آج کے کالم پر یہ مصرع صادق آگیا کہ ''ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں‘‘۔ مصمّم ارادہ تھا کہ حالات کے رونے دھونے سے گریز کرتے ہوئے آج کا کالم انصاف سرکار کے ان اقدامات کی نذر کروں گا جو عوام کے احساس کے تحت کیے جا رہے ہیں‘ لیکن یہ اقدامات حالات کے ما تم اور عوام کی حالتِ زار کے رونے دھونے میں اکثر دب کر رہ جاتے ہیں۔ تعجب ہے حکومت کام کر رہی ہے لیکن وہ کام نظر نہیں آرہا‘ معاشی اور اقتصادی اصلاحات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن یہ اصلاحات عوام کے چولہے سے ابھی بہت دور ہیں۔ عجب بے برکتی ہے‘ دینے والا دے رہا ہے مگر لینے والے کے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ گورننس اور اصلاحات کا شور جنگل کا مور بن کر رہ گیا ہے۔حکومتی کارکردگی اور اُن ناقابلِ تردید اقدامات کا ذکر اور تعریف نہ کرنا یقینا کم ظرفی ہوگی۔ ویسے بھی حکومتی ترجمانوں کا یہ دیرینہ گلہ ہے کہ کبھی تاریکیوں سے نکل کر ان روشن پہلوؤں پر بھی قلم آرائی کر دیا کریں جن کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ انہیں میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ تاریکی بھلے جتنی بھی بڑھ جائے لیکن کارکردگی کا جگنو اگر کہیں ہو تو چمکے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جگنو ہو اور وہ چمکے نہ‘ اپنے ہونے کا پتہ نہ دے۔ ترجمانوں سے ذاتی مراسم ہونے کے باوجود یہ پروفیشنل لڑائی اور مباحثہ ہمیشہ ہی رہا ہے‘ تاہم کالم کے ابتدائی حصے میں ان جگنوؤں جبکہ دوسرے حصے میں سانحہ مچھ پر بات کریں گے۔
کارکردگی کے یہ جگنو جابجا تو نہیں لیکن جتنے بھی ہیں خوب چمک رہے ہیں‘ اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے متحرک اور بے چین روح پنجاب کے وزیر صنعت اسلم اقبال اپنے تئیں صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ان کی کارکردگی مین پنجاب انڈسٹریل پالیسی 2018ء کا اجراہو یا پنجاب گروتھ سٹریٹجی 2023ء کا ویژن‘ یہ سبھی اقدامات کورونا جیسی بدترین صورتحال کے باوجود کیے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ ڈیڑھ ارب روپے سے ہنر مند نوجوان پروگرام کا آغاز ہو یا ٹیوٹا کے اداروں میں اعلیٰ تکنیکی مہارت سے لے کر 30ارب روپے سے پنجاب روزگار سکیم اور ٹیکنالوجی کی منتقلی۔ درآمدات کوفروغ دینے سے لے کرقائداعظم بزنس پارک کا قیام جس سے اڑھائی لاکھ ملازمت کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ فیصل آباد میں قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ اورون ونڈو سروس سینٹرز کا قیام۔وزیر صنعت صنعت کاروں کو جملہ سہولیات فراہم کرنے کا بیڑا بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں شیخوپورہ اور ٹیکسلا میں دو کاریگر گاؤں قائم کیے گئے ہیں جبکہ ایسے چھ مزید گاؤں قائم کیے جا رہے ہیں جن سے تقریباً 200 ہنر سے متعلق کاریگروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ صارفین کے تحفظ کے لیے کنزیومر پروٹیکشن کورس شروع کیا گیا ہے اور پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے تحت ایسا سسٹم بنایا گیا ہے کہ جس کے تحت تمام محصولات کو یکجا کیا جائے گا۔ صوبہ بھر میں نئے سیمنٹ پلانٹس جس تیز رفتار سے لگ رہے ہیں ان کی ٹریکنگ اور معاونت بھی تیز رفتاری سے کی جارہی ہے۔ نئے سیمنٹ پلانٹس کے لیے 23درخواستیں موصول ہو چکی ہیں اور پانچ نئے پلانٹس کی منظوری دی جاچکی ہے۔ حکومت پنجاب کا محکمہ محنت اور اس کے ذیلی دفاتر مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے مالی مراعات‘ صحت‘ تعلیم اور رہائش کی سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان اقدامات کے تحت 80ہزار سے زائد صنعتی اور تجارتی اداروں کے 10لاکھ سے زائد کارکنان کے اہلِ خانہ کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ 24بڑے اور 60چھوٹے ہسپتالوں سمیت 60میڈیکل سینٹرز اور 20ڈائریکٹوریٹس کے ذریعے گزشتہ دو سالوں میں ایک لاکھ 22ہزار مزدور رجسٹرڈ کیے گئے ہیں جنہیں علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ حادثات کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ کا نظام بنایا گیا ہے اور نئی انسپیکشن سے لے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی تک تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اسلام آباد‘ لاہور‘ سیالکوٹ اور اوکاڑہ کے سوشل سکیورٹی ہسپتالوں میں ڈائیلسز کی سہولت اور کارڈک ایمرجنسی اور بچوں کے امراض ِدل کی سرجری کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ شیخوپورہ میں محکمہ لیبر کی 204ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کروائی گئی ہے اور ڈیفنس روڈ لاہور پر 135فلیٹس بھی قبضہ مافیا سے واہگزار کروا کر حقداروں کو دیے جاچکے ہیں۔ اسی طرح ان دوسالوں میں چھ ارب 47کروڑ سے زائد رقم مزدوروں کی فلاح و بہبود کی مد میں خرچ کی گئی ہے۔ دوران ِڈیوٹی مو ت کی صورت میں ایک ارب 66کروڑ‘ میرج گرانٹ کی مد میں ایک ارب 95کروڑ روپے اور تعلیمی وظائف کی مد میں دوارب 86کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں جبکہ لیبر کالونیوں سے لے کر علاج معالجہ اور دیگر اقدامات کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ اگر کارکردگی کے ان دعوؤں کا ثمر مزدوروں تک پہنچ جائے تو بندئہ مزدور کی حالت بدل سکتی ہے۔
کارکردگی کا ایک جگنو محکمہ کوآپریٹو میں بھی چمکایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر محکمہ کوآپریٹو پنجاب میں اصلاحات کا کام جاری ہے۔ اگر ان اصلاحات میں ان بے وسیلہ ہزاروں خواتین کو بھی شامل کر لیا جائے جو تقریباً 15سالوں سے 20ہزار کا قرض تو اتار نہیں پائیں لیکن اس کا سود لاکھوں میں جا چکا ہے۔ یہ قرض ان محنتی خواتین کے لیے وبالِ جان بننے کے ساتھ ساتھ دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن چکا ہے۔ قرضے کی مد میں جو رقم بھی وہ ادا کرتی ہیں وہ سود کے کنوئیں میں غرق ہو جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ان خواتین کو اس سود کی دلدل سے نکالنے کے اقدامات سے اپنی سیاست اور ساکھ دونوں میں بہتری کا سامان پیدا کر سکتے ہیں۔
اب چلتے ہیں کالم کے اگلے مرحلے کی طرف‘ہزارہ برادری سے مشروط وعدے کے مطابق وزیراعظم کوئٹہ جاکر ان سے تعزیت اور مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں ناحق مارے جانے والوں کی میتوں کو قبر کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مرنے مارنے کا سلسلہ تو ہمارا مقدر بن چکا ہے۔لواحقین کا رونا اور ماتم تو عین منطقی اور قابلِ فہم ہے لیکن مگرمچھ کے آنسو لیے سیاست کرنے والے تعزیت اور یکجہتی کے نام پر کیا کچھ کرتے رہے ہیں یہ دیکھ کر بخوبی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی جیئے کوئی مرے لیکن سیاست کا دھندا کبھی مندا نہیں پڑتا۔ ان میتوں پر یکجہتی کے لیے آنے والوں پر بھی آفرین‘ کسی کے دامن پر سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں تو کوئی سانحہ لال مسجد کا بوجھ اٹھائے ناکام مذاکرات کے بعد جھنڈے والی گاڑی میں کس اطمینان سے واپس چلے گئے۔ سانحہ کوئی بھی ہو سیاست کرنے والے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انصاف سرکار نے بھی اپوزیشن کا سارا بوجھ ہی ہلکا کر ڈالا‘ ایسا ایسا بیان داغا کہ جو کام اپوزیشن نہ کر سکی وہ انصاف سرکار نے کر دکھایا۔ حکومتی وزیر ہوں یا درآمدی مشیر‘ سبھی وزیراعظم کے بیان پر بوکھلائے اور گھبرائے پھر رہے تھے لیکن دفاع بہرحال ان کی مجبوری اور ڈیوٹی ہوتو مرتے کیا نہ کرتے۔ اکثر تو نجی محفلوں میں آف دی ریکارڈ برملا کہتے نظر آئے کہ ''ایتھے ہن اسی کی کریے‘‘ لیکن اس بیان کے دفاع کی ڈیوٹی کو بہرحال دینا ہی تھی۔ انصاف سرکار کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ روزِ اول سے ہی اپوزیشن کونہ صرف سرکاری خرچ پر زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ تواتر سے ایسے اقدامات اور بیانیے جاری کیے جارہی جو اپوزیشن کے لیے کسی نعمت ہی نہیں بلکہ ''لائف لائن‘‘ ہے۔