ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا ''وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے‘ مملکتِ خداداد کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظرنامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
جہاں حال ماضی سے بدتر ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا آسیب‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔ مملکتِ خداداد کی حالتِ زار ڈھکی چھپی نہیں‘ تاہم اس کا مستقبل زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے گزشتہ چند دنوں کے اخبارات کی شہ سرخیاں ہی کافی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں عوام کی تربیت کرنی ہے‘ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں دوسری طرف ڈاکو مافیا ہے اور انشاء اللہ جیت پاکستان کی ہی ہو گی۔ محترم وزیر اعظم عوام کی تربیت سے پہلے اپنے مشیروں اور وزیروں کے لیے کسی تربیتی پروگرام کا آغاز کر کے دیکھیں‘ ممکن ہے عوام کی تربیت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ رہی بات مافیا اور ڈاکوؤں کی تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دورِ حاضر تک عوام کو انہی ڈاکوؤں کا سامنا رہا ہے‘ جن میں اکثر مستقل ہیں‘ اور ہر دور میں قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ بوئے سلطانی کے شوق عوام پر پورے کرتے چلے آئے ہیں۔ کوئی پرانے پاکستان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے تو کوئی نئے پاکستان پر نازاں اور اترائے پھرتا ہے۔ ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کے اپنے اپنے ایجنڈے‘ اپنے اپنے عزائم‘ اپنی اپنی توجیہات‘ اپنے اپنے جواز‘ اپنی اپنی مجبوریاں‘ اپنی اپنی مصلحتیں اور اپنا اپنا پاکستان ہے۔ ان سبھی کے براہِ راست متاثرہ عوام ہر دور میں ہی ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا بھی کوئی ہے؟ کاش عوام کا بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید نہ نئے پاکستان کا چورن بکتا اور نہ پرانے پاکستان کو کبھی یاد کیا جاتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹنگ کیس میں ریمارکس دیے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ معاہدے سے پھر گئیں۔ میثاقِ جمہوریت میں خفیہ ووٹنگ ختم کرنے کا طے کیا‘ اب اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ معاہدوں سے پھرنا اور وعدوں سے مکرنا تو ہماری سیاست کا حسن ہے اور ہمارے جمہوری سیاست دان اس حسن کو اکثر چار چاند لگا کر عوام کی آنکھیں چندھیاتے رہتے ہیں۔ معاہدوں سے پھرنا تو معمول کی واردات ہے یہ تو انتخابی وعدوں اور دعووں سے مکرنے کے علاوہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے حلف سے انحراف کر کے بھی اپنے طرزِ حکمرانی پر اترائے پھرتے ہیں۔ رہی بات میثاق جمہوریت کی تو یہ معاہدے کھال اور گردن بچانے کے لیے سیاست دان اکثر کر ہی لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور غدار کہنے والے بد ترین مخالف بھی مصیبتوں کو ٹالنے کے لیے میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ یہ میثاق جمہوریت ہرگز نہیں‘ اپنی مصیبتیں‘ احتسابی کارروائیاں اور مکافاتِ عمل سے فرار کے لیے جو معاہدے یہ کرتے پھرتے ہیں انہیں میثاق جمہوریت کہنا سراسر دھوکہ اور جمہوریت کی بدنامی ہے‘ تاہم میرے خیال میں ایسے معاہدوں کو میثاقِ مصیبت کہا جا سکتا ہے۔
سینیٹ الیکشن 2018ء میں ووٹوں کی خریدوفروخت کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد وہی نمائشی بیانات‘ وہی عذر‘ وہی جواز‘ وہی توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ ووٹوں کی خرید و فروخت پارلیمان کی منڈی میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ ہارس ٹریڈنگ ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے انتہائی ڈھٹائی سے جاری ہے۔ اعتماد کا ووٹ لینا ہو‘ یا عدمِ اعتماد کامیاب کرانا ہو‘ کسی کا منہ بند کرنا ہو یا کسی کو سرنگوں کرنا ہو‘ ہمارے سماج سیوک نیتا نوٹ دکھا کر ووٹ لینے کو کبھی معیوب نہیں سمجھتے بلکہ اسے بھی جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ اس ویڈیو میں تو نوٹ کے بدلے ووٹ اور ووٹ کے بدلے نوٹ ہی دکھائے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کبھی تبادلے کے نام پر‘ کبھی بیوہ کوٹے کے نام پر اور کبھی صوابدیدی اختیارکے نام پر پلاٹوں کی بندر بانٹ کرنے والے اس سرکاری زمین کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر ہارس ٹریڈنگ کے لیے بھی بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔
ضمنی انتخابات میں بیانیوں اور طرزِ حکمرانی کی دھول اُڑ چکی ہے۔ نتائج نے ان بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا بھی پول کھول دیا ہے‘ جن سے انصاف سرکار مسلسل فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ خدا جانے وہ کون سی طرزِ حکمرانی ہے‘ وہ کون سی اصلاحات ہیں‘ خوش حالی کا وہ کون سا دور دورہ ہے جس کی بنیاد پر انصاف سرکار نے پارٹی ورکرز کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا اشارہ دیا ہے جبکہ شہر کی صفائی پر مامور‘ ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا چکے ہیں۔ اہم ترین شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ ٹریفک حادثات میں اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی ہیں۔ شہر میں پارکنگ کے نام پر تجاوزات نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ محکمہ مال صرف مال بنانے کو ہی فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ گویا تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار میں عوام کو دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دیگر شہری سہولیات تو خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ مہنگائی کا جن روز نئی دھمال ڈالتا ہے‘ حکومتی رٹ اور انتظامیہ بس دعووں اور بیانیوں تک ہی محدود ہے۔ سابق حکمرانوں پر ہمیشہ دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام لگانے والے برسرِ اقتدار آنے کے بعد NA-75 ڈسکہ کے انتخابات میں اپنے ہی بیانیوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نتائج روک کر تحقیقات کرانے کا حکم دینے کے علاوہ اپنے عملے کی بازیابی کے لیے چیف سیکرٹری اور آئی جی کے فون نہ سننے کی دہائی بھی دی ہے۔ جہاں الیکشن کمیشن کے یہ حالات ہوں وہاں کہاں کے الیکشن اور کیسی شفافیت؟ تاہم انصاف سرکار کو انتخابات میں ماضی کی روایات کو زندہ رکھنے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔
نئے پاکستان میں کئی گنا اضافوں کے ساتھ وہ سب کچھ جاری و ساری ہے جو پرانے پاکستان میں ہوتا چلا آیا تھا۔ نئے پاکستان کے خالق پرانے پاکستان کی طرزِ حکمرانی سے لے کر من مانیوں تک‘ سبھی پر تنقید کے جو نشتر چلایا کرتے تھے‘ آج خود ان کی زد میں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ وہ سبھی کچھ اسی بے حسی سے آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ایسے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہو گا۔ چلتے چلتے یاد کراتا چلوں کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کی کئی ڈیڈ لائنز گزر چکی ہیں۔ حالیہ ڈیڈ لائن میں اپوزیشن نے عوام کو خوش خبری دی تھی کہ 31 جنوری تک حکومت کو گھر بھجوا دیں گے جبکہ حکومتی چیمپئنز نے بھی عوام کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک لوٹنے والے اپوزیشن رہنما جنوری کے مہینے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ نہ پرانے پاکستان کی خوشخبری عوام کو ملی اور نہ ہی نئے پاکستان کی کیونکہ یہ دونوں پاکستان عوام کے نہیں بلکہ انہی سماج سیوک نیتاؤں کے ہیں۔ عوام کو اصل خوشخبری اسی دن میسر آسکے گی جب اُن کا اپنا کوئی پاکستان ہوگا‘ وہی خوشخبری کا اصل دن ہوگا۔