"AAC" (space) message & send to 7575

ہمارا ذمہ توش پوش…

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا قول ہے کہ زندگی کی خوبصورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ اصل خوبصورتی یہ ہے کہ دوسرے آپ سے کتنا خوش ہیں؟ میرا جسم میری مرضی سے لے کر میری حکومت میری مرضی تک سبھی اپنی اپنی خواہشات اور اپنے اپنے ایجنڈوں میں اس قدر مگن اور خوش ہیں کہ کسی کو یہ ہوش تک نہیں کہ ان سے کون کس قدر ناخوش ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ جسم اور مرضی کے پرچارکوں سے دور رہوں اور کئی دن تک لاتعلقی اختیار کئے بھی رکھی۔ اسے قومی مباحثہ بنانے والوں پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ کچھ دن کڑھنے اور اندر ہی اندر ملامت کرنے کے بعد اب نہیں رہا گیا اور انتہائی بوجھل دل اور منتشر خیالات کے ساتھ اس موضوع پر خود کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ یہ کس جسم اور کونسی مرضی کی بات کرتے ہیں؟ کرئہ ارض پر انسانی جسم سے زیادہ بے وقعت اور فانی چیز شاید ہی کوئی ہو... چند ہزار کا موبائل بازار خریدنے جاؤ تو دکاندار اس کی بھی گارنٹی اور وارنٹی دیتا ہے لیکن اس فانی جسم کا تو اگلے پل کا پتہ نہیں۔ رات کو سونے سے لے کر صبح اٹھنے تک جسم پر کس کا اختیار ہے؟ کون اپنی مرضی سے سو سکتا ہے اور اپنی مرضی سے جاگ سکتا ہے؟ نیند کو آدھی موت کہا گیا ہے... اس آدھی موت کے بعد زندگی دینے والا وہی ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے... اور بس!
سانس لینے پہ اختیار نہیں‘ قدم اُٹھانے پر اختیار نہیں‘ منہ پر بیٹھی مکھی اڑانے کا اختیار نہیں‘ جسم کو آنے والی تکالیف روکنے پہ اختیار نہیں اور چلے ہیں مرضی کے مطابق جسم چلانے۔ اس بے اختیار اور لاچار انسان کے پاس جسم کا اختیار ہی کیا ہے؟ اپنے جسم کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی کیسے چلا سکتا ہے؟ جیسے گاڑی بنانے والے نے سڑک پر چلانے کے لیے ہی بنائی ہے باوجود ہزار کوشش کے دیوار یا چھت پر نہیں چلائی جا سکتی بھلے کوئی کہتا ہی رہے کہ میری گاڑی میری مرضی... اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو اپنے ضابطے اور ایک قاعدے کے تحت تخلیق کیا ہے جو صرف اسی کے وضع کئے گئے نظام کے تحت چل سکتا ہے۔ قانونِ فطرت کے آگے من مانیاں اور مرضیاں ہرگز نہیں چلتیں۔
چولہے میں جائے ایسی دانشوری‘ بھاڑ میں جائے ایسی تہذیبِ نو۔ رہی بات دانشوری کی تو ہمارے ہاں ایسا ایسا دانشور عقل و دانش سے عاری ہونے کے باوجود اپنی دانشوری پر نازاں اور اترائے پھر رہا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ اکثر مناظر دیکھنے اور بھگتنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دانشوروں کے پاس دانش کا ہونا ضروری نہیں رہا۔ شاید انہیں حالات اور نام نہاد دانشوروں کے بارے میں ہی جون ایلیا نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں کو ابھی پڑھنا چاہیے جبکہ وہ لکھ رہے ہیں۔ رہی بات تہذیبِ نو کی تو اس کے بارے میں کیا بات کی جائے۔
میرا جسم میری مرضی کے پرچارکوں کے بارے میں مزید گفتگو نہ صرف الفاظ کا ضیاع ہے بلکہ انہیں ضرورت سے کہیں زیادہ اہمیت اور توجہ دینے کے مترادف بھی ہے۔ تاہم ایسے میں میری حکومت میری مرضی کے علمبرداروں کا بھی کالم پر کچھ تو حق بنتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو زمانوں سے سنتے آئے تھے یعنی لاٹھی میرے ہاتھ میں ہے تو بھینس بھی میری ہی ہوگی‘ مگر بات اب لاٹھی اور بھینس سے نکل کر کچھ یوں شکل اختیار کر چکی ہے کہ میری حکومت میری مرضی‘میری پارٹی میری مرضی‘ میرا صوبہ میری مرضی‘ میرا اختیار میری مرضی‘ میرے عوام میری رعایا تو میری رعایا میری مرضی... یہ من مرضیاں بھگتنا تو روزِ اوّل سے عوام کا مقدر بنا ہوا ہے۔
ملک بھر میں آج بھی من مرضیوں کا راج ہے‘ ہر طرف طوفان کا سماں ہے۔ کہیں سیاسی گرما گرمی نقطۂ عروج پر تو کہیں سیاسی بازی گر اپنے اپنے آئٹمز کے ساتھ عوام کو لبھانے اور اُلجھانے کیلئے کیسی کیسی قلا بازیوں کے ساتھ کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک بھر کی توجہ اسی سیاسی سرکس پر مرکوز ہے‘ عوام کو اپنے کرتبوں میں اُلجھا کر حکمران گورننس کے نام پر کیسی کیسی واردات کر رہے ہیں اس کا علم اور اندازہ ہونے تک مداوے اور ازالے کا وقت بھی شاید باقی نہ رہے۔ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے نکالنے سے لے کر انرجی بحران پر مکمل قابو پانے کے دعوے کرنے والوں تک آج برسرِ اقتدار آکر ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے نتیجے میں چینی کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کو شوگر مافیا سے منسوب کر کے چینی کا چورن تو خوب بیچ رہے ہیں لیکن انرجی سیکٹر میں ان کے اقدامات کے اندھیرے کوئی کیسے روک پائے گا؟ عوام کو شوگر مافیا میں اُلجھا کر اصل واردات سے توجہ ہٹانے کی انجینئرنگ بھی کمال ہے۔
جن معاہدوں کو سابق حکمرانوں کی بدنیتی قرار دے کر صبح و شام تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے‘ سستی بجلی کے کیسے کیسے دعوے کیا کرتے تھے‘ کے الیکٹرک کی بربادی کے ذمہ داروں کو منافع بخش کمپنیوں میں بوجوہ گھسانے والوںنے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈڈسپیچ کمپنی (NTDC) پر بھی ہاتھ صاف کر ڈالا۔ ایک ایسے شخص کو 15ہزار امریکی ڈالر کے عوض اس حساس ترین ادارے کی سربراہی پلیٹ میں رکھ کر پیش کی ہے جو میری اطلاع کے مطابق کینیڈا سے بوجوہ درآمد کیا گیا ہے۔ اس نئے ایم ڈی کی متعلقہ شعبہ میں نہ تو کوئی پیشہ ورانہ مہارت ہے پھر بھی مفادات کے مارے انصاف سرکار میں گھات لگانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے ایم ڈی کی اسامی کے لیے تین سالہ انتظامی تجربہ بھی تقرری سے مشروط تھا جبکہ درآمدی ایم ڈی کو اس اہم اور بنیادی اہلیت سے بوجوہ استثنیٰ دے کر میرٹ اور گورننس کو نہ صرف چار چاند لگا دیے گئے ہیں بلکہ ایک کھلا پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت اور تجربہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ سستی بجلی کے دعویدار ملک و قوم کو کس قدر مہنگے پڑتے چلے جارہے ہیں‘ اندازہ لگائیں۔ 23لاکھ 55ہزار ماہوار پر یہ ایم ڈی صاحب کس کی خواہش اور کون سے ایجنڈے پر درآمد کیے گئے ہیں‘ یہ عقدہ آج نہیں تو کل کُھل ہی جائے گا لیکن اس کے کھلنے تک کیا کیا گُل کھلا ئے جا چکے ہوں گے اس کا اندازہ فیصلہ ساز مشیروں کی نیتوں اور ارادوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
یہ معمہ بھی انتہائی اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ ایک سرکاری عہدے کیلئے تمام ضابطوں اور مطلوبہ اہلیت کو نظرانداز کر کے کونسی قومی خدمت سرانجام دی جارہی ہے اور گھس بیٹھئے مشیر وزیراعظم کو کن حالات سے دوچار کرنے جا رہے ہیں اس کا اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ماضی کے حکمرانوں اور ان کی اس قسم کی وارداتوں اور بندر بانٹ کا انجام دیکھ کر بھی کوئی سبق حاصل نہ کرے تو ''ہمارا ذمہ توش پوش...‘‘۔
ملکی وسائل ہوں یا قومی ادارے ان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ماضی کے حکمران ہوں یا دورِ حاضر کے یہ سبھی رہنما عوام کو کبھی سستی بجلی کے جھانسے دیتے ہیں تو کبھی سستی روٹی کے دلاسے۔ درحقیقت سستے کا چورن بیچنے والے ہر دور میں عوام کو مہنگے ہی پڑے ہیں۔ ایک انرجی سیکٹر کیا تمام شعبے مصاحبین اور مشیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ وزیراعظم پہلے ہی اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کوئے اقتدار کے حالات اس قدر خراب ہوں گے‘ آنے والے وقتوں میں ان سے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ پانچ سال تو سمجھنے سمجھانے میں لگ گئے۔ اگلے پانچ سالوں میں وہ سبھی چاند تارے ضرور توڑ لائیں گے جو وہ اپنے مشیروں اور مصاحبین کی وجہ سے نہیں توڑ سکے۔ ان حالات میں یہ شعر مجھے تو حسبِ حال لگتا ہے ؎
اک اور عمر دے مجھے جینے کے واسطے
تو نے جو عمر دی تھی وہ مرنے میں لگ گئی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں