زمانہ طالب علمی میں الطاف حسین حالیؔ کے مقدمہ شعر وشاعری سے ایک سوال امتحانات میں لازمی آیا کرتا تھا۔ اس مقدمے کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ بری شاعری معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ اس زمانے میں اسے ایک امتحانی سوال کی حد تک ہی سیریس لیا جاتا تھا اور امتحان ختم ہوتے ہی صورتحال کچھ یوں ہوتی کہ کون سا مقدمہ‘ کہاں کی شاعری؟ بڑھتی عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ آگاہی کے عذاب سے جوں جوں شناسائی بڑھتی جا رہی ہے الطاف حسین حالیؔ کا یہ مقدمہ روز نئی جہتوں کے ساتھ دماغ کی کھڑکیاں اور دروازے کھولے چلا جاتا ہے۔ الزام صرف شاعری پر ہی ہوتا تو غنیمت تھا یہاں تو معاشرے کے سارے چہرے ہی بگاڑ اور دن بدن تنزلی کا شکار ہیں۔ یہاں تو کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں اُجاڑے نہ پھر گئے ہوں۔ ادب کی سبھی اصناف سے لے کر علم و حرفت تک‘ مسیحائی سے لے کر دادرسی تک‘ سماجی انصاف سے لے کر امن و امان تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔ الطاف حسین حالیؔ نے تو مقدمہ شعروشاعری لکھ کر بُری شاعری کے معاشرے پر اثرات بیان کر ڈالے‘ دورِ حاضر میں اگر وہ ہوتے تو بُری گورننس سے لے کر بری مسیحائی تک‘ بری تدریس سے لے کر بری طرزِ حکمرانی اور بری اخلاقیات تک نجانے کتنے ہی مقدمات لکھ ڈالتے۔
اس تمہید کا پس منظر بھی بیان کرتا چلوں کہ گزشتہ روز برادرِ محترم حسن نثار کے ساتھ گپ شپ کے دوران منو بھائی کا ذکر آنکلا تو میں نے کہا کہ آج منو بھائی کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت چکے ہیں۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا‘ یہ خیال مزید افسردہ اور مایوسی سے دوچار کر ڈالتا ہے کہ ایک ایک کر کے سبھی بڑے انسان دنیا سے رخصت ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن آنے والے وقتوں میں ان کا متبادل تو درکنار کوئی ایسا مائی کا لعل دُور دُور تک نظر نہیں آتا جو ان جانے والوں کا چند فیصد خلا بھی پُر کر سکے۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری زمین بنجر ہوتی چلی رہی ہے۔ جس پر برادرم حسن نثار نے اپنے روایتی جوش خطابت سے مزید افسردہ کر دیا کہ تم ایک منو بھائی کے متبادل کی بات کرتے ہویہاں پورا ملک ہی اُجاڑ اور ویران دکھائی دیتا ہے۔ ایوانِ اقتدار سے لے کر اس ملک کے گلی محلوں تک ‘کہیں یہ لگتا ہے کہ یہ ملک اور معاشرہ چل رہا ہے؟ جامد اور ساکت ہو کر سبھی کچھ گل سڑ چکا ہے۔ ان کے گھر سے نکلا تو واپسی کے سفر میں دل بوجھل اور ذہن پریشاں خیالی کا شکار تھا۔ بات تو سولہ آنے ٹھیک تھی کہ منو بھائی کی مزاحمتی شاعری ہو یا بے باک کالم ان کے سبق آموز ڈرامے ہوں یا تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کے لیے زندگی کے وہ آخری بیس برس وقف کر دینا جب انسان کو آرام اور سکون کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ڈرامہ نگاری کو ہی لے لیجئے‘ منو بھائی سمیت حسینہ معین ہوں یا اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ ہوں یا مستنصر حسین تارڑ‘ عطاالحق قاسمی ہوں یا امجد اسلام امجد‘ اصغر ندیم سید ہوں یا انور مقصود‘ فاطمہ ثریا بجیا ہوں یا نور الھدیٰ شاہ کس کس کا نام لوں... ان سبھی کے ڈرامے ہند سندھ سمیت پوری دنیا میں ریکارڈ توڑ مقبولیت کے حامل رہے ہیں اور عصرِ حاضر کے ڈراموں پر نظر ڈالیں تو عجیب سا احساس ہوتا ہے۔
کبھی ہمارے ڈراموں کے اوقات میں امرتسر سمیت بھارت کے کئی شہروں میں بازار بند ہو جایا کرتے تھے۔ آج بھارتی ڈرامے ہمارے ملک میں کس قدر شوق اور باقاعدگی سے دیکھے جاتے ہیں کہ کچھ نہ پوچھئے۔ یہی پتلا حال کچھ شاعری کا بھی ہے‘ کہیں پی آر مشاعرے ہیں تو کہیں بے وزن اور چربہ شاعری‘ بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے... بات ہو رہی تھی ایوانِ اقتدار سے لے کر گلی محلوں تک کہیں اخلاقیات کا فقدان ہے تو کہیں اہلیت کا‘ جس قومی ایئرلائن کا طرئہ امتیاز باکمال لوگ لاجواب سروس تھا اس قومی ایئرلائن کو بھاری مالی خسارے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جس سُبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا ہے وہ یقینا غیرتِ قومی پر بھی سوالیہ نشان بنتے چلے جا رہے ہیں۔ جس ملک کے وزیر ہوا بازی کی بیان بازی اس ملک و قوم کے لیے شرمندگی کا پہاڑ بن جائے اور وہ اس پر بھی نازاں اور اترائے پھرتے ہوں۔ ایک وقت تھا کہ ہماری یونیورسٹیاں غیر ملکی طلبا و طالبات سے بھری ہوتی تھیں۔ آج حکومتی پالیسیوں اور عدم دلچسپی سے بننے والے منظر نامے پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک کے ڈاکٹر پوری دنیا میں مسیحائی کی اتھارٹی تسلیم کیے جاتے ہیں‘ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ باقی شعبوں کی طرح یہاں بھی مسیحائی کی بجائے کمرشل اِزم کا دور دورہ ہے۔ نہ کہیں سماجی انصاف ہے اور نہ ہی کہیں قانون کی حکمرانی... یعنی تھانہ‘ پٹوار ہو یا ہسپتال سبھی میں عوام کو ذلّت اور دھتکار کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ کس کس کا رونا روئیں... سرکار تو سرکار عوام بھی کسی کام میں اپنی سرکار سے پیچھے نہیں۔
کم تولنے سے لے کر ڈنڈی مارنے تک‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک سبھی کچھ انتہائی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کئے چلے جاتے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں دودھ پیتے بچے بھی آلودہ اور مضرِ صحت دودھ پینے پر مجبور ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والے ہوں یا ان کی پشت پناہی کرنے والے‘ سبھی معاشرے میں باعزت اور اترائے پھرتے ہیں۔ ان سبھی برائیوں اور علّتوں کے باوجود ہم نیک کہلوانا بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے نہ ان کے حالات بدلتے ہیں اور نہ اخلاقیات... الغرض معاشرے کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جو اپنا کام اور ذمے داری دیانتداری سے نبھا رہا ہو۔ سبھی جگاڑ اور شارٹ کٹ کے چکر میں نجانے کیا کچھ شارٹ کیے چلے جا رہے ہیں۔
جس ملک کے وزیروں اور مشیروں کی اہلیت نامعلوم اور قابلیت صفر ہو‘ زبان اور قول کی حرمت سے ناآشنا نمائشی دعوے اور جھوٹے وعدے کرتے نہ تھکتے ہوں تو ایسے میں الفاظ بھی سراپا احتجاج ہوتے ہوں گے کہ ان نادانوں کو خود نہیں معلوم کہ جو الفاظ اپنے منہ سے ادا کر رہے ہیں ان کی حرمت کے تقاضے کیا ہیں‘ ان کے معانی و مفہوم کیا ہیں۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کا دل و دماغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ جو منہ میں آتا ہے بس کہے چلے جاتے ہیں‘ انہیں خود نہیں معلوم کہ ان کے بلند بانگ دعووں سے عوام کیسی کیسی اُمیدیں باندھ کر خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کے لمبے سفر پر جانکلتے ہیں اور کھلی آنکھ سے خوابوں کے کیسے کیسے محل سجا ڈالتے ہیں اور حکمرانوں کی جفاؤں کے نتیجے میں جب ان کے یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سجائے خوابوں کی جگہ کرچیاں لے لیتی ہیں۔ مایوسی کے اندھیروں میں صرف ایک ادارہ ہے جس کی قابلیت اور مہارت ہی اسے دنیا بھر میں ممتاز کیے ہوئے ہے اور حالیہ عالمی درجہ بندی میں 10بہترین افواج میں بھی شامل ہے۔ یہ اعزاز بھی پاک فوج کا ہی ہے جو اپنے کام کے ساتھ ساتھ ہر اس جگہ شانہ بشانہ ہوتی ہے جہاں اس کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ گھوسٹ سکولوں کی کھوج ہو یا مردم شماری‘ قدرتی آفت ہو یا حادثہ‘ امن و امان کا سوال ہو یا دہشت گردی کا قلع قمع‘ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہو یا نظریاتی ‘کون سا ایسا محاذ ہے جہاں پاک فوج قوم کے ہم قدم اور اس کی مددگار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات میں توازن قائم رکھنے کا کریڈٹ بھی صرف پاک فوج ہی کو جاتا ہے۔