"AAC" (space) message & send to 7575

ایک مثبت کالم

اخلاقی قدروں کی پاسداری کیے بغیر اقتصادی استحکام کا خواب ایسے ہی ہے جیسے چارہ بو کر گندم اُگنے کی توقع لگا کر بیٹھے رہیں۔ ہمارا بنیادی مسئلہ اخلاقیات ہے‘ جس دن ہم نے اس مسئلے پر قابو پالیا معیشت سمیت دیگر خرابیاں خود بخود ٹھیک ہوتی چلی جائیں گی۔ اکثر احباب اور قارئین کا کہنا ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں‘ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ آپ نازک صورتحال اور عوام کی حالت ِزار کا ماتم کر کے بے یقینی اور مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتے ہو کہ ہر طرف اندھیرا ہی چھایا دکھائی دیتا ہے۔ میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم ہی لکھے جا سکتے ہیں۔ میں سیاہ کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا کیسے لکھوں؟ میرے اس جواب پر وہ کہتے ہیں ‘ تمہاری یہی باتیں ہمیں مزید مایوس کر دیتی ہیں۔ کہیں تھوڑی بہت خوش گمانی یا اچھے دنوں کی آس توڑنے کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کچھ توڑ ڈالتے ہو۔کبھی مثبت اور روشن پہلو بھی اپنے کالم کی زینت بنا لیا کرو۔
ہر خرابی کا ذمہ دار صرف حکمرانوں کو ٹھہرانا مناسب نہیں‘ عوام بھی اس بگاڑ میں برابر کا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ریڑھی بان سے لے کر دکاندار تک اور آڑھتی سے لے کر کارخانہ دارتک سبھی دنیا سنوارنے میں اس طرح مگن ہیں کہ جائز‘ ناجائز کا خیال ہے نہ ہی حرام حلال کی پروا۔ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی تک‘ دودھ جیسی بنیادی ضرورت سے لے کر اشیائے خورونوش اور جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ جیسی گھناؤنی واردات تک‘بجلی اور گیس چوری کرنے سے لے کر ٹیکس چوری تک‘ دل آزاری سے لے کر ایک دوسرے کا حق مارنے تک‘ بغض‘ کینہ اور حسد سے لے کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خداواسطے کے ویر تک سبھی کچھ کس قدر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی بیماریاں نہ صرف بڑے سماجی بگاڑ کا باعث ہیں بلکہ معاشرتی قدریں بھی پامال ہوتی چلی جارہی ہیں۔
صبر‘ شکر اور قناعت جیسے اوصاف تو معاشرے سے ناپید ہوکر رہ گئے ہیں۔ جو قوم صبر‘ شکر اور قناعت کو اپنی زندگیوں سے نکال دیتی ہے وہ کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک کا شکار ہو جاتی ہے‘ اس طرح ساری عمر خواہشوں اور آسائشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے قبروں تک جا پہنچتی ہے اور اس کی بھوک قبر کی مٹی ہی مٹاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ بھوک نہ صرف دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے بلکہ اپنی یہ بھوک مٹانے کے چکر میں کمزور پر غصہ اور اس کی حق تلفی تو حق سمجھ کر کی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور حکمران سبھی کا اپنا اپنا ایجنڈاہے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے دونوں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں۔ اگر حکمران بدتر طرزِ حکمرانی پر نازاں ہیں تو عوام بھی اپنی تمام تر وارداتوں پر شرمندہ نہیں۔ پتا نہیں یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟
خاکسار کے کالموں اور رونے دھونے سے تنگ ناقدین کو نوید ہو کہ کالم کے بقیہ حصہ میں کچھ مثبت اور روشن اور پہلوؤں کا احاطہ کر کے ان کا گلہ دور کرنے جا رہا ہوں۔ چند روز قبل ہی حکومت کی توجہ مبذول کروائی تھی کہ وہ اپنے کڑے احتساب والے بیانیے پر اگر اب بھی قائم اور سنجیدہ ہے تو سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود احتساب عدالتوں کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں کیا اَمر مانع ہے؟ خوش آئند امر یہ ہے کہ سرکار نے ابتدائی مرحلے میں 30احتساب عدالتوں کیلئے 40کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دے دی ہے۔ چیئرمین نیب نے کاروبار کی آڑ میں شہریوں سے 80 ارب ہتھیانے والے گروہ کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا حکم جاری کر کے 46ہزار متاثرین کو ان کی عمر بھر کی پونجی واپس دلوانے کیلئے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد کو خصوصی ٹاسک دے دیا ہے۔ ان کا یہ اقدام ان متاثرین کی لائف لائن بن سکتا ہے جو عمر بھر کی کمائی لٹنے پر زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ واردات نئی نہیں بلکہ عام ہے۔ ایسے متاثرین کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ تعداد صرف 46ہزار نہیں بلکہ یقینا لاکھوں میں ہوگی‘ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی یہ شرمندگی کے ساتھ ساتھ بڑا سوالیہ نشان ہے کہ جو دادرسی ان کی ذمہ داری تھی وہ چیئرمین نیب کو خصوصی ٹاسک کے طور پرپوری کرنا پڑی۔ تاہم اس حوالے سے لاہور پولیس کے سربراہ بھی ایک مشکل اور کٹھن قدم اُٹھا چکے ہیں اوربھتہ خوروں‘ غنڈہ عناصر اور کاروبار کے نام پر سادہ لوح عوام کو ان کی جمع پونجی سے محروم کرنے والوں کے خلاف گرینڈآپریشن شروع ہو چکا ہے۔ اکثر قانون کی گرفت میں ہیں تو کئی ایک نقل مکانی کر کے روپوش ہو چکے ہیں۔ اس اقدام سے شہر لاہور کے باسیوں کو قدرے سکون میسر آیا ہے۔ اس موقع پر ایک اور مثبت بات بھی شیئر کرتا چلوں کہ لاہور میں یہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ تھانوں میں تعیناتیوں کیلئے بولیاں نہ لگی ہوں اور مخصوص عناصر کے عزائم کی تکمیل کیلئے ان کے پروردہ پولیس افسران کو ایس ایچ او نہ لگایا ہو۔ اس کارِبد کے سدِ باب کا کریڈٹ سابق ڈی آئی جی آپریشن کو جاتا ہے ۔ کالم مثبت اور روشن پہلوؤں سے منسوب ہو تو میر قارئین سن لیں کہ صرف دوماہ کی قلیل مدت میں خطرناک گینگز کی گرفتاریوں کے علاوہ طلائی زیورات‘ قیمتی موبائلز اور کروڑوں روپے کی ریکوری کر کے متاثرہ خاندانوں کے حوالے کرنے کا کریڈٹ سی آئی اے کو جاتا ہے۔
لاء اینڈ آرڈر کا ایک اور مثبت اور روشن پہلو قلم آرائی پر اُکسا رہا ہے۔ آئی جی پنجاب نے ڈیرہ غازی خان جیسے مشکل ٹاسک پر ضلع کی کمان ایک ایسے افسر کو سونپی جس نے چند ماہ میں ہی دہشت کی علامت لادی گینگ کی نہ صرف کمر توڑ دی بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کوہِ سلمان کے پہاڑوں سے لے کر مشکل ریگزاروں تک میں گھس کر قانون کی بالادستی کا وہ سبق سکھایا کہ لادی گینگ کا سرکردہ دہشت گرد اور ڈکیت شبیرا لادی اور اس کا قریبی چاکرانی لادی مارے گئے۔ گینگ کے سرداروں کی بھیانک موت نے قانون کی وہ دھاک بٹھائی کہ گینگ کے دیگر دہشت گرد زندگی کی بھیک طلب کر کے خود کو قانون کے حوالے کر چکے ہیں۔ ایک زمانے سے انڈس ہائی وے پر‘ تونسہ کے دونوں اطراف میں‘ پہاڑوں کے دامن سے لے کر دریائی پٹی تک قتل‘ ڈکیتی‘ راہزنی اوراغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں عام تھیں اور عوام میں دہشت اور خوف کی فضا چھائی رہتی تھی۔ اب عوام کی ان عذابوں سے جان چھوٹتی نظر آتی ہے۔ وہ اب خود کو زیادہ محفوظ اور مامون محسوس کریں گے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کورونا وبا کی شدت میں کمی کے پیشِ نظر حکومت نے یکم مارچ سے تمام معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال کرنے کی منظوری دی ہے۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب کھل کھیلنا ہے۔ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ معاشی سرگرمیوں کی اجازت مشروط ہو گی‘ یعنی وہی کاروبار اور تجارت کر سکے گا جو ایس او پیز کا خیال رکھے گا‘ کیونکہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کا نتیجہ ایک بار پھر کورونا وبا کے پھیلائو کا باعث بن جائے گا۔
اب تھوڑی سی بات مہنگائی پر‘ وفاقی وزیر اطلاعات نے تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی نے عوام کو تکلیف پہنچائی؛ چنانچہ اب جبکہ معاشی سرگرمیاں بحال کی جا رہی ہیں تو ضروری ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ لوگوں کے لئے سہولت کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن ہو سکے۔ ممکن ہو تو حکومت کو عوام کے لئے ریلیف کا بندوبست کرنا چاہئے‘ جس کے وہ ایک مدت سے منتظر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں