حکومت چیئرمین سینیٹ کا انتخابی معرکہ سر کر چکی۔ مار دھاڑ کا یہ سلسلہ ہمارے سیاسی سرکس کا ایک اہم آئٹم ہے جس میں عوام کو اکثر حیرت سے دوچار کیا جاتا ہے۔ نتائج کے بعد شادیانے بجانے والے ہوں یا بغلیں جھانکنے والے‘ سبھی کے اپنے اپنے بیانیے اور توجیہات ہیں۔ سینیٹ کا میدان لگنے سے پہلے بھی باور کرواتا رہا ہوں کہ سنجرانی ہوں یا گیلانی‘ عوام کے لیے سبھی باعثِ گرانی ہیں۔ گیلانی صاحب سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب جیت کر کون سی توپ چلا لیتے جو وہ بطور وزیر اعظم نہیں چلا سکے تھے؟ ان کا خیال آتے ہی چشم تصور میں وہ سبھی داستانیں فلم کی طرح چل پڑتی ہیں جو ان کی طرزِ حکمرانی کو چار چاند لگاتی رہی ہیں۔ رہی بات سنجرانی کی‘ تو وہ پہلے ہی چیئرمین سینیٹ تھے اور اب الیکشن جیت کر اپنی پرانی ذمہ داریاں جاری رکھ سکیں گے۔
طرزِ حکمرانی سے لے کر من مانی تک گیلانی صاحب نے عوام کو کون سا سکھ دیا جو اَب وہ جمہوری چیمپئن بن کر اپنی ہار جیت کو عوام سے منسوب کر رہے تھے۔ سبھی کو سبھی جانتے ہیں۔ اپوزیشن شدید مزاحمت کی کال دے کر ایک بار پھر اختلافات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے استعفوں کی مخالفت کر دی ہے‘ تاہم نون لیگ کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انصاف سرکار سے اسی زبان میں بات کرنے پر اُتر آئی ہے جس زبان کا سامنا وہ اقتدار میں رہ کر دھرنوں میں کر چکی ہے۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تو تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر مزاحمت کا آغاز کر ڈالا اور جیسے تیسے سوا سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک سو چھبیس دن کے مزاحمتی شو کا وہ سٹیج لگایا کہ وفاقی دارالحکومت سمیت نجانے کیا کچھ مفلوج کر ڈالا۔ اس دوران سانحہ اے پی ایس رونما ہوا تو تحریک انصاف کو دھرنا اٹھانا پڑا اور نون لیگ کے اوسان بحال ہوئے‘ بصورت دیگر یہ دھرنا حکومت وقت کو غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ نجانے کیسے کیسے پریشان کن حالات سے دوچار کر سکتا تھا۔
دلچسپ اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ دھرنوں کے دوران نون لیگ کی طرزِ حکمرانی سے لے کر شکم پروری اوراقربا پروری تک‘ سرکاری وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر میرٹ کو تار تار کرنے تک‘ تحریک انصاف نے تنقید کے کون سے تیز نہیں چلائے؟ 2018ء میں تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو نون لیگ سمیت اپوزیشن کی صفوں میں سوگ کا سماں طاری تھا۔ احتسابی کارروائیوں کی وجہ سے بد حواسی اور پریشانی بھی نا قابلِ بیان تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اور انصاف سرکار کی گورننس کے جوہر عوام پر کھلتے چلے گئے توں توں عوام کے سر سے تبدیلی کا نشہ اترتا چلا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ میرٹ اور گورننس کے حشر نشر کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ کے ریکارڈ توڑنے کے علاوہ انصاف سرکار بد ترین طرزِ حکمرانی کے نجانے کتنے ریکارڈ بنا اور توڑ چکی ہے۔
جن شعبوں میں ریفارمز کے دعوے کیے گئے تھے‘ وہاں ڈیفارمز کے انبار لگ چکے ہیں۔ پولیس ہو یا افسر شاہی‘ سبھی پر اتنے تجربات کیے جا چکے ہیں کہ اب ان سے پرفارمنس کی توقع کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اقتصادی اصلاحات کا چورن دعووں اور شعلہ بیانیوں تک ہی محدود ہے جبکہ عوام کے چولہے بدستور ٹھنڈے پڑے ہیں۔ کاش بیانیے کے شعلوں کی کوئی ایک آدھ چنگاری عوام کے چولہوں تک بھی پہنچ پاتی۔ نون لیگ کی طرزِ حکمرانی کا ایک اور تجربہ انصاف سرکار دہرانے کی ضد پر تا حال قائم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو انتظامی اور سیاسی فیصلوں کے اختیار سے محروم کر کے تابع ہی رکھا جائے۔ یہ تجربہ نواز شریف نے 1990ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد غلام حیدر وائیں کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کرکیا تھا۔ وزارت اعلیٰ کا قلم دان غلام حیدر وائیں کے پاس تھا لیکن قلم کی طاقت وزیر اعظم نواز شریف کے پاس تھی جبکہ اکثر انتظامی معاملات اور اہم فیصلوں پر شہباز شریف اثر انداز نظر آتے تھے۔ وزیر اعظم ویک اینڈ پر صوبائی دارالحکومت میں لینڈ کیا کرتے تھے اور باغِ جناح میں چوکے چھکے لگایا کرتے تھے۔ کرکٹ کے بعد اکثر گرائونڈ میں ہی اہم انتظامی اور سیاسی فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں منظوری کی طلب گار اہم فائلوں پر وزیر اعظم کی منشا اور اشارے کے بغیر دستخط نہیں کیا کرتے تھے‘ مگر بے اختیار وزیر اعلیٰ بتدریج حکمران جماعت کے لیے آزمائش بنتے چلے گئے۔ حریف تو حریف حلیف بھی نالاں اور تحفظات کا شکار دکھائی دیتے تھے کہ بے اختیار وزیر اعلیٰ کو سب سے بڑے صوبے پر متعین کرنا صوبے اور عوام دونوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف بضد تھے کہ وہ ڈمی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہی پنجاب چلائیں گے۔ وزیر اعظم کو یہ ضد اتنی مہنگی پڑی کہ وزیر اعلیٰ بچاتے بچاتے تختِ پنجاب سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
تحریک انصاف نے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں کمزور طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ وہاں ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بھی اسی ماڈل پہ چلانے کا فیصلہ کیا جو نواز شریف غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ بنا کر تخلیق کر چکے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے عوام کو سرپرائز دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بنیں گے تو شوگر ملز نہیں لگائیں گے‘ بینکوں سے قرضے نہیں لیں گے‘ اپنے رشتہ داروں کو نہیں نوازیں گے‘ مثالی گورننس ہو گی‘ میرٹ کا دور دورہ ہو گا‘ پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے غریبوں کے مسائل سے وہ بخوبی آگاہ ہیں‘ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ دن رات ایک کر دیں گے‘ تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال میں عوام کو دھتکار کے بجائے عزت ملے گی اور ان کی داد رسی ہو گی‘ الغرض وہ عوام کے حقیقی نمائندے بن کر ان زیادتیوں اور تکالیف کا ازالہ کریں گے جو ہر دور میں عوام جھیلتے رہے ہیں۔ محسوس ہونے لگا کہ بزدار ان سبھی خوابوں کی تعبیر ثابت ہوں گے جو انصاف سرکار دھرنوں میں عوام کو دکھاتی رہی ہے‘ مگر بد قسمتی سے وزیر اعظم کی یہ سبھی توقعات اور امیدیں نہ صرف عوام کا منہ چڑا رہی ہیں بلکہ دکھائے گئے سبھی خوابوں کی تعبیریں وہ بھیانک منظر پیش کر رہی ہیں کہ عوام سابقہ ادوار کی طرزِ حکمرانی کو بے اختیار یاد کرتے ہیں۔ اندرونی تحفظات اور بیرونی مزاحمت کے باوجود وزیر اعظم اپنے فیصلے پر بضد نظر آتے ہیں جبکہ دور کی کوڑی لانے والے برملا اظہار کرتے ہیں کہ تخت پنجاب کا یہ فیصلہ وزیر اعظم کے ان سبھی دعووں اور وعدوں کی نفی ثابت ہوا ہے‘ جو وہ برسر اقتدار آنے سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اس پر ستم یہ کہ معاونین اور مصاحبین کی ایک ایسی فوج وزیر اعظم کے گرد نظر آتی ہے جو انصاف سرکار کے اقتدار کی گاڑی ایسے رستوں پر دوڑائے چلے جا رہی ہے جو منزل پر پہنچانے کے بجائے اصل راستے سے بھٹکانے کا باعث بن رہی ہے۔ ان راستوں کے سنگ ہائے میل چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ یہ وہی راستے ہیں جن پر ماضی کے حکمران سرپٹ دوڑا کرتے تھے اور یہی رستے آج ان کے پیروں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں‘ جبکہ اقتدار کی گاڑی میں سوار اکثریت کو تحریک انصاف سے نہ کوئی سروکار ہے اور نہ کبھی کوئی وابستگی رہی ہے۔ یہ وہی چیمپئن ہیں جو ہر دور میں اقتدار کی سواری پر کسی نہ کسی طرح چڑھ جاتے ہیں اور جونہی گاڑی کو کسی حادثے کا اندیشہ یا خدشہ لاحق ہوتا ہے سب سے پہلے چھلانگ بھی یہی لگاتے ہیں اور ان کے مشوروں اور فیصلوں کی قیمت بہرحال ان حکمرانوں کو چکانا پڑتی ہے عوام جن کے جھانسوں اور بہلاووں کا شکار ہو کر انہیں مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں؛ تاہم سابق ادوار کے ریکارڈ توڑتے حکمرانوں سے عاجر عوام کا عالم یہ ہے کہ جو بے پناہ چاہتے تھے‘ اب پناہ چاہتے ہیں۔