتے اور اترائے پھرتے ہیں۔ اسد عمر جیسے اقتصادی چیمپئن کے دعوے بھی ان کے قد سے کہیں بڑے ثابت ہوئے اور وہ اپنے ہی بیانیوں کے سامنے پست قد نظر آنے لگے۔ شیخ رشید کو ریلوے میں نجانے کون سے انقلابی اقدامات اور بہترین کارکردگی کے بعد وزارت داخلہ میں کارکردگی کے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے؟ وزیرہوا بازی کی بیان بازیوں نے قومی ایئرلائن کو دنیا بھر میں جس طرح رسوا کرکے ملکی وقار کو جو 'چار چاند‘ لگائے‘ اس کا کریڈٹ بھی یقینا حکومت ہی کو جاتا ہے۔ کس کس کا رونا روئیں‘ بدعنوانیوں کا یا بد انتظامیوں کا؟ نمونے کے طور پر چند ایک کردار پیش خدمت ہیں‘ اگر تفصیل میں جائیں تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑ سکتے ہیں‘ لہٰذا چند منتخب کرداروں پر اکتفا کیجئے۔ وزارتِ صحت میں کیسا کیسا کھلواڑ نہیں ہوا؟ اس پر بھی وزیر اعظم ان سبھی کا دفاع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ عامر کیانی کے بارے میں ان کا حالیہ بیان یہ ہے کہ انہیں بدانتظامی کی وجہ سے وزارت سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ وزیراعظم صاحب کی یہ توجیہ اس لیے ناقابلِ فہم ہے کہ بدانتظامی ہو یا بد عنوانی یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ایسے سکوں کے ڈھیر جابجا عوام کو تو دکھائی دیتے ہیں۔ خدا جانے دیکھنے والوں کو کب دکھائی دیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے چیمپئنز انتظامی ہوں یا سیاسی کوئی نہلے پہ دہلا ہے تو کوئی سیر پہ سوا سیر۔
یہ رونا دھونا تو اب عوام کا مقدر بن چکا ہے۔ ایسے میں ایک دل چیر دینے والی خبر پر گفتگو نہ کرنا یقینا بے حسی اور ناانصافی ہوگی۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک نہتے معصوم طالب علم کو قانون کے رکھوالوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے سرعام قتل کر ڈالا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال سمیت نجانے کتنے سانحات میں ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے بھٹک رہی ہیں۔ معصوم اسامہ کی روح بھی یقینا انہی روحوں کے احتجاج میں شامل ہو چکی ہو گی۔ نقیب اﷲ محسود سے لے کر اسامہ تک نجانے کتنے ہی ماؤں کے لعل پولیس کی لاقانونیت اور بد انتظامی کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس پر مریم نواز صاحبہ نے سوال داغ ڈالا ہے کہ اسامہ کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ مگر اس دلخراش سانحہ پر سیاست کرنے سے پہلے انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے ذمہ داروں پر سوال اٹھانے کا حوصلہ کرنا چاہیے۔ معصوم اسامہ کی موت کو سیڑھی بنا کر پوائنٹ سکورنگ کر نے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں‘ خدارا اس سانحہ کو سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جائے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں