''غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے‘‘۔ نیلسن منڈیلا کا یہ قول ہمارے حکمرانوں کے سبھی بیانیوں‘ دعووں اور وعدوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جو کارخانوں کا جال بچھا کر معاشی انقلاب لانے کے دعوے کیا کرتے تھے وہ کارخانوں کے بجائے لنگر خانے بنائے چلے جا رہے ہیں۔ لنگر خانے ہونے چاہئیں‘ بے وسیلہ اور بے کس افراد کے لیے پناہ گاہیں ضرور ہونی چاہئیں لیکن انہیں پناہ گاہوں کا راستہ دِکھا کر اصل منزل سے بھٹکا دینا کہاں کی حکمرانی ہے؟ دو چار برس کی بات نہیں یہ پاؤ صدی کا قصہ ہے کہ دو پارٹی نظام کی چکی میں پستے پستے عوام کی حالت ہر دور میں خستہ اور قابلِ رحم ہی دِکھائی دیتی تھی۔ ایسے میں ایک تیسری سیاسی قوت نے ان دونوں پارٹیوں کی اجارہ داری اور طرزِ حکمرانی سے نجات دلانے کے لیے آواز اُٹھائی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز لگی۔
اقتدار میں دو پارٹیوں کی آنیاں جانیاں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا گویا انہوں نے اپنی باریاں باندھ رکھی ہیں۔ پیپلز پارٹی سے جان چھوٹتی تو مسلم لیگ باری لگانے آجاتی اور جب مسلم لیگ کی باری ختم ہوتی تو عوام کو پیپلز پارٹی کا شوق اقتدار بھگتنا پڑتا تھا۔ اسی زمانے میں ان دونوں پارٹیوں کی بد ترین طرزِ حکمرانی سے لے کر لوٹ مار اور بندر بانٹ تک کے خلاف برادر حسن نثار تیسری قوت تحریک انصاف کی آواز بن کر تھرڈ فورس کی تھیوری اپنا چکے تھے‘ جس پر مجید نظامی مرحوم و مغفور نے انہیں مثالیت پسند قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ عجب شخص ہے‘ کن حالات اور کس زمانے میں تھرڈ فورس کی بات کر رہا ہے۔
جوں جوں دو پارٹی نظام کا طرزِ حکمرانی عوام کو بدترین حالات سے دوچار کرتا رہا توں توں تھرڈ فورس کی ضرورت اہمیت اختیار کرتی چلی گئی۔ تحریک انصاف نامی اس تھرڈ فورس کا فخریہ منشور‘ جو انہی حسن نثار نے تخلیق کیا‘ بھی یادکرواتا چلوں جو کچھ یوں تھا کہ ''حکم اللہ کا... قانون قرآن کا... اور رستہ رسول ﷺ کا‘‘۔ اسے تحریک انصاف نے بڑی کوشش اور جدوجہد سے خود ہی کہیں گم کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے دوپارٹی نظام میں بار بار لٹنے والے عوام اس خوشخبری کے جھانسے میں آ گئے اور تھرڈ فورس کی طویل جدوجہد اور خوش کن بیانیوں کو سچ مان کر اسے مینڈیٹ دے دیا۔
تھرڈ فورس اقتدار میں آئی تو عوام خوشی سے جھوم اُٹھے کہ اب راج کرے گی خلقِ خدا... طرزِ حکمرانی کے وہ سبھی ماڈل نافذ ہوں گے جن کے سہانے خواب عوام کو دھرنوں میں دِکھائے گئے تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ برسرِ اقتدار آتے ہی وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں عوام کو یقین دہانی کروائی کہ اب ان سبھی خوابوں کی تعبیر کا وقت آچکا ہے جو انہیں دھرنوں اور سیاسی جدوجہد کے دوران یہ تھرڈ فورس دِکھاتی رہی ہے۔ اس تقریر کو سچ مان کر عوام بھی یقین کر بیٹھے کہ اب مثالی گورننس ہوگی‘ میرٹ کا دور دورہ ہوگا‘ سماجی انصاف اور قانونی کی حکمرانی تھرڈ فورس کی اوّلین ترجیح ہوگی‘ بے گھروں کو چھت ملے گی‘ بیروزگار روز کام پہ جایا کریں گے‘ حکمران عوام کو جوابدہ ہوں گے‘ تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال میں عوام کو اس دھتکار اور پھٹکار سے نجات ملے گی جو سابق ادوار میں عوام کا نصیب رہی اور اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں معاشی انقلاب عوام کی حالتِ زار بدل کر رکھ دے گا۔
تھرڈ فورس کے اقتدار کا سفر شروع ہوا تو ابتدائی چند ماہ میں ہی خوشی سے جھومنے والے عوام کے ہوش اُڑنے شروع ہوگئے کہ یہ تھرڈ فورس ہماری نجات دہندہ نہیں بلکہ پہلی دو فورسز کا ملغوبہ ہے۔ ''اِلیکٹ اِیبلز‘‘ کا ٹائٹل لیے زیادہ تر وہی چہرے پارٹی اور قائد کی تبدیلی کے ساتھ شریکِ اقتدار ہو چکے ہیں جو ہر دور میں عوام کی بدنصیبی میں اضافے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ جن پر تھرڈ فورس کے سربراہ تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے‘ جن کی لوٹ مار کی داستانیں عوام کو دن رات سنایا کرتے تھے‘ جن کی طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد پر گھنٹوں تقریریں کیا کرتے تھے‘ برسرِ اقتدار آکر اب انہی پر تکیہ کر بیٹھے ہیں۔ گویا عوام کا سارا نشہ ہی ہرن ہوگیا۔
اب یہ عالم ہے کہ عرصۂ اقتدار کی نصف مدت پوری چکی ہے لیکن سماجی انصاف سے لے کر آئین و قانون کی حکمرانی تک‘ اقتصادی اصلاحات سے لے کر معاشی انقلاب تک‘ میرٹ اور گورننس سے لے کر قول و فعل میں مطابقت تک‘ سبھی معاملات میں ناکامی ہی سامنے آئی ہے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے، انہیں ملیامیٹ کیا، کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کرکے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ اقربا پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ انصاف سرکار پر بھی جب وقت عمل آیا تو عوام کے سبھی خواب چکنا چور ہوگئے۔ گورننس کے علاوہ میرٹ کا بھی خوب حشرنشر جاری ہے۔ ان حکمرانوں کو بھی ماضی کے پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار میسر آگئے۔
تھرڈ فورس کے حکمرانوں نے عوام کو کیا جوابدہ ہونا تھا اور عوام کی کیا مجال کہ وہ ان سے جواب طلبی کر سکیں‘ لیکن اس تھرڈ فورس کی حمایت کرنے والوں کو اب یہ ضرور تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ وہ تھرڈ فورس نہیں ہے جس کے لیے منشور تخلیق کرنے کے علاوہ وہ اس کے بیانیوں اور دعووں کو سچ مان کر 22 سال عوام کو قائل کرتے رہے کہ یہی وہ تھرڈ فورس ہے جو اقتدار میں آکر ان کے دُکھوں کا مداوا کر سکتی ہے‘ لیکن جس اُجالے اور سویرے کی عوام کو نوید سنائی جاتی رہی وہ تو چمکیلا اندھیرا ثابت ہوا۔ وہ سبھی دعوے اور وعدے اب جھانسے دِکھائی دیتے ہیں۔ عوام کی جو درگت تھرڈ فورس بنا رہی ہے اس پر جتنا بھی لکھا جائے شاید زمینی حقائق کا حق ادا نہ ہو سکے؛ تاہم ایسے میں فیض احمد فیض کے یہ شعر بطور استعارہ پیش خدمت ہیں: ؎
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ اس تھرڈ فورس کو بھی سابق ادوار کی طرح "Nears & Dears" نے اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے۔ برسرِ اقتدار آکر انہیں بھی ''کاریگر‘‘ سہولت کار میسر آگئے جن کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو‘‘ اور ''خواص کا ضمیر مار دو‘‘۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابق ادوار کا اگر دورِ حاضر سے موازنہ کریں توسبھی ایک دوسرے کا ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں۔ کوئے اقتدار میں منتخب نمائندے ہوں یا غیرمنتخب شریک اقتدار اور سرکاری بابو‘ سبھی کا یہ عالم ہے کہ کوئی سیر ہے تو، کوئی سوا سیر‘ نہ عوام کسی کا مسئلہ ہیں اور نہ ہی عوام کے مسائل سے کوئی سروکار‘ اپنے اپنے ایجنڈے پر سبھی گامزن نظر آتے ہیں۔
ہر نیا دور اور ہر نیا حکمران عوام کیلئے کچھ کرے نہ کرے اس کی ذلت اور مصائب میں اضافہ ضرور کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام اچھے دنوں کی تلاش میں بد سے بدتر حالات سے دوچار ہوتے چلے جائیں وہاں کیسی گورننس‘ کہاں کی حکمرانی؟ ہر دور کی طرزِ حکمرانی نے عوام کو کب نہیں لوٹا؟ خوابوں کی تعبیر لوٹنے سے لے کر دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے تک‘ وسائل کی بندربانٹ سے لے کر ملک و قوم کے خزانے پہ ہاتھ صاف کرنے تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ روزِ اوّل سے جاری ہے۔ عوام کی مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ؎
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی