قدرتی آفات ہوں یا حادثات‘ مردم شماری ہو یا انتخابات‘ پولیو مہم ہو یا کورونائی صورتحال‘ امن و امان کا مسئلہ ہو یا دہشت گردی کا سامنا‘ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہو یا ہنگامی حالات‘ چھپا دشمن ہو یا کھلا پاک فوج ہر مشکل گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر نظر آتی ہے۔ بد قسمتی سے ان تمام تر قومی خدمات کے باوجود ہمارے بعض سماج سیوک نیتا سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے لے کر ذاتی خواہشات کی تکمیل تک کے لیے اس معتبر ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز نہیں کرتے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں وطن عزیز دارالفساد کا منظر پیش کرتا رہا ہے‘ پاک فوج کی حکمتِ عملی اور غیر معمولی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے طفیل ردالفساد کی وہ داستان رقم کی گئی ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ آپریشن ردالفساد کے چار سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں پاک فوج کی تین لاکھ پچھتر ہزار سے زائد کارروائیوں میں 353 دہشت گرد جہنم واصل ہو چکے ہیں۔ 1200 سے زائد دہشت گرد پسپائی اختیار کر کے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ جو علاقے دہشت گردی کی آماجگاہ تھے وہاں اب اقتصادی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا یہ کہنا بجا ہے کہ ٹیررازم سے ٹورازم کا سفر انتہائی گٹھن اور مشکل تھا لیکن آج ملک بھر کے وہ تمام علاقے سیاحوں کی توجہ اور آمدورفت کا مرکز بن چکے ہیں جہاں چند سال پہلے کوئی جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی جانب سے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دی گئی قربانیاں ملک و قوم پر قرض ہیں۔ میری طرح آپ کو بھی یاد ہو گا کہ آپریشن ردالفساد اس عزم کے تحت شروع کیا گیا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے‘ چنانچہ آپریشن ردالفساد کے تحت عوام کی صفوں میں چھپے دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کاری ضرب لگائی جائے گی۔ اس عزم کے تحت سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ کم و بیش پونے چار لاکھ آپریشن کئے گئے‘ جس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں کہ آج ہم خود کو گزرے دنوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور مامون محسوس کرتے ہیں اور آپریشن ردالفساد کی کامیابی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ماضی میں جہاں روزانہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے‘ اب کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے۔ یہ سب ایسے ہی ممکن نہیں ہوا۔ یہ سب ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کی دن رات کی گئی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سکون کی نیند سو پاتے ہیں۔ ٹیررازم سے ٹورازم تک کا یہ سفر یقیناً خوش آئند‘ حوصلہ افزا اور زندگی افروز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سفر کو جاری رکھا جائے کیونکہ وہ منزل ابھی نہیں آئی کہ سستایا جائے‘ ہمارے ملک کو فی زمانہ جن چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ان کا تقاضا ہے کہ آنکھیں کھلی رکھی جائیں اور بھی۔ہمیں اپنا ہی نہیں آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی سنوارنا ہے۔
آج 27 فروری ہے تو یاد آیا کہ ہمارے ہیروز ایم ایم عالم اور راشد منہاس شہید کے پیروکار حسن صدیقی جیسے جانباز کی لپک اور جھپٹ سے حملہ آور ابھی نندن کیسے بچ نکل سکتا تھا۔ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کا نام بھی پاک فضائیہ کے ان ہیروز میں شامل ہو چکا ہے جو وطن عزیز کے نا قابل تسخیر دفاع کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے پائلٹ عسکری حکمت عملی میں سبجیکٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلِ بے پایاں سے ہماری مسلح افواج بالخصوص پاک فضائیہ کے شاہین دنیا بھر کی ایئر فورسز میں ممتاز اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ایئر فائٹرز تصور کیے جاتے ہیں۔ اس روز بھارت کے ساتھ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور ہماری ایئر فورس نے بھارتی جارحیت کا قرض کس طرح چکایا‘ یہ واقفانِ حال اور خود بھارت بھی بخوبی جانتا ہے۔ نہیں جانتے تو عقل کے اندھے ہی نہیں جانتے۔ ابھی نندن کی حوالگی کو پاکستان کی کمزوری ثابت کرنے کی دھن میں ہوش گنوانے والے حقائق کو کیا جانیں۔ پاک فوج کے وقار پر حملہ ملکی سالمیت پر کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کی طرف سے برداشت، تحمل اور بردباری کے مظاہرے کو کمزوری تصور کرنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ سات سمندر پار خیالات کی جنت بسانے والے ہوں یا اندرون ملک ان کے پیروکار‘ ان سبھی کی بے حسی کے ماتم کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔
آرمی افسران کی انتظامی صلاحیت اور تعلیمی قابلیت کے بارے میں بھی ریکارڈ درست رہنا چاہئے۔ آرمی افسران پی ایم اے‘ آرمی پروفیشنل سکول‘ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سمیت غیر ملکی کورسز کے دوران تعلیم اور تربیت کے جن مراحل سے گزرتے ہیں وہ سب واجبی تعلیم کے حامل بوئے سلطانی کے مارے کیا جانیں؟ ریگستانوں سے لے کر دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں سخت ترین موسمی حالات کا سامنا کرنے والے وطن عزیز کا دفاع یقینی بنانے کے لیے کیسے کیسے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں‘ محض تنقید برائے تنقید کرنے والی کیا جانیں؟
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں‘ آزادی کے بعد اس وطن عزیز کا یہ حال کر دیا جائے گا ۔ بوئے سلطانی اور ہوس زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کیسے کھوکھلا نہیں کیا؟ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیم ہند کے وقت خاک اور خون کی درد ناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے۔ سفارش اور سازش کے تحت کوئے اقتدار میں آنے والے میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہو کر بھی کہیں اور بیٹھ کر قومی اداروں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا اور یہ جماعت ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ جائے گی جو جاری حقائق سے لا علم ہیں اور تاریخ کی سچائیوں سے بھی۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ ان کی طرزِ حکمرانی اور خارجہ پالیسی نے وطن عزیز کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کون سی کسر چھوڑی ہے؟ مسلم اُمّہ کا بھائی چارہ تو ہمارا ازلی حریف بھارت نجانے کب کا چر چکا۔ عالمی برادری میں پاکستان کا تھوڑا بہت بھرم صرف اور صرف پاک فوج کے ہی مرہونِ منت ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت سے لے کر ایران عراق جنگ ہو یا افغان جہاد‘ کویت پر عراقی حملہ ہو یا سعودی یمن تنازعہ‘ فلسطینیوں سے یکجہتی ہو یا بوسنیا اور سربیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم‘ ہر موقع پر پاک فوج کا کردار ہی ممتاز رہا ہے جبکہ حکمران ان سبھی کامیابیوں کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے۔
چلتے چلتے یہ بھی باور کرواتا چلوں کہ اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے علاوہ بین الاقوامی کورسز‘ مشقوں اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتیوں کے دوران حاصل ہونے والی مہارت اور تجربات بروئے کار لا کر ہی ہمارے فوجی بھائی ہنگامی حالات میں سول حکومت کی انتظامی مشینری کی رہنمائی اور معاونت کرتے ہیں۔ اندرونی محاذ سے لے کر خارجی محاذ تک پاک فوج کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ اپنے ہی اداروں کی کمزوریاں تلاش کرنے والوں کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے استحکام اور وقار کی علامت کی آنکھ میں بال ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ان کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ؎
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے، جو زمیں کے نہیں