"AAC" (space) message & send to 7575

ووٹر پہ کیا گزری ہے

جوں جوں سینیٹ کا الیکشن نزدیک آتا جا رہا ہے سیاسی گہماگہمی بڑھتی جارہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت نقطۂ عروج پر ہے اوریہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر سُو آگ اُگلتا سیاسی سورج سوا نیزے پر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی ووٹ کی حرمت کے ڈھول بجا رہا ہے۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کا شور بھی زبان زدِ عام ہے‘ حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف دونوں طرف سے کیسی کیسی توجیہات پیش کی جارہی ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک ووٹ کی عزت و حرمت کا ٹھیکیدار دکھائی دیتا ہے۔ ووٹر کو عزت دیے بغیر ووٹ کی عزت کے بیانیے کس قدر بے معنی اور کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ عوام کے ووٹ سے عزت پاکر ایوانِ اقتدار میں جانے والوں نے کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ جن کے ووٹوں سے وہ آج اس ایوان میں براجمان ہیں ان ووٹرز پہ کیا گزر رہی ہے اور وہ کس حال میں ہیں؟
ووٹر کی عزت کئے بغیر ووٹ کی عزت کا ڈھول بجانے والے برسرِ اقتدار ہوں یا اپوزیشن میں‘ دونوں کی طرف سے ووٹر کی عزت تو درکنار مینڈیٹ دینے کی جو سزا عوام کو ہر دور میں دی جاتی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ووٹر اور ووٹ کو عزت ملتی کم از کم مستقبل قریب میں تو کہیں نظر نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ہی عزت ناپید ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نہ کوئی کسی کو تسلیم کرنے پہ راضی ہے‘ نہ کسی کی عزت کرنے پر۔ افراتفری کا سماں ہے‘ مسیحا علاج سے انکاری اور آئے روز احتجاج کے بہانے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں‘ قانون کی تعلیم سے آراستہ لوگ لاقانونیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سرکاری بابو عوام کے لیے اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں‘ تھانوں میں دادرسی نہیں‘ ناکوں پر ذلت کے سوا کچھ نہیں‘ بازاروں میں ایک دام نہیں‘ حکومت کی رِٹ نہیں‘ قانون کا احترام نہیں‘ میرٹ کا پاس نہیں‘ گورننس کا نام و نشان نہیں‘ عزت کے ناپید ہونے کی اس سے بڑھ کر نشانیاں اور کیا ہوں گی؟
قانون اور ضابطے ہوں یا سرکاری ادارے‘ یہ سبھی عوام کی سہولت اور فلاح کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ لیکن مفادِ عامہ سے مشروط یہ سبھی شعبے عوام کے لیے ہی عذابِ مسلسل بن چکے ہیں۔ عوام الناس کے جان و مال کی حفاظت پر مامور قانون کے رکھوالوں کا جو خوف و ہراس عوام میں پایا جاتا ہے انہیں شاید الفاظ میں بیان نہ کر سکوں۔ جہاں خوف اور دہشت کا یہ عالم ہو وہاں داد رسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جائز کام کے لیے بھی تھانے جانے سے پہلے وسیلے اور سفارشیں ڈھونڈی جاتی ہیں‘ تب کہیں جاکر کوئی سیدھے منہ بات کرتا ہے۔ عوام کے علاج معالجہ کے لیے بنائے گئے ہسپتالوں میں بے وسیلہ مریض کا علاج ہمیشہ نامکمل ہی رہتا ہے اور جب علاج نامکمل ہوگا تو بیماری مستقل روگ بن کر مرض تامرگ بن جاتی ہے۔
قانون اور انصاف سے منسلک طبقے کے بعض لوگوں ہی کو لیں‘ کمرئہ عدالت ہو یا احاطۂ عدالت‘ توہین اور تضحیک سے لے کر تشدد تک ‘ سرکاری عملے کے ساتھ بدسلوکی‘ مار کٹائی اور گالی گلوچ‘صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض سے روکنے کیلئے کیمرے توڑنے سے لیکر زدوکوب کرنے تک‘ سبھی واقعات انتظامی اور عدالتی تاریخ پر داغ ہیں۔ من چاہے فیصلے حاصل کرنے کے لیے بعض لوگ کس حد تک نہیں جاتے رہے؟ اگر کوئی من چاہے فیصلے کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے تو پھر انصاف کے تقاضے کیونکر پورے ہو سکتے ہیں؟ نہ کبھی کسی حکومت نے زحمت گوارا کی کہ ان کا ہاتھ روکے اور نہ ہی نظامِ عدل نے اس پر کوئی مناسب اقدامات کیے۔ مزاحمت اور ہڑتال کے خوف سے نہ کبھی ریاست حرکت میں آئی اور نہ ہی ریاست کا قانون‘ اُلٹا معاملے کو رفع دفع کیا جاتا رہا ہے۔ سانحہ پی آئی سی بھی اسی روایتی رویے کے نتیجے میں پیش آیا تھا۔ اگر اس سانحہ پر مصلحت سے کام نہ لیا گیا ہوتا تو شاید اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو محصور کرنے اور ہنگامہ آرائی کا واقعہ پیش نہ آتا۔
دیگر سرکاری محکموں میں بھی عام آدمی کی رسائی اور شنوائی خواب بنتی چلی جارہی ہے‘ ہر جائز اور معمول کے کام کے ریٹ فکس ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ دو برسوں سے رشوت کا وہ بازار گرم ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ کہیں تعاون کے نام پر تو کہیں فائل کو پہیے لگانے کے نام پر‘ کہیں فیس کے نام پر تو کہیں مٹھائی اور بخشش کے نام پر سبھی وصولیاں انتہائی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے جاری و ساری ہیں بلکہ اچھے خاصے معمول کے کاموں کو دانستہ اُلجھا کر منہ مانگی رقم طلب کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی ۔ سائل کے احتجاج پر انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا جاتا ہے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ تبدیلی آگئی ہے ۔
کہیں گورننس پولیو کا شکار دکھائی دیتی ہے تو کہیں میرٹ تار تار... ایسے حالات میں نہ تو ووٹ کی عزت ہو سکتی ہے اور نہ ہی ووٹ دینے والے کی۔ یہ سیاستدان بھلے ووٹ کی عزت کا راگ الاپتے رہیں یا اس کی حرمت کے ڈھول بجاتے رہیں‘ جس ملک میں اقتصادی اصلاحات سے منسوب اداروں کے جاری کردہ ایس آر او وہ تلوار بن جائیں جس سے اصلاحات تو درکنار معاشی قتل عام کا منظر دکھائی دے اور حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگے وہاں سہانے مستقبل کے خواب بھیانک تعبیریں بن کر عوام کو ڈرایا اور رلایا کرتے ہیں۔ خدا جانے گزشتہ ماہ جاری ہونے والا ایس آر او نمبر 96 انصاف سرکار کے خلاف کوئی اندرونی سازش ہے یا ڈھٹائی پر مبنی پالیسیاں کہ وزیراعظم آزاد کشمیر محمد فاروق حیدر نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ ڈالا کہ وہ ایف بی آر کی امتیازی پالیسیوں کا فوری نوٹس لیں اور آزاد کشمیر میں کاروبار کرنے والوں پر زندگی تنگ نہ کریں۔ وہ آپ کا حصہ ہیں‘ آپ بھی انہیں پاکستان کا حصہ سمجھیں۔ حکومت کو وزیراعظم آزاد کشمیر کے اس خط کو اہمیت کا حامل سمجھنا چاہیے کیونکہ آزاد کشمیر میں نہ صرف صنعتیں بند ہونے کا خطرہ دن بدن بڑھتا چلا رہا ہے بلکہ بدترین معاشی بحران کے اندیشے صنعت کاروں کا چین برباد کرنے کے علاوہ مزدوروں کی رات کی نیندیں بھی اُڑا چکے ہیں۔
بات چل نکلی ہے تو چین کے میڈیکل کالجز کو بوجوہ بلیک لسٹ کرنے کے ایجنڈے کے بارے میں چند چشم کشا حقائق بھی شیئر کرتا چلوں کہ دنیا بھر میں وطن عزیز کے سفیر بن کر مسیحائی کے جھنڈے گاڑنے والے اس پروفیشن کی ساکھ اور بقا کو بدقسمتی سے سرکاری پالیسیوں نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ نجانے کون سے سقراط اور بقراط کہاں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں جن کا نہ کوئی عملی تجربہ ہے اور نہ ہی اُن کے ان فیصلوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ نہ انہیں اپنے فیصلوں کی معقولیت کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی مقبولیت کا احساس۔ ایسی پالیسیاں میڈیکل ایجوکیشن کو نہ صرف متنازع بنانے کا باعث ہیں بلکہ طلبا میں بددلی اور بے چینی پھیلانے کا سبب بھی ہیں۔ اس ساری تمہید کا مقصد چائنیز میڈیکل کالجز کی وکالت ہے اور نہ ہی وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا دفاع‘ اس گردان کا اصل مقصد صرف اتنا ہے کہ سرکاری سقراط بقراط اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی ایسا چاند نہ چڑھا دیں جو نجانے کیا کچھ گہنا ڈالے۔ میڈیکل کی تعلیم کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اقدامات ضرور کیجئے لیکن خیال رہے اس میں کوئی ذاتی ایجنڈا خارجی محاذ پر خطرے کا الارم ثابت ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں