سیاسی سرکس کا کھڑکی توڑ ہفتہ مزید توڑ پھوڑ کے ساتھ نجانے کیا کچھ درہم برہم کرتا دکھائی دے رہا ہے۔سینیٹ میں کامیابی کے باوجود حکومت الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دے کر استعفے کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ وزیراعظم ایوان کو بکرا منڈی قرار دے چکے ہیں۔ وزیراعظم نے ارکان کو بکرے سے تشبیہ دے کر نئی اصطلاح پیش کی ہے ‘ماضی کے ادوار میں ارکان کی خرید و فروخت اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا رہا ہے‘تاہم گھوڑے سے بکرے تک کے اس سفر کو تنزلی کہا جائے یا ترقی اس کا فیصلہ گھوڑے جانیں یا بکرے‘کیونکہ دونوں کو ہی بس اپنے چارے ہی سے غرض ہوتی ہے۔حکومت کی نصف مدت گزر چکی ہے‘ مگر کارکردگی تو درکنار‘فیصلوں سے لے کر بیانیے تک سبکی اور جگ ہنسائی کا دور دورہ ہے۔ اپنی کارکردگی اور طرزِ حکمرانی سے بے نیاز سرکار اپنی ناکامیوں کا ذمہ دارسابق حکمرانوں کو ٹھہرائے چلے جارہی ہے۔ حکومت کے اس طرزِ عمل سے سقراط کا یہ قول بے اختیار یاد آتا ہے کہ میں بھی جاہل ہوں اور میرے اردگرد رہنے والے بھی‘ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنی جہالت جان چکا ہوں اور یہ لوگ نہیں جانتے۔
وزیراعظم کا ایک اور بیان انتہائی دلچسپی کا حامل ہے کہ سابقہ حکومتوں نے بجلی کے مہنگے منصوبے لگائے جس کا بوجھ عوام ابھی تک برداشت کررہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بیان کوئی نیا نہیں‘ایسے بیانات وہ دھرنے کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہوکر بھی دیا کرتے تھے۔اور ایسے ہی بیانیوں سے متاثر ہوکرعوام نے مینڈیٹ دینے کا رسک لیا تھا‘ لیکن اس حکومت نے بجلی کے جو جھٹکے عوام کو اپنے اقتدار کی نصف مدت میں دے ڈالے ہیں عوام یقینا پرانے جھٹکے بھول گئے ہو ں گے۔ کے الیکٹرک کو برباد کرنے والے منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں کس ایجنڈے کے تحت گھسائے جارہے ہیں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی سربراہی کے لیے میرٹ اور ضابطوں کے برعکس تقرری کون سا ایجنڈا؟جبکہ انرجی سیکٹر میں جو شارٹ کٹ اور چوکے چھکے اس کے علاوہ لگائے جارہے ہیں ان کی تفصیلات میں جانے کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔تاہم اختصار کے ساتھ یہ عرض کرتا چلوں کہ تانے بانے اور ڈوریاں سیاسی سرکس میں کرتب دکھاتے بازی گروں کی طرف ضرور جانکلتی ہیں۔حکومت ایسے بیانات دیتے وقت سقراط کا درج بالا قول اگر یاد کرلے توسبکی اور جگ ہنسائی سے بچا جاسکتا ہے۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی اپنی 'جہالت‘ سے بے خبر پائے گئے ہیں‘تاہم موجودہ دورمیں شریک اقتدارچودھری برادران کا وجود غنیمت اور باعثِ اطمینان اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی 'جہالت‘ سے خبردار ہیں بلکہ انہیں اپنی حلیف جماعت تحریک انصاف کی 'جہالت ‘کا بھی بخوبی اندازہ ہے اسی لیے چودھری شجاعت حسین نے کہہ دیا ہے کہ ـمہنگائی کنٹرول نہ ہوئی توسینیٹ میں ہار جیت بے فائدہ ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فتح کے جشن اور بھنگڑے ڈالنے کے بجائے بھوک اور مہنگائی سے بگڑی ہوئی عوام کی حالت پر توجہ کریں‘وہ آہ وبکا کررہے ہیں ۔ ووٹ اور نوٹ کی عزت کا پرچار کرنے کے بجائے اب عوام کے مسائل پر توجہ دیں۔اسی طرح سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بھی بڑھتی ہوئے مہنگائی سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ مہنگائی کے جن کو لگام نہ ڈالی گئی تو غریب آدمی رمضان المبارک میں مزید مشکلات سے دوچار ہوگا۔چودھری برادران سقراط والی' جہالت‘ سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ نبض شناس بھی خوب ہیں۔آٹھ نو ماہ قبل چودھری شجاعت حسین وزیراعظم کوبذریعہ مکتوب بھی حالات کی نزاکت کا احساس دلانے کی کوشش کرچکے ہیں‘ جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان قربت کے بجائے ایسے فاصلے پیدا کروائے جارہے ہیں جس کا نقصان دوریاں پیدا کرنے والوں کو نہیں صرف اور صرف آپ کا ہورہا ہے۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور ریاست کے استحکام کے لیے اس ستون کا مستحکم ہونا بہت ضروری ہے۔ میڈیا سے محاذ آرائی کسی صورت بھی مناسب نہیں۔ چودھری شجاعت وزیراعظم کو مسلسل مشورے دیتے چلے آرہے ہیں کہ اپنے اتحادیوں پر اعتماد اور فسادیوں سے اجتناب کریں کیونکہ یہ وہی ہیں جو ہر دور میں نفرت اور انتشار کی سیاست کرتے ہیں ۔
دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ چودھری برادران کے مشوروں اور تحفظات کو حکومت نہ صرف' کارِ سرکار میں مداخلت‘ تصور کرتی ہے بلکہ مفادِ عامہ کے مشوروں پر اکثر عمل اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اس کا کریڈٹ چودھری برادران کو نہ چلا جائے۔چودھری شجاعت حسین کے مکتوب ہوں یا مشورے وزیراعظم نے کبھی جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا ۔کسی کے پیغام یا خط کا جواب نہ دینے سے بڑھ کر اور کیا جواب ہوسکتا ہے جبکہ چند ماہ قبل وزیراعظم کی طرف سے اتحادیوں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں چودھری برادران نے بوجوہ شرکت نہ کرکے کھلا پیغام دیا تھا کہ ہم آپ کے اتحادی ضرور ہیں لیکن اسے ہماری کمزوری تصور نہ کیا جائے۔وزیراعظم کے عشائیہ میں چودھری برادران کی عدم شرکت کا پس منظر اوران کا وزیراعظم کوکھلا پیغام نہ صرف ان چیمپئنز کی طرف واضح اشارہ تھا جو ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی باتیں ادھرکرنے پر مامور تھے۔ تاہم حکومت اور چودھری برادران کے درمیان اختلافات اور بدگمانیوں کو ہوا دینے کا کریڈٹ بھی انہی مخصوص چیمپئنز کو جاتا ہے۔سمجھ والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی۔مہنگائی کو لے کر چودھری برادران کی تشویش خطرے کا وہ الارم ہے جو کب سے بجایا جا رہا ہے لیکن حکومت اس الارم کو توجہ کے لائق نہیں سمجھتی اور مہنگائی کے جن کا رقص بدستور جاری ہے اور حکومت میں حالات کی نبض شناسی تو درکنار مردم شناسی جیسی اہم صفت بھی نظر نہیں آتی۔
ایک طرف رمضان المبارک کی آمد آمد ہے تو دوسری طرف کورونا کی صورتحال تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے ۔سمارٹ لاک ڈائون لگا دیا گیا ہے۔ ماہِ صیام ہمارے ہاں مال کمانے کا ہمیشہ ہی سیزن رہا ہے جبکہ خودساختہ مہنگائی پر مامور انتظامی مشینری بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی خوب سنوارتی ہے۔آنے والے دنوں میں دو خودساختہ اضافی ٹیکس اشیائے خورونوش سمیت نجانے کہاں کہاں ازخود لگادیے جائیں گے جن میں ایک'' کورونا ٹیکس‘‘ ہے اور'' دوسرا رمضان ٹیکس‘‘۔ گزشتہ برس یہ دونوں خودساختہ ٹیکسز عوام یکمشت بھگت چکے ہیں۔اس بار رمضان اور لاک ڈائون پھر ایک ساتھ آگئے ہیں۔ خدا خیر کرے ‘ایسے حالات میں اس بے کس اور لاچار عوام کی۔
اس بار بھی سرکار مثالی اقدامات اور انقلابی فیصلوں کے روایتی دعوے کئے جارہی ہے۔سرکار کو بھاشن سے فرصت نہیں توعوام کو راشن کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جس تواتر سے بھاشن پرسرکار محنت کررہی ہے اس سے کہیں کم توجہ اگر ان لوگوں کی سہولت پر کرتی جو راشن کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں تو حالات اس قدر گمبھیر نہ ہوتے۔راشن کی تلاش میں بھاگنے والے تو یقینا کہیں نہ کہیں تھکیں گے بھی اور گریں گے بھی لیکن بھاشن کی یہ دوڑ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ سرکار کا ہر چیمپئن ایک دوسرے پر بازی اور سبقت کی خاطر بھاشن دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ مہنگائی کے جن کی دھمال اور کورونا تو ایک طرف یہاں تو صوبائی دارالحکومت کوڑے دان کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے اور گڈ گورننس کے سبھی دعووں کی قلعی کھول رہے ہیں۔ گرین بیلٹیں ہوں یا اہم شاہراہیں سبھی کچرا کنڈی دکھائی دیتی ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ بزدار سرکار صوبے کے دیگر شہروں کو تو لاہور کے برابر نہ لاسکی لیکن لاہورکو ان شہروں جیسے بدترین حالات سے دوچارکرکے ان کا احساسِ محرومی ضرور کم کردیا ہے۔اسے کہتے ہیں مساوات...اسے کہتے ہیں الٹی ترقی اور ویژنری پرفارمنس۔