"AAC" (space) message & send to 7575

گھس بیٹھیے اور پاور سیکٹر

کہیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر گھس بیٹھیے سازش کر رہے ہیں تو کہیں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ ایسا اندھیر مچا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ آج کا کالم اس حوالے سے کٹھن مرحلہ اور آزمائش سے کم نہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک موضوع قلم آرائی پر اکسائے چلا جا رہا ہے۔ ان حالات میں صحافتی ذمہ داریوں کا تقاضا یہی ہے کہ سبھی پر ممکنہ حد تک قلم آرائی ضرور کرنی چاہیے۔دو فروری کو شہرِ اقتدار کی ایک مصروف سڑک چار بے کس اور معصوم جیتے جاگتے انسانوں کے خون سے تر ہوگئی۔ ناحق مارے جانے والے نوجوانوں میں انیس نامی ایک نوجوان سہانے مستقبل کے کیسے کیسے خواب سجائے اینٹی نارکوٹکس میں نوکری کا ٹیسٹ دینے آیا تھا جبکہ اس کے تین چھوٹے بھائی معذور ہیں۔ انیس کی اس اندوہناک موت کی خبر نے اس گھرانے پر کیسی قیامت برپا کی اس کا اظہار کم از کم الفاظ میں تو ہرگز ممکن نہیں۔اس سانحے میں ناحق مارے جانے والے ایک 22سالہ نوجوان کی چند روز بعد شادی تھی‘ اس کی موت کی خبر سنتے ہی اس کی بوڑھی ماں حواس کھو بیٹھی ہے اور آخری اطلاعات تک وہ بدستور بے ہوش ہے۔ اسی طرح اس المناک حادثے میں ہلاک ہونے والے دیگر دو بد نصیبوں کے پس ماندگان کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں اور زخمی ہونے والے آج بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر دندناتی دیو ہیکل گاڑی نے کس قدر بے دردی سے جیتے جاگتے انسانوں کو یوں کچل ڈالا گویا یہ انسان نہیں کوئی کیڑے مکوڑے ہوں۔ اس پر ستم یہ کہ ایوانوں سے لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک نجانے کہاں کہاں بے حسی کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ دادرسی تو درکنار مذمت کے لیے بھی کسی کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا بلکہ جس طرح اس کیس کو ڈیل کیا جا رہا ہے عین ممکن ہے کہ آنے والے چند دنوں میں کسی ''ڈیل‘‘ کی خبر بھی آجائے۔
ایسے حادثات ہمارے ہاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ آئے روز بربریت اور سفاکی کے ایسے ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کوئٹہ کے مصروف ترین جی پی او چوک میں ڈیوٹی پر کھڑے ٹریفک سارجنٹ حاجی عطا کو بے دردی سے کچلنے والا مجید اچکزئی بے قصور قرار پائے جبکہ سی سی ٹی وی کیمرے سمیت سوشل میڈیا پر درندگی کا یہ بھیانک منظر آج بھی محفوظ ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ایک جواں سال طالب علم کو بھی شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گولیوں سے یوں بھون ڈالا تھا جیسے کوئی دہشت گرد ہو۔ اسی طرح سانحہ 12مئی ہو یا سانحہ بلدیہ ٹاؤن‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال ایسے نجانے کتنے سانحات ہمارے سسٹم کے منہ پر آج بھی کالک مل رہے ہیں۔
سانحات اور حادثات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحہ کے ذمہ داروں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے کمال مہارت سے حادثے کا رنگ دیا جاتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ‘ وقت کی گرد میں یہ سبھی سانحات یوں دب جاتے ہیں کہ ان پر قبر کا گماں ہوتا ہے۔ زمین پر جن ناحق مارے جانے والوں کو انصاف نہیں ملتا یا حکومت انہیں انصاف فراہم کرنے سے گریزاں ہو‘ تو ان کے مقدمات قدرت کی مدعیت میں آسمانوں پر درج کر لیے جاتے ہیں اور اُن کی روحیں بھی انصاف کی تلاش میں عرشِ بریں پر ضرور احتجاج کرتی ہوں گی اور بارگاہِ الٰہی میں فریاد بھی ضرور کرتی ہوں گی کہ اے ربِ کائنات کیا ہمارا خون یونہی رائیگاں جائے گا۔ ان زمینی خداؤں کی تیرے جاہ و جلال اور شانِ کبریائی کے آگے کیا حیثیت؟ یہ اپنے ظلم کی کھیتی کب کاٹیں گے؟
ایوانِ اقتدار سے لے کر انسانی حقوق کے علمبرداروں تک سبھی مصلحتوں اور مجبوریوں کی چادر تانے بے حسی کی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کے چیمپئن انسانی حقوق پر لیکچر دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاتھوں میں رنگ برنگے پلے کارڈ اٹھائے حقوق انسانی کے لیے آواز اٹھاتے اکثر نظر آتے ہیں‘ مگر ان لوگوں سے میرا ایک ہی اختلاف ہے کہ انسانی حقوق تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں آپ لوگ ایک بے حس معاشرے میں انسانوں کے کون سے حقوق کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہو۔ جس معاشرے میں دادرسی اور انصاف خواب بن جائے‘ مظلوموں کو دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہو‘ ان پر ٹوٹنے والی قیامتوں کے مقدمات ریاست کے بجائے آسمانوں پر درج ہوتے ہوں وہاں کہاں کے انسان اور کون سے حقوق؟ پہلے انسان سازی تو کر لو پھر انسانی حقوق کا چورن بھی ضرور بیچ لینا۔
کالم کے آغاز میں جن گھس بیٹھیوں کا حوالہ دیا تھا ان کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ تحریک ِانصاف کے لیے ناقابلِ تردید خدمات اور قربانیوں کے باوجود وزیراعظم کو جے کے ٹی سے کس کمالِ مہارت سے متنفرکیا گیا ہے‘ اس کا کریڈٹ بھی انہی چیمپئنز کو جاتا ہے۔ جے کے ٹی کو وزیراعظم سے دور کر کے یہ چیمپئنز ایک نئی بساط بچھا چکے ہیں اور کچھ نئے چیمپئنز اس کھیل کے مرکزی مہرے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عوام پر یہ عقدہ بھی کھلنے والا ہے کہ پاور سیکٹر کے معاونِ خصوصی کوئی گوہرِ نایاب نہیں بلکہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ان کے دل میں پاکستانیت کا درد اٹھا ہے۔ کے الیکٹرک کی تباہی اور بربادی کے بعد اب یہ چیمپئن پہلے سے بھلی چنگی اور منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں گھات لگا چکے ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ آنے والے وقت میں لیسکو‘ آئیسکو اور فیسکو میں اودھم مچانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ پاور سیکٹر کے ایک ڈان کا ان سبھی چیمپئنز کے ساتھ کیا لینا دینا اور کیا انڈرسٹینڈنگ ہے‘ امریکہ میں منی لانڈرنگ اور دیگر بدعنوانیوں میں ان پر کیوں مقدمات درج ہیں‘ برطانیہ انہیں امریکہ کے حوالے کیوں کرنے جا رہا ہے ‘ یہ حقیقتیں وہ خطرات ہیں جن سے ہر دردِ دل رکھنے والا پاکستانی پریشان اور مایوس نظر آتا ہے۔ خدا جانے ان ''گھس بیٹھیوں‘‘ نے وزیراعظم کو کون سے سبز باغ دکھائے ہیں کہ وہ ان پر اس حد تک انحصار کر بیٹھے ہیں۔کیا آنے والے وقتوں میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے پاور سیکٹر بہت بڑا سوالیہ نشان بننے جارہا ہے؟
سابق حکمرانوں کو لے کر پاور سیکٹر کے حوالے سے جن معاہدوں اور وارداتوں پر تحریک انصاف صبح شام تنقید کے نشتر برسایا کرتی تھی میرے اندازے کے مطابق ان سبھی وارداتوں کے ریکارڈٹوٹنے جا رہے ہیں۔ اگر بروقت ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو ہمیں نہ صرف پچھتانے کا وقت بھی نہیں ملے گا بلکہ سستی بجلی کا وعدہ بھی جھانسا بن کر رہ جائے گا۔ پاور سیکٹر کی بہترین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اونے پونے خریدنے کے لیے ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن لوگوں کو پلانٹ کیا جاچکا ہے ان کا ٹریک ریکارڈ اور شہرت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس حوالے سے حکومت سمیت تمام مقتدر اداروں کو ضرور توجہ کرنی چاہیے کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں پاور سیکٹر کا کیا حشر نشر ہو سکتا ہے۔ چائنیز کمپنی کو منافع بخش ڈسٹری بیوشن کمپنیاں حوالے کرنے کے حالات اور اسباب پیدا کرنے میں کون کون سرگرمِ عمل ہے؟ منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں کے الیکٹرک برباد کرنے والوں کے عمل دخل کو قومی سلامتی کے تناظر میں بھی دیکھ لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں