"AAC" (space) message & send to 7575

افسر شاہی کے خلاف کارروائی کا معمہ

ناقص کارکردگی پر افسر شاہی کے سینکڑوں عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا طبل بجا دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ طبل ناقص کارکردگی والوں کے خلاف اعلانِ جنگ ثابت ہوتا ہے یا وہی ڈھول جس کی آواز سنتے سنتے عوام کے کان سُن ہو چکے ہیں۔ ایسے کئی ڈھول عوام دھرنوں سے سنتے چلے آرہے ہیں‘ کئی بیانیے تو عوام کو اَزبر ہو چکے۔ خیر دیر آید درست آید‘ ناقص کارکردگی پر کارروائی تو بنتی ہے‘ عملی کارروائی نہ بھی ہو تو بیانیوں کا ڈھول بجا کر محض ''کارروائی‘‘ ڈالنا تو حکومت کا سٹائل بن چکا ہے اور عوام بھی اس سٹائل کو بخوبی سمجھتے چلے جا رہے ہیں۔
گزشتہ رات حکومت کے ایک پرانے متوالے نے ایک انوکھی فرمائش کر ڈالی کہ آئندہ کسی کالم میں وزیر اعظم صاحب کو ایک مشورہ ضرور دوں کہ وہ اپنی ناگزیر مصروفیات میں سے کوئی ایک دن ایسا ضرور نکالیں جس میں وہ صرف اپنی پرانی تقریریں اور ٹاک شوز سنیں‘ شاید انہیں کچھ یاد آ جائے کہ طرزِ حکمرانی کے کیسے کیسے ماڈل وہ پیش کرتے رہے ہیں۔ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ عدل و انصاف سے لے کر مساوات تک‘ شنوائی سے لے کر داد رسی تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ اقتصادی اصلاحات سے لے کر مضبوط معیشت تک‘ عوام الناس کی عزتِ نفس سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ امن و امان سے لے کر سوشل سکیورٹی تک‘ سرکاری افسران سے لے کر وزرائے کرام تک‘ کیسے کیسے سہانے خواب عوام کو دکھائے گئے تھے‘ مگر ان خوابوں کی تعبیریں کیسا خوفناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ شاید ان پرانی تقاریر اور ٹاک شوز کے کلپ دیکھ کر انہیں کچھ یاد آ جائے کیونکہ ان کے ارد گرد پائے جانے والے رفقا اور مصاحبین ہوں یا وزرا اور مشیران‘ سبھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر گورننس اور میرٹ کا جو حشرنشر کیے چلے جا رہے ہیں ماضی کے ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔
افسر شاہی کے خلاف ایسے اعلانات ہر دور میں جاری ہوتے رہے ہیں‘ لیکن عملی کارروائی پسند اور ناپسند کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے۔ حکمرانوں کے من پسند اور سر چڑھے افسران ہمیشہ ہی شجرِ ممنوعہ بنے رہے ہیں۔ سابق ادوار میں ایسے کئی کردار ذاتی عناد اور بغض کے ساتھوں مجبوراً ایوانِ اقتدار میں بیٹھ کر اپنے ساتھی افسران اور جونیئرز کی پوسٹنگ ٹرانسفر کے ساتھ ساتھ ان کے کیریئرز سے بھی کھیلتے رہے ہیں۔ دورِ حاضر میں بھی کم و بیش یہ منظرنامہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے ابتدائی ایام میں افسر شاہی کی ایک بڑی کھیپ کو صرف اسی لیے مسترد کیے رکھا کہ وہ سابقہ ادوار میں (ن) لیگ کے قریبی رہے‘ مگر بتدریج ان افسران کو اہم ترین انتظامی عہدوں پر تعینات کرنا نہ صرف مجبوری بنتا چلا گیا بلکہ صوبہ پنجاب کے اعلیٰ سے لے کر جونیئر تک وہی افسران موجیں مارتے نظر آتے ہیں جو شہباز شریف کی انتظامی ٹیم کا حصہ اور اُن کے معتمدِ خاص رہے ہیں۔
موجودہ حکومت روزِ اول سے ہی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کا شکار ہوکر ایسے فیصلے کرتی چلی آرہی ہے جو نہ صرف عوام میں غیر مقبول بلکہ مزاحمت کا باعث بنتے چلے آئے ہیں۔ ایک طرف عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف کی ٹیم کے افسران کو تعینات کرنا انتظامی مجبوری ہے‘ انہیں نہ لگائیں تو افسران کہاں سے لائیں‘ جبکہ بعض اعلیٰ افسران کو اہلیت اور قابلیت کے باوجود رفقا اور مصاحبین کی روایتی بریفنگ کے نتیجے میں کھڈے لائن لگانے کا جواز کچھ یوں پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سبھی افسران (ن) لیگ کے انتہائی قریبی ہیں‘ اگر انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تو یہ (ن) لیگ کیلئے نرم گوشہ ضرور رکھیں گے‘ یہ دُہرا معیار نہ صرف ناقابلِ فہم ہے بلکہ غیر منطقی بھی ہے۔ اس دہرے معیار کے نتیجے میں انتہائی اہم عہدوں پر ناتجربہ کار افسران براجمان ہیں جو حکومت کے بیانیے اور وژن کا نہ صرف حشرنشر کیے چلے رہے ہیں بلکہ عوام میں حکومت کی مقبولیت کا گراف بھی دن بدن گراتے چلے جا رہے ہیں۔
کرپشن مالی ہی نہیں انتظامی بھی ہوتی ہے اور انتظامی کرپشن کی قیمت ملک و قوم کو اس وقت تک چکانا پڑتی ہے جب تک اس ناموافق اور نامعقول فیصلے کا ازالہ نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں تو خیر ازالہ کرنے کا رواج ہی نہیں اور ایسے انتظامی فیصلوں کا ازالہ بھی اس سے بڑے بلنڈر کرکے کیا جاتا ہے۔ ضیاالحق کے دور میں لگائی گئی سیاسی پنیری خاردار بیل بن کر آج بھی انتظامی سسٹم کو جکڑے ہوئے ہے‘ جبکہ شریف برادران کے دور میں پروان چڑھائی گئی فصل آج فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ سمجھنے والے سمجھ گئے... جو نہ سمجھے وہ اَناڑی ہے۔
افسرشاہی کے خلاف کارروائی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی‘ اس بارے رائے دینا قبل از وقت ہوگا تاہم ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہاں چوروں کا چوروں کو تحفظ دینا کافی پرانی روایت ہے اور یہ روایت ہر دور میں ہی دوام پاتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں شریک اقتدار ایک انتہائی اہم شخصیت کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بیوروکریٹک مارشل لا نافذ ہے جس کی وجہ سے عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف روز بروز گرتا چلا جا رہا ہے۔ ناقص کارکردگی پر سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ جس ملک کے ڈیڑھ سو کے قریب اعلیٰ سرکاری افسران قومی سلامتی کے تقاضے پورے کئے بغیر غیر ملکی خواتین سے شادیاں رچائے بیٹھے ہوں وہاں کیسی کارروائی اور کہاں کا احتساب؟
چند ماہ قبل وفاقی وزیر شیریں مزاری نے دفتر خارجہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ دفتر خارجہ اگر اپنا کام کرتا تو دنیا کشمیر ایشو پر ہماری بات ضرور سنتی‘ مگر ہمارے سفارتکاروں کو تو آرام دہ طرزِ زندگی‘ تھری پیس سوٹ‘ کلف لگے کپڑے پہننے اور ٹیلی فون کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ انہوں نے ایک اور فکرانگیز سوال اُٹھایا تھا کہ کیا ہماری وزارتِ خارجہ برکینافاسو سے بھی گئی گزری ہے‘ اُس نے تو امریکہ کے خلاف قرارداد منظور کروا لی تھی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ کشمیر کاز کے لیے ہمیں روایتی سفارتکاری سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے جدید خطوط کے ساتھ ساتھ کشمیری ثقافت‘ شاعری‘ مصوری اور فنونِ لطیفہ کی دیگر جہتوں کو بروئے کار لانے پر بھی زور دیا تھا۔ شیریں مزاری کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانوں میں بیٹھے ڈپلومیٹ کیا چاند چڑھا رہے ہیں‘ مگر جہاں وزیراعظم سیکرٹریٹ کو گھاس نہ ڈالنے پر 27 وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری ہو چکے ہوں‘ وہاں ناقص کارکردگی پر افسران کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ خیر یہ معمہ آج نہیں تو کل حل ہو ہی جائے گا۔
یوں تو وطنِ عزیز کے حکمرانوں‘ اشرافیہ اور حکام کی بداعمالیوں اور لوٹ مار کی چونکا دینے والی اَن گنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے‘ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی بھی الزام لگا دیجئے کلک کرکے فٹ بیٹھ جائے گا۔ چلتے چلتے تحریک انصاف کی طرزِ حکمرانی پر واویلا کرنے والے عوام کے ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ دھرنوں اور انتخابات میں تبدیلی کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن تبدیلی بہتری کی صورت میں ہی ہو یہ ضروری نہیں۔ تبدیلی کا مطلب بدترین بھی ہوسکتا ہے‘ جو عوام کے ساتھ ہورہا ہے... اصل مقصد حالات تبدیل کرنا تھا جو حکمران جماعت نے کر ڈالے... وہ بہترین ہوں یا بدترین‘ یہ عوام کا نصیب ہے‘ جو عوام نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے لکھ ڈالا ہے۔ تحریک انصاف نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا‘ بہتری کا نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں