"AAC" (space) message & send to 7575

تجدید عہد یا …

یوم تجدیدِ عہد قومی سطح پر منانے کے بعد پوری قوم جوں کی توں اور پرانی روش پر رواں دواں ہے۔دو قومی نظریے کی روشنی میں 1930ء میں علامہ اقبال نے مملکتِ خداداد کا تصور پیش کیاتھا‘ اگلے دس برس میںیہ تصور زیادہ واضح صورت اختیار کر گیا؛ چنانچہ مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس منعقدہ 1940ء میں مسلمانوں کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کے الگ وطن کا مطالبہ قرار داد کی صورت میں پیش کر دیا گیا۔ مسلمانانِ ہند اپنے اس تصور اور مطالبے میں اتنے واضح تھے کہ الگ وطن کے حصول کا مطالبہ صرف سات برسوں میں عملی صورت اختیار کر گیا۔ مگر اس ملک کے حکمران سات دہائیوں سے مملکت خداداد کو کس طرح تختہ مشق بنا رہے ہیں یہ دیکھ کر قائد اور اقبال کی روحیں بے چین ہوتی ہوں گی۔ جس وطن کے حصول کے لیے برصغیر کے چوٹی کے مسلم رہنماؤں نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں‘ مسلم عوام نے بے پناہ جانی ومالی قربانیاں برداشت کیں ‘وہ ملک ہمیں سستا مل گیا‘ اسی لیے ہمیں اس کی قدر اور اہمیت کا احساس نہیں۔پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان دلخراش ہے۔ اس دردناک کہانی کے کردار ہزاروں خاندان آج بھی یہ زخم بھلا نہیں پائے ‘ تقسیم ہند کے وقت کے ہولناک مناظر ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہوپائے ۔مگر اُس نسل کو73 برس گنوانے کے بعد بھی یہ احساس بے چین کئے رکھتا ہے کہ تمام عمر چلے گھر نہیں آیا ۔اور گھرکیوں نہیں آیا اس کا جواب گھر کے رکھوالوں کے پاس بھی نہیں ۔وطنِ عزیز کوآج تک ایسا کوئی حکمران ہی نصیب نہیں ہوا جو گورننس سے آشنا اور مردم شناس ہو ۔ذاتی خواہشات اور مفادات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل سے تکمیل تک انہیں اپنے رفقا اور مصاحبین کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا ۔ناموافق اور نام نہاد رہبروں کے پیچھے نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلتے یہ قوم ہلکان اوراس کی حالت ناقابل بیان ہے ۔
قیام پاکستان سے لے کر لمحۂ موجود تک حکمرانوں نے کیا کچھ داؤ پر نہیں لگایا ‘ملکی وقار سے لے کر ـمعاشی استحکام تک ‘سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک سبھی کچھ تہ وبالا کئے رکھا ۔سرکاری وسائل پر کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک کیسا کیسا جاں لیوا منظر ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ذاتی مفادات سے لے کر مخصوص مقاصد تک‘مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد نیتی اور بد انتظامی تک سبھی کچھ تو مملکت خداداد کا طرز حکمرانی رہا ہے ۔ سات دہائیوں سے مسلط حکمران یہی عذر تراشتے نظر آئے کہ ملک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘ قوم کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔قیام پاکستان کے وقت جو حالات تھے‘ اس سے بڑھ کر بھلا نازک موڑ اور کیا ہوگا ؟کیسے کیسے چیلنجز اور آزمائشیں مملکت خدا داد کو درپیش تھیں‘ مہاجرین کی آباد کاری‘ روزگار کے انتظام و انصرام کے مسائل‘انفراسٹرکچر سے لے کر استعداد کارتک‘مالی مشکلات سے لے کر وسائل کی عدم فراہمی تک کتنے ہی کٹھن مرحلے تقسیمِ ہند کے وقت درپیش رہے مگربانیٔ پاکستان نے ہر گز یہ عذر پیش نہیں کیا کہ انہیں خون ریزی‘ قتل و غارت اور دیگر مصائب کا اندازہ نہ تھا ۔انہوں نے مشکل حالات سے فرار کیلئے نہ کوئی جواز گھڑے اور نہ ہی توجیہات پیش کیں‘ بس اپنے اقوال اور فرمودات کا پاس رکھا اور کام کیا‘ جیسا کہ وہ قیامِ پاکستان سے پہلے کیا کرتے تھے ۔
مگرقائد اعظم کے بعد ہمارا نازک موڑ ہی ختم ہونے کو نہیں آرہا‘یہ کیسی مشکل ہے جو ہر دور میں عوام کو در پیش رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنی بدعہدیوں اور بد اعمالیوں کے ساتھ تجدید عہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ منظر نامہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم تجدید عہد نہیں ک رہے بلکہ عہد کا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔طرزِ حکمرانی ہو یا قول وفعل‘بلند بانگ دعوے ہوں یاگمراہ کن اعداد وشمار ‘ دھوکے ہوں یا جھانسے تجدید عہد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔سات دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ بحث تاحال جاری ہے کہ مملکت خداداد کا طرز حکمرانی کیا ہونا چاہئے ‘ موجودہ حکومت بھی اسی مخمصے کا شکار ہے کہ طرزِ حکمرانی کیلئے کونساماڈل اپنایا جاسکتا ہے ۔