اعلیٰ عدالتیں نیب سے مطمئن نہیں‘ عوام حکومت سے غیر مطمئن اور نالاں‘ حکومت انتظامی مشینری سے مطمئن نہیں‘ ہزارہ برادری انصاف سرکار کے وزرا کی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پہ مطمئن نہیں۔ کوئی بھی کسی سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ کوئی کسی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو کوئی طرزِ حکمرانی اور قول و فعل سے مطمئن نہیں۔ کارکردگی پر سوال اٹھنے کے بعد احتسابی ادارے کی اپنی توجیہات ہیں‘ جنہیں سننے اور سمجھنے کے بعد قابلِ فہم اور منطقی کہا جا سکتا ہے۔ ہزارہ برادری سانحہ مچھ میں بربریت کا شکار ہونے والے اپنے پیاروں کی لاشیں یخ بستہ اور منجمد کر دینے والے موسم میں کھلے آسمان تلے لیے بیٹھی مصر ہے کہ وزیر اعظم کے خود یہاں آنے تک وہ اپنے جگر گوشوں کی تدفین نہیں کرے گی‘ جبکہ وزیر اعظم نے پیغام بھجوایا ہے: وہ میتوں کی تجہیز و تکفین کریں‘ میں جلد آؤں گا۔ وزیر اعظم کی طرف سے مطلوبہ ردِ عمل نہ ملنے پر مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ ملک بھر میں پھیلتا جا رہا ہے۔ لاہور میں گورنر ہاؤس کے آگے دھرنے نے شہر بھر کے معمولات اور ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے بھی ہزارہ برادری کے مطالبے کے حوالے سے اہم اجلاس طلب کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کب مظاہرین سے یکجہتی کے اظہار کے لیے جاتے ہیں اور کب میتوں کی تجہیز و تکفین کے ساتھ ساتھ دھرنوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔
اس دلخراش سانحہ پر اپوزیشن کی طرف سے بھی مظاہرین سے یکجہتی کے لیے آنیاں جانیاں شروع ہو چکی ہیں؛ تاہم پوائنٹ سکورنگ کا سلسلہ بھی عروج پر نظر آتا ہے جبکہ ایسے سانحات اپوزیشن کے دورِ حکومت میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن اس سانحہ پر سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے خوب لتّے بھی لے رہی ہے۔ ملک بھر میں فضا سوگوار ہے۔ اس ہولناک سانحہ پر ہر مردوزن غمگین نظر آتا ہے جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید بھی ان مظاہرین کو قائل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ عوام بھی مظاہرین کے ہم آواز ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو پہلی فرصت میں وہاں جا کر افسوس اور یکجہتی کا اظہارکرنا چاہیے تاکہ مقتولین کی آخری رسومات ادا کی جا سکیں۔ اس صورتحال پر یہ اشعار حکومتی رویے کی بھرپور عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے دل کی آواز دکھائی دیتے ہیں ؎
شدید سردی میں کتنی لاشیں
برائے تدفین منتظر ہیں
حضورِ والا محل کی گرماہٹوں سے نکلیں
چلو تحفظ نہیں دلاسا تو دینے جائیں
وہ بیٹیاں بہنیں اور مائیں
شدید صدمے سے منجمد ہیں
وہ منجمد ہیں جنابِ عالی
نہ ہاتھ میں تیر و تیغ کوئی نہ لب پہ گالی
حضورِ والا انہیں دلاسا تو دینے جائیں
کسی کے کاندھے پہ ہاتھ رکھیں
کسی کی آنکھوں سے اشک پونچھیں
انہیں بتائیں کہ شاہ زندہ ہے
جلد قاتل بھی پکڑے جائیں گے
اور انصاف بھی ملے گا
وزیر اعظم ہیں آپ اُن کے
جناب ہیں مائی باپ اُن کے
اگر یہ ممکن نہیں تو صاحب
انہیں اجازت ملے کہ کتبوں پہ اتنا لکھ دیں
یہ دورِ بے حسی کا ایک شہری
اس کی قاتل بھی بے حسی ہے
