وزیراعظم نے اپوزیشن کو اپنے مشروط استعفے کی پیشکش کرکے کیا ترپ کا پتا کھیلا ہے کہ گیند اپوزیشن کے کورٹ میں پھینک ڈالی ہے۔ نہ کوئی لوٹی ہوئی رقوم واپس کرے گا اور نہ ہی استعفے کی نوبت آئے گی۔ یہ کھیل نیا نہیں‘ بہت پرانا ہے۔ چہرے، کردار اور بازیگر بدلتے رہتے ہیں‘ کھیل وہی رہتا ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ سبھی کو کم و بیش ایسی ہی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ یہ کیسا گورکھ دھندا ہے کہ ملکی خزانہ بھی صاف ہے اور لوٹنے والے کے ہاتھ بھی صاف؟ احتساب اور احتیاط ساتھ ساتھ جاری ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا احتساب کیا اور انصاف سرکار سے احتیاط برتی جارہی ہو۔
انصاف سرکار کا کہنا ہے کہ اپوزیشن چور ہے اور ملک و قوم کو لوٹ کر کھا گئی ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کا الزام ہے کہ احتساب یکطرفہ ہورہا ہے، مالم جبہ، بلین ٹری اور بی آر ٹی سمیت نجانے کتنے کیسز ناصرف زیر التوا ہیں۔ رہنما وزیر اعظم مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں لیکن اپوزیشن سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ اگر کشمیر جیسے دیرینہ اور گمبھیر مسئلے پر بھارت سے بات چیت ہو سکتی ہے تو اپوزیشن سے ڈائیلاگ میں کیا اَمر مانع ہے؟ سبھی ایک دوسرے سے نالاں اور شاکی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں: این آر او نہیں دوں گا۔ اپوزیشن کہتی ہے: این آر او مانگا کس نے ہے؟ عوام ایسے سیاسی سرکس کا تماشا کئی دہائیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ عوام یہ تماشا دیکھتے دیکھتے خود تماشا اور حکمران تماشائی بن چکے ہیں۔
خان صاحب اپوزیشن کو این آر او دیتے ہیں یا نہیں دیتے، اپوزیشن نے ان سے این آر او مانگا ہے یا نہیں‘ یہ ایک نا ختم ہونے والی بحث ہے کیونکہ دونوں دھڑوں کا اپنا اپنا کوّا ہے اور دونوں کا کوّا چِٹّا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اب عوام بھی این آر او مانگتے ہیں، سبھی ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اُن سبھی جرائم کا اقبالِ جرم کرنے کو بھی تیار ہیں جو نہ انہوں نے کیے‘ نہ ہی ایسا سوچ سکتے ہیں۔ اگر ملک کو لوٹنے والے ضمانتیں حاصل کرکے ملک بھر میں موجیں مارتے پھرتے ہیں تو عوام بھی ضمانت پر اس قید سے رہائی مانگتے ہیں جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
عوام اس جبرِِ مسلسل سے بھی رہائی مانگتے ہیں جو نجانے کتنی صدیوں سے نسل در نسل جھیل رہے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی سے رہائی چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگیاں اجیرن اور حالت زار بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ عوام دست بستہ سبھی ناکردہ گناہوں کی معافی کے طلبگار ہیں۔ ان سبھی جرائم پر بھی این آر او چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔ عوام جینے کا حق اور پیٹ بھر روٹی کے سوا اور چاہتے ہی کیا ہیں؟ یہ سیاستدان حزبِ اختلاف میں ہوں یا برسرِاقتدار عوام کے لیے عذاب ہی عذاب ہیں۔ کبھی مہنگائی کا عذاب تو کبھی لوٹ مار کا‘ کبھی بدامنی کا عذاب تو کبھی بدعہدی کا۔ عوام کو کیسے کیسے عذابوں کا سامنا ہے۔ کہیں جھوٹی تسلیاں اور نمائشی دعوے تو کہیں بیانات کی جگالیاں۔ کہیں وعدوں سے انحراف ہیں تو کہیں نیتوں میں کھوٹ۔ دھوکے پہ دھوکہ کھاتے کتنی ہی دہائیوں سے بھٹکتے یہ عوام کس کس عذاب کا رونا روئیں؟ کب تک روئیں، یہ رونا تو اب ان کا کا مقدر بن چکا ہے۔