ریاست مدینہ ‘ انقلاب ِایران ‘ملائشیا تو کبھی چینی ماڈل کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ان سے پہلے والے بھی اسی مخمصے کا شکار رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہم قومی تعمیر کے معاملے میں یکسو نہ ہو سکے ‘ ہی ہماری رائے میں اتفاق پیدا ہو سکا ہے اور قومی مستقبل اور ملک اور طرزِ حکومت کے ماڈل میں ہم کسی ایک نکتے پر اکٹھے نہیں ہو سکے۔ قیام پاکستان سے لمحۂ موجود تک کیا حکمران کیا عوام‘ ارادوں سے لے کر نیت تک‘ بلند بانگ دعووں سے لے کر عملی اقدامات تک‘کیا سب کچھ الفاظ کا گورکھ دھندا ہی دکھائی نہیں دیتا۔ حکمرانوں کو عوام کی کوئی پروانہیں تو عوام کو شکم سیری کے سوا کوئی کام نہیں۔ مفاد پرستی اور شخصیت پرستی میں کیسا کیسا کردار اپنی دھن میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ کبھی بنامِ وطن تو کبھی بنامِ دین‘کہیں جھانسے تو کہیں دھونس‘ حکمرانوں نے ملک و قوم کو کب اور کہاں نہیں لوٹا اور جو حکمران نہیں وہ کون سی کسر چھوڑ رہے ہیں۔ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ جعل سازی‘ بد عنوانی‘ جھوٹ‘ دھوکہ ‘ فریب ‘ لالچ کوئی اخلاقی گراوٹ یہاں نہیں پائی جاتی؟ حکمرانوں نے عوام کو اندھیروں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا اور رعایا بھی اپنی بھائی بندوں کی بوٹیاں نوچنے میں کب پیچھے رہی ہے۔ بد اعتمادی اور بے یقینی کے کیسے کیسے اندھے گڑھوں میں ایک دوسرے کودھکیلتے چلے جارہے ہیں اورسات دہائیاں گزرنے کے باوجود ابھی تک انہی اندھی کھائیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ نجات دہندہ بن کر آنے والوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا تھا پھر انہی سے پناہ مانگتے رہے‘ مگرعوام کی اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ کہیں تو یہ حکمرانوں کے سہولت کار ہیں اور کہیں ان کے پیروکار۔ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی مال بناؤ اور مال بچاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی آٹے سے مال بنا کر گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال رہا ہے تو کوئی چینی سے اپنی دنیا سنوار کر عوام کی زندگیوں میں مہنگائی کا زہر گھول رہا ہے۔ کوئی انرجی سے بنائے مال پر خود کو انرجیٹک بنانے میں مگن ہے‘ کوئی اربوں کے ریفنڈ لے کر چند کروڑ کا عطیہ دے کر حاتم طائی بنا پھرتا ہے‘ کوئی زکوٰۃ و خیرات کے پیسے سے چیرٹی کر کے اترا رہا ہے تو کوئی سرکاری وسائل پر کنبہ پروری پہ نازاں ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زر کے کیسے کیسے مناظر صبح و شام‘ جابجا‘ ہر سو نظر آتے ہیں۔
یومِ تجدیدِ عہد کی رسم ہم ہر سال باقاعدگی سے منایا کرتے ہیں مگر پورا سال ہم اسی عہد کی بے حرمتی کرتے ہوئے ضمیر پر ذرا بھی بوجھ محسوس نہیں کرتے ۔یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے کہ جہاں ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کیلئے بھٹکتی ہیں ‘ زمینی خدا اور ان کا قانون انہیں انصاف فراہم کرنے سے گریزاں ہے ۔یہ کہاں کی گورننس ہے کہ ہسپتالوں میں علاج نہیں ‘تھانوں میں امان نہیں سرکاری اداروں میں شنوائی نہیں دھتکار اورپھٹکار ہے ۔سماج سیوک حکمرانوں سے لے کر افسر شاہی تک سبھی کے اپنے اپنے ایجنڈے اور دھندے ہیں ۔اس ملک میں بسنے والے عوام سے ان کا کوئی تعلق ہے نہ سروکار ۔کوئی عاجزی کے تکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کوئی مہارت اور قابلیت کے گھمنڈ میں اترائے پھرتا ہے۔ احترامِ قانون سے لے کر احترامِ آدمیت تک سب الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے‘ کبھی بنام دین تو کبھی بنام وطن ‘حصول اقتدار سے لے کر طول اقتدار تک عوام کو کیسے کیسے جھانسے اور دھوکے نہیں دئیے گئے ۔ملکی سلامتی داؤ پر لگانے سے لے کر بھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل تک سبھی کچھ اتنی آسانی سے کیا جاتا ہے کہ غیرت قومی کا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔ محو حیرت ہوں کہ اسے کیا کہا جائے‘ تجدیدِ عہد یا کچھ اور؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں