کہاوت ہے کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ پہ بھاری ہوتی ہے۔ تصویر وہ کچھ عیاں کر ڈالتی ہے جو ہزار الفاظ بھی بیان نہیں کر سکتے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر میں امریکی صدر جوبائیڈن گھٹنوں کے بل جھک کر ریاست کی طرف سے اس سیاہ فام بچی سے معافی طلب کر رہے ہیں جس کے باپ کو سات ماہ قبل امریکی پولیس نے مار ڈالا تھا۔ دنیا کا یہ طاقتور ترین حکمران پوری دنیا کو یہی پیغام دے رہا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ حکمران نہیں عوام ہوتے ہیں۔ قارئین‘ آپ سبھی کو یاد ہو گا کہ امریکہ میں سیاہ فام شہری کی ہلاکت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بربریت کا بدترین نمونہ قرار دے کر پوری امریکی قوم پولیس کے اس ظالمانہ اقدام پر سراپا احتجاج بن گئی تھی۔ یہ احتجاج صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی ریکارڈ کروایا گیا۔ امریکی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام کی ہلاکت پر کس طرح پولیس چیف نے اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شٹ اَپ کال دی تھی کہ اگر کچھ اچھا نہیں بول سکتے تو اپنی زبان بند رکھیں۔
پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر عوامی سطح پر احتجاج ہو یا امریکی حکومت کا اعتراف‘ امریکی صدر کے نامناسب بیانات پر پولیس چیف کی شٹ اَپ کال ہو یا جوبائیڈن کی ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی بچی سے سرکاری سطح پر معافی... یہ سبھی کچھ مہذب معاشروں میں ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو حکمران ایسا سوچنا بھی اپنے مزاجِ شاہانہ کی توہین سمجھتے ہیں۔ مہذب ممالک کے حکمران ریاستی جبر کا نشانہ بننے والوں سے معافی مانگنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے جبکہ ہمارے ہاں حکمران تعزیت اور یکجہتی کے بجائے الزام تراشیاں کرتے نہیں تھکتے۔ ایسا کوئی حادثہ یا سانحہ پیش آ جائے تو سرکاری سطح پر کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ کیا افسران‘ کیا اہلکار سبھی حقائق کو اس طرح مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا کوئی جھوٹ بولنے کا ٹورنامنٹ ہو۔
سانحہ ساہیوال کو دو برس بیت چکے ہیں۔ کس بے دردی سے انسدادِ دہشتگردی کے ادارے نے معصوم بچوں کے سامنے نہتے اور بے بس خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔ ہنسی خوشی شادی میں شرکت کے لئے جانے والا یہ خاندان سڑک کنارے خون میں نہلادیا گیا۔ ہر آنکھ اشکبار اور فضا سوگوار تھی۔ عینی شاہدین اور بچوں کے بیانات نے ہی اس کارروائی کو بربریت اور سفاکی کا بدترین نمونہ ثابت کر دیا تھا جبکہ دوسری طرف بے حسی کا عالم یہ تھا کہ وزرا اس بربریت کو انسدادِ دہشتگردی کی کارروائی قرار دینے پر بضد اور طرح طرح کی قلابازیاں لگاتے رہے۔ اکثر وزرا نے تو اس بے گناہ خاندان سے دہشت گردی کا سامان اور بارودی جیکٹیں بھی برآمد کروا ڈالی تھیں۔ اس سانحہ کی رپورٹ آنے کے باوجود نہ کسی کو اپنے بیان پر شرمندگی ہوئی نہ کسی کو بہتان باندھنے پہ کوئی ندامت ‘معافی طلب کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابھی چند روز پہلے اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں نہتے طالب علم کے قتل پر حکمرانوں کا رویہ بھی سبھی کے سامنے ہے۔ معطلیوں‘ گرفتاریوں اور مقدمات کے بعد یہ کیس بھی وقت کی گرد میں دب کر رہ جائے گا جس طرح نقیب اﷲ محسود سمیت کتنے ہی بے گناہوں کی روحیں حصولِ انصاف کے لیے آج بھی بھٹک رہی ہیں۔ سانحہ 12مئی ہو یا بلدیہ ٹاؤن اور سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ سانحا ت میں خون کی ارزانی کے مناظر ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان سانحات میں ناحق مارے جانے والوں کی روحیں موجودہ حکمرانوں سے بھی سوال کرتی ہیں کہ سانحہ 12مئی پر وہ کس طرح ذمہ داران کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے تھے۔ کنٹینر پر کھڑے ہوکر کس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مارے جانے والوں کے خون کا واسطہ دے کر عوام کا خون گرمایا کرتے تھے۔ انہیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ ان ناحق مارے جانے والوں کو انصاف دلوانے سے مشروط جو مینڈیٹ عوام نے تحریک انصاف کو دیا تھا اس کا یہ حشر ہو گا‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ابھی حال ہی میں سانحہ مچھ پر حکمرانوں کے رویے نے ملک میں شدید تشویش پیدا کئے رکھی۔ ایسے سانحات اور حکومتی رویوں کی داستان اتنی طویل اور دردناک ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ سانحات تو اپنی جگہ حکومتی گورننس کی بھینٹ چڑھنے والوں کی داستان بھی کم طویل نہیں۔ جہاں ہسپتالوں میں کبھی آکسیجن ختم ہو جانے سے‘ کبھی شارٹ سرکٹ سے شیر خوار بچے مر جاتے ہوں اور کوئی اس کی ذمہ داری لینا تو درکنار لواحقین سے تعزیت تک کرنے کا روادار نہ ہو‘ جہاں ہسپتالوں میں علاج معالجے کی مطلوبہ سہولیات میسر نہ ہوں‘ تو کیسے حکمران اور کہاں کی حکمرانی؟
جس معاشرے میں ناحق مارے جانے والوں کی روحیں حصولِ انصاف کے لیے سالہا سال بھٹکتی ہوں وہاں عوام جیسی مخلوق کی حیثیت اور اوقات ہی کیا۔ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ جب تک تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال میں عوام کو دھتکاراور پھٹکار کے بجائے عزت و داد رسی نہیں ملے گی‘ اُس وقت تک ایسے سانحات پیش آتے رہیں گے اور حکمران اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کر کے مرنے والوں کو قصوروار ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کریں گے‘ بلکہ اپنی نااہلیوں کا ذمہ دار بھی عوام کو ہی ٹھہراتے رہیں گے۔ چند ماہ قبل سانحہ موٹر وے پر متاثرہ خاتون کے بارے میں جو بیان لاہور پولیس کے اُس وقت کے سربراہ نے دیا تھا‘ اس پر تنبیہ کرنے یا اس کا نوٹس لینے کے بجائے کس طرح حکومتی مشیر اور وزیر اُس انتہائی افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ بیان کے دفاع کے لیے وفاقی دارالحکومت سے صوبائی دارالحکومت آن پہنچے تھے۔
یہ بھی حکمرانوں کی گورننس کی کرامات ہیں کہ روزانہ اخبارات کے ڈھیر میں کیسی کیسی خبریں ایسے منہ چڑاتی نظر آتی ہیں کہ اچھے خاصے کالم کا توازن بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اصل موضوع سے بھٹکانے کا بھی باعث بنتی ہیں۔ ہزار کوشش کے باوجود بیشتر ایسی خبریں ہوتی ہیں جو کالم کے اصل موضوع پر اثر انداز ہو کر ہی رہتی ہیں۔ آج بھی ایک خبر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے جس میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے حالیہ ضمنی انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دار وزیر اعظم کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ سربراہ حکومت کے پاس تو بات سننے کا وقت نہیں ہے‘ ایسی صورتحال میں آئندہ کون انتخابات میں حصہ لے گا۔ یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں‘ انہوں نے کتنے بڑے بڑے دعوے کیے تھے لیکن اڑھائی سال گزرنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کر پائے۔ وزیر اعظم نے الیکشن میں حصہ لینے کا کہنے کے بعد پلٹ کر کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ارباب صاحب آپ ایک ضمنی الیکشن پہ ہی پھٹ پڑے‘ ابھی تو کئی امتحان باقی ہیں۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے مسلسل فرار کی کوئی تو وجہ ہو گی جس کے باعث تحریک انصاف کی حکومت مسلسل تاریخوں پہ تاریخیں دیئے چلے جا رہی ہے۔
لاہور جیسے شہر کی صورتحال اس قدر توجہ طلب ہو گئی ہے کہ کہیں کوڑے کے انبار نظر آتے ہیں تو کہیں اہم ترین شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ٹریفک حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ گلی محلوں اور فٹ پاتھوں کی حالت بھی دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بلدیاتی ادارے سرکاری بابوؤں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا حکم بھی جاری کر دیا ہے؛ تاہم دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ اول تو یہ انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے‘ اگر کوئی صورت بن بھی گئی تو امیدواروں کے لیے حلقے میں جا کر ووٹ مانگنا اور عوام کا سامنا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہ ہو گا۔ ارباب صاحب اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