آج ملک بھر میں ہر سال کی طرح یوم یکجہتیٔ کشمیر روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر سیمینار‘ ریلیاں اور شعلہ بیانیاں اس بار بھی دیکھنے اور سننے کو ضرور ملیں گی۔ ان سبھی مناظر کے فوٹو سیشن یکجہتیٔ کشمیر کے جذبے میں اضافے کا باعث بھی بنتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم پر دریندر مودی کی مذمت سے لے کر لعن طعن تک سبھی کچھ یکجہتیٔ کشمیر کی سرگرمیوں میں جاری رہے گا۔ ہمارے ہاں 5 فروری کو بھارتی حکمرانوں کے پُتلوں کی چھترول کرکے نذرِ آتش کرنا بھی کشمیریوں سے یکجہتی کا ایک انداز ہے۔ ریلیوں اور سیمینارز میں مودی کی مرمت کرنے سے لے کر ہاتھ توڑ ڈالنے تک نجانے کیا کچھ کرنے کے دعوے تو کیے جاتے رہے ہیں‘ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہاتھ تڑوانے کیلئے مودی یہاں آئے گا یا یہ خود وہاں جا کر اس کے ہاتھ توڑیں گے۔ کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف یہ جذبے قابلِ قدر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ خالی خولی نعروں اور بیانات سے تو حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس کیلئے ہمیں خود کو بدلنا اور مضبوط بنانا ہو گا۔ سیاسی طور پر بھی اور عسکری ‘ سماجی اور اخلاقی حوالوں سے بھی۔
یکجہتی کا یہ سلسلہ روزِ اوّل سے اسی جوش و جذبے سے جاری ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا‘ جولائی 2019ء میں وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران اچانک ایک بریکنگ نیوز آئی کہ امریکہ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے اور اس خبر پر ہمارے ہاں جشن کا سماں تھا۔ تحریک انصاف کے متوالے تو پھولے نہ سماتے تھے۔ ٹرمپ عمران ملاقات پر ڈھول ڈھمکے سے لے کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک سبھی کچھ بڑے جوش و خروش سے کیاگیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو مثالی ثابت کرنے کے لئے کیسے کیسے دلائل اور توجیحات سننے کو ملتی رہیں۔ ٹاک شوز میں وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کو تاریخی ثابت کرنے کے لئے سابق حکمرانوں کے دوروں سے موازنہ کر کے تمسخر بھی اُڑایا جاتا رہا۔ جوشِ خطابت اور شعلہ بیانی کا کیسا کیسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا اور قوم کو یہ اُمید دلائی گئی کہ اَب ہم امریکہ بہادر کے ساتھ با وقار تعلقات برابری کی سطح پر استوار کریں گے۔
قارئین! آپ کو یاد ہو گا میں نے اُس وقت بھی کم و بیش یہی کہا تھا کہ ''خدارا! ہوش کے ناخن لیں‘‘ اور امریکی رومانس کا نشہ اپنے حواسوں پر سوار نہ کریں۔ وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ پر شادیانے ضرور بجائیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی پس منظر اور فلسطین پر امریکی ثالثی بھی یاد رکھیں۔ ثالثی کی پیشکش کو بڑی خبر قرار دینے والوں کو اس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھاکہ اس پیش کش کو اتنی بڑی خبر بناکر پیش نہ کریں‘ نہ ہی کسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔ دورۂ امریکہ کی کامیابی یا نا کامی کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ بڑی خبر وہ ہو گی جو اس دورے کے بعد سامنے آئے گی اور ہونی ہو کر رہی۔ ثالثی کی پیشکش پیشگی اطلاع ثابت ہوئی۔ وہ پیشگی اطلاع یہ تھی کہ اب مسئلہ کشمیر پر مزید انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے جا رہے ہیں اور بھارت نے آرٹیکل 370 سے منحرف ہو کر کشمیر کو واپس 1947ء کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔
لاٹھی گولی کی بھارتی سرکار نے طاقت کے زور پر کشمیریوں سے کیے گئے آئینی معاہدوں کی تنسیخ کے ساتھ ساتھ تمام اخلاقی قدروں اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس وقت اپوزیشن نے برملا کہہ ڈالا تھا کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بھارتی اقدام کا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے معلوم تھا اور اب یہ فیس سیونگ کے لیے یکجہتی کشمیر کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔ بھارت کے حالیہ انتخابات کے دوران تو مودی نے پوری ڈھٹائی سے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے مکروہ عزائم کا کھل کر اظہار کر دیا تھا۔ ہمارے حکمران مودی کے دعووں اور بڑھکوں کو انتخابی نعرے ہی سمجھتے رہے لیکن اس موذی مودی نے وہ کر دکھایا جو اس نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا۔