ہر آنے والا حکمران اپنے بدترین طرزِ حکمرانی پر نازاں اوریوں مطمئن نظر آتا ہے کہ گویا اس نے عوام کی ساری تکالیف نہ صرف دور کر ڈالی ہیں بلکہ وہ تمام خواب بھی شرمندۂ تعبیر کر دئیے ہیں جواقتدار میں آنے سے پہلے عوام کوتواتر سے دِکھائے جاتے رہے۔ اپنی بدعہدیوں اور بیڈ گورننس کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراکر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کسی کیسی توجیہات اور منطقیں گھڑتے دِکھائی دیتے ہیں۔ الغرض ہر دور میں عوام کی ذلّت دھتکار اور پھٹکار میں نہ صرف ریکارڈ اضافہ کرکے عرصۂ حیات بھی اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ جابجا مایوسیوں کے سائے اور بے یقینی کے اندھے گڑھے ہی دِکھائی دیتے ہیں۔
جب من مانی طرزِ حکمرانی بن جائے تو سارے معاملات تماشا کیوں نہ بنیں۔ چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن عدالتِ عظمیٰ کے تحفظات کو خاطر میں لایا گیا‘ نہ احکامات پر عمل کیا گیا۔ معزز عدالت نے کرپشن کے زیر التوا کیسز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیس سال پرانے کیسز بھی زیر التوا ہیں تو یہ کیسز نمٹانے کے لیے ایک صدی لگ جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے 120نئی عدالتیں بنانے کا حکم دیتے ہوئے یہ تاکید بھی کی تھی کہ تمام کرپشن کیسز اور ریفرنسز کا فیصلہ تین ماہ میں ہونا چاہیے۔ ملک بھر میں صرف 25احتساب عدالتیں 1226 زیر التوا کیسز کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ اس تناظر میں سپریم کورٹ کے تحفظات یقینا بجا ہیں کہ کرپشن کیسز اگر 20سال تک زیر التوا رہیں گے تو کہاں کا انصاف اور کیسااحتساب؟
کڑے احتساب اور سماجی انصاف جیسے فخریہ بیانیے لے کر برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف احتسابی عمل کو یقینی بنانے میں کس حد تک سنجیدہ ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ سپریم کورٹ کے شدید تحفظات اور احکامات کے باوجود نئی عدالتوں کے قیام تاحال التوا کا شکار ہے۔ یہ نئی عدالتیں غالباً ابھی سرکاری بابوؤں کی ''نوٹنگ ڈرافٹنگ‘‘ میں ہی بھٹک رہی ہیں۔ ابھی فائل فائل ہی کھیلا جارہا ہے اور فائلیں بھی ایک میز سے دوسری میز، ایک بابو سے دوسرے بابو، ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر کھاتے کھاتے چکرا چکی ہوں گی ۔
مختلف حلقوں کی جانب سے نیب کی کارکردگی پر آئے روز سوال تو اٹھائے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دستیاب وسائل میں اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ نئی عدالتوں کا قیام ہی کافی نہیں بلکہ شعبہ پراسیکیوشن کو مضبوط اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیے بغیر نیب سے مثالی کارکردگی کی توقع بھی ناقابلِ فہم ہے۔ جب تک نیب پراسیکیوٹر مدِّمقابل کے پائے کا نہیں ہوگا تو نیب کس طرح اور کب تک استغاثہ کا دفاع کر سکتا ہے۔ نیب کا ملزم کوئی عام آدمی نہیں ہوتا، نیب کا کام تفتیش اور مطلوبہ شواہد اکٹھے کر کے عدالت بھجوانا ہے لیکن ٹرائل کے دوران نیب پراسیکیوٹر قد آور اور منجھے ہوئے اس چیمبر کا مقابلہ نہیں کر پایا، جو چیمبر کامیابی کی ضمانت اور برانڈ تصور کیے جاتے ہیں۔
انصاف سرکار اگر احتساب کے معاملے میں سنجیدہ اور مخلص ہے تو غیر جانبدارانہ احتساب کو نہ صرف یقینی بنانا ہوگا بلکہ ان سبھی شریک اقتدار شخصیات کو بھی احتساب کے لیے پیش کر دینا چاہیے جن پر اپوزیشن بار بار انگلیاں اٹھا رہی ہے۔ کوئی انصاف سرکار کی کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی ایوانِ وزیراعظم میں خود کو محفوظ اور ناقابلِ احتساب تصور کرتا ہے۔ کسی کا شمار معاونین میں ہوتا ہے تو کوئی مصاحبین میں شامل ہے۔ ان سبھی کا احتساب کیے بغیر کڑا احتساب اور سماجی انصاف جیسے فخریہ بیانیوں پر فخر نہیں کیا جاسکتا۔ اور احتساب کے عمل کو مزید تماشا بنانے سے بہتر ہے کہ ان تمام وجوہات پر توجہ دی جائے جن کی وجہ سے احتساب کے عمل پر آئے روز سوالیہ نشان آ جاتے ہیں۔ اگر اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو احتساب کا لفظ مذاق بن کر رہ جائے گا۔ احتساب کو مذاق بنانے کے ذمہ دار یاد رکھیں کہ وہ خود مذاق بنتے چلے جا رہے ہیں۔