اب چلتے ہیں اس عدمِ اطمینان کی طرف جس کا اظہار عوام حکومت پر کر رہے ہیں اور حکومت اپنی انتظامی مشینری سے غیر مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ عوام اس لیے نالاں ہیں کہ دھرنوں اور انتخابات کے دوران جو وعدے‘ دعوے اور بیانیے بڑے زور و شور سے جاری کیے گئے تھے ان کا چند فیصد بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ جن ریفارمز کا ڈھول بجایا گیا تھا وہ ڈیفارمز کے پہاڑ نظر آتی ہیں۔ جس پولیس میں اصلاحات اولین ایجنڈا بتایا جاتا تھا وہ اب سرکس کا سماں پیش کرتی نظر آتی ہے۔ جس افسر شاہی کو عوام کا خدمتگار اور جوابدہ بنانا تھا اس کے شاہانہ انداز اور آدابِ شاہی آج بھی جوں کے توں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت نجانے کتنے افسران یہ کہہ کر تعینات کیے گئے کہ ان سے بہتر انتظامی سربراہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر کسی کی قابلیت اور مہارت کی سرکاری سطح پر حکمران اس طرح تشہیر کرتے رہے کہ گویا آ گیا وہ شاہکار... جس کا تھا انتظار۔
سرکار روزِ اول سے ہی انتظامی گھوڑے یوں بدلتی آرہی ہے کہ عوام کے دن بدلنے کا خواب پورا ہوتا دکھائی ہی نہیں دیتا۔ جب افسر کو محکمے اور معاملات کی سمجھ آنا شروع ہوتی ہے تو سرکار اسے اس طرح گھر بھجواتی ہے کہ بے اختیار یہ سوال پیدا ہوتا ہے: یا تو افسر میں قابلیت نہیں تھی یا حکمرانوں نے مبالغے سے کام لیا تھا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو اس طرح تجربہ گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے کہ صرف دو سالہ عرصۂ اقتدار میں انعام غنی پانچویں آئی جی جبکہ جواد رفیق صوبے کے تیسرے چیف سیکرٹری ہیں اور ان کے بارے میں بھی یہ بازگشت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ سرکار ان کی جگہ ''زنبیل‘‘ میں موجود دیگر چیمپئنز کو آزمانا چاہتی ہے۔ ان دونوں افسران کو ذمہ داری سنبھالے ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں اور وہ معاملات کو انتہائی خوش اسلوبی اور معاملہ فہمی سے چلانے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن اس بریفنگ اور ڈی بریفنگ کا کیا کریں جس کی وجہ سے افسران بد اعتمادی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی بریفنگ اور ڈی بریفنگ ہے جو تمام اہم محکموں کے انتظامی سربراہوں کی دھڑا دھڑ تبدیلی کو ہی تبدیلی سرکار ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
دوسری طرف ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جس افسر کی قابلیت اور مہارت حکمران خود بیان کرنا شروع کر دیں اس میں اتنی ہوا بھر جاتی ہے کہ وہ گورننس اور میرٹ کے چیتھڑے اُڑا دیتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں‘ وزیر اعظم کے ارد گرد چند کھلاڑی اس بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے چیمپئن ہیں‘ جسے چاہتے ہیں فرش سے اُٹھا کر عرش پر لے جاتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں عرش سے فرش پر پٹخنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اپنے انتظامی گھوڑے کی قابلیت اور مہارت کا ایسا ڈھول بجاتے ہیں کہ پھر وزیر اعظم اس بریفنگ پر یقین کر کے وہ توقعات اور اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں جس پر پورا اترنا اس انتظامی گھوڑے کی استطاعت سے کہیں باہر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے سامنے وہ خصوصیات بھی بیان کر دی جاتی ہیں جن سے وہ انتظامی گھوڑا خود بھی واقف نہیں ہوتا اور نتیجتاً اسی سبکی‘ اسی ندامت‘ اسی شرمندگی اور اسی پسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سامنا موجودہ سرکار کو روزِ اول سے ہے۔