پرچم سرنگوں‘ کالی پٹیاں‘ ریلیاں‘ مذمتی نعرے‘ یوم یکجہتیٔ کشمیر سے لے کر یومِ سیاہ تک سبھی کچھ تو ہم سرکاری سطح پر مناتے چلے آ رہے ہیں۔ اب اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث بھارتی قیادت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ پاک فضائیہ کے جوابی وار کے نتیجے میں بھارتی طیارہ گرا کر پائلٹ کا زندہ پکڑے جانا اور زیر حراست ابھی نندن کو حسنِ سلوک کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دینا کوئی زیادہ پرانی بات تو نہیں۔ بھارت اس پسپائی اور جگ ہنسائی کے باوجود لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی مسلسل کیے چلا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ کا اس سے بڑھ کر جبر اور کیا ہوگا کہ نہتے کشمیریوں پر دن دیہاڑے گولیوں کی بوچھاڑیں ہو رہی ہیں، خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، سکولوں اور ہسپتالوں کو آج بھی انتہائی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تمام تر احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ دوسری جانب عالمی برادری نے بھی اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ اس حقیقت سے پوری دنیا آگاہ ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین اس طرح کا سلگتا ہوا مسئلہ کسی بھی وقت کسی بڑے سانحے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس خاموشی نے مودی کی انتہا پسندی اور اس کے جارحانہ عزائم کو شہ دی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بہیمانہ بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمارے حکمران بجا طور پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں لیکن کچھ توجہ داخلی معاملات پر دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ایف بی آر کے ایس۔آر۔او نمبر 96(1)/2021 بتاریخ 26 جنوری 2021 جاری ہونے سے نہ صرف کشمیر کی خصوصی اہمیت پر سوالیہ نشان آ سکتا ہے بلکہ پہلے سے ہی وینٹی لیٹر پر موجود معیشت کی سانسیں بند کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ انصاف سرکار کو معاشی استحکام کے حوالے سے اپنے ان بیانیوں کے ڈھول بھی ضرور یاد رکھنے چاہئیں جو وہ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے بجاتے رہے ہیں۔ پہلے کونسی دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں جو اب آزاد کشمیر کی صنعتوں پر امتیازی ایس آر او کی تلوار چلا کر مزید بد حالی اور عدم استحکام کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو سخت نوٹس لے کر صنعت کاروں کے تحفظات ضرور دور کرنے چاہئیں تاکہ صنعت کا پہیہ چلتا رہے کیونکہ اس کی چمنیوں سے نکلنے والے دھواں ہی صنعت اور صنعتی کارکنوں کی لائف لائن ہے۔یہ دھواں ہی کشمیری عوام کی ترقی کی ضمانت ہے۔
اب چلتے ہیں دوبارہ یکجہتیٔ کشمیر کی طرف کہ کاش اس بار بھارت کو کھلا پیغام دینے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں سارے اختلافات، عناد اور بغض بالائے طاق رکھ کر سبز ہلالی پرچم تلے جمع ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یک زبان ہوکر اﷲ اکبرکا ایسا فلک شگاف نعرہ لگاتے کہ نئی دہلی کے نہ صرف ایوان ہل کر رہ جاتے بلکہ بھارت پر بھی واضح ہو جاتا کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ایسا کرنا ناممکن نہیں‘ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی اور دوسرے اختلافات فی الحال طاق پر رکھ دیئے جائیں اور کشمیریوں کے حق میں ہر طرح سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ماضی کی تمام غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ایک دوسرے کے لیے دلوں میں ذاتی رنجشیں کینہ‘ بغض اور عناد ختم کر کے سیاسی وابستگیوں سے بے نیاز ہو کر کشمیریوں سے یکجہتی کے علاوہ ان کی آزادی کے لیے فیصلہ کن آواز بن جائیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کا بھارتی اقدام کشمیریوں کی آزادی کا سنگِ میل ثابت ہو گا بلکہ بھارت کے اندر پلنے والی مزاحمت کی درجنوں تحریکیں پہلے ہی بھارت کے گلے پڑ چکی ہیں۔