حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے خدا جانے جمہوریت کے ان علمبردار وں کو بنیادی جمہوریت سے کیا بیر اور عناد ہے؟ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے بھاشن دیتے ہیں لیکن برسر اقتدارآنے کے بعد بنیادی جمہوریت کی علامت بلدیاتی اداروں سے نجانے کیوں خائف اور شاکی رہتے ہیں؟ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پول ایک بار پھر کھول دیا ہے۔سپریم کورٹ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے لیکن الٹا بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے دفاتر ہوں یا بنیادی جمہوریت کے ایوان سبھی پراس خوف سے تالے اورپہرے لگا دیے گئے ہیں کہ کوئی عوامی نمائندہ اندر داخل نہ ہوجائے ۔یہ جمہوری چیمپئنز نہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی عدالتی فیصلے کا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس حوالے سے خان صاحب شریف برادران کے طرزِ حکمرانی اور روایت کو دوام بخشتے نظر آتے ہیں۔انہیں بھی بلدیاتی اداروں سے نہ صرف خدا واسطے کا بیر تھا بلکہ ایک طویل مدت تک انہوں نے عوام کو ان کے حقیقی نمائندوں سے محروم رکھا۔تاہم پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کا طعنہ دینے والے جمہوریت کے ان چیمپئن سیاستدانوں کے ریکارڈ کی درستی کیلئے عرض کرتا چلوں کہ اپنے نو سالہ اقتدار میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے اور بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا۔2008ء میں مسلم لیگ (ن) نے بھی پنجاب میں عرصہ اقتدار کے پورے پانچ سال مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کیے رکھا۔ شہباز شریف نے کئی بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا‘ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی لیکن انتخابات کروانے کی ہمت نہ ہوئی۔2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی اداروں سے عناد برقرار رکھا اور مزید دو سال پھر گزار ڈالے۔بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور حکم پر مجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانے پڑے۔ انتخابات تو خدا خدا کرکے ہوگئے‘ لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔بالآخر مرتاکیا نہ کرتا کے مصداق دسمبر 2016ء میں منتخب نمائندوں کی حلف برداری اور میئرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا‘غیر فعال اور بیوروکریسی کا مرہون ِمنت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے عدالت کے حکم کی تعمیل کے علاوہ جمہوریت پسندی کی چیمپئن شپ بھی جیت لی۔یہاں بھی بدنیتی غالب رہی۔ضلعی میئرز اور چیئرمینوں کے دائر ۂ اختیار سے وہ تمام محکمے خارج کردیے گئے جن کا تعلق براہ راست شہری سہولیات اور محصولات سے تھا۔مذکورہ محکموں میں حکومت پنجاب نے اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور یوں بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیارجبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔مالی اور انتظامی طور پر غیر مستحکم اور غیر فعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیرتو کردیالیکن عوامی نمائندے عوام کے سامنے شرمندہ ہی رہے۔
سابق وزیراعلیٰ کی اس واردات پر پاکستان تحریک انصاف نے خوب سیاست کی اور یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی بر سراقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا بھرپورموقع دے گی‘جبکہ پی ٹی آئی کا یہ انتخابی منشور بھی تھا کہ ارکانِ اسمبلی صرف قانون اور پالیسی سازی پر کام کریں گے‘شہری سہولیات اور ترقیاتی کاموں سے متعلق تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیے جائیں گے‘لیکن2018 ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش اور طرزِ حکمرانی کی روایت کو برقرار رکھا اور ان بلدیاتی اداروں کو اپنے لیے ایک چیلنج تصور کرتے ہوئے ان کی تسخیر کیلئے کافی تگ ودو کی گئی۔
اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور موجود ہ اداروں سے چھٹکارا کیونکر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے حکو مت کے اس تعصب اور عناد کے پیش نظر پنجاب بھر کے میئرزاور چیئرمین ضلع کونسلز اکٹھے ہوئے اور لاہور‘ملتان‘ راولپنڈی‘اسلام آباداور بہاولپور میں کئی اجلاس منعقد کیے گئے‘جسے میئر کانفرنس کا نام دیا گیا۔اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے مختلف آرا اور مشوروں کے بعد تمام اضلاع کے میئرز اور چیئرمینوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کہ ہم سب وسیع ترملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون اور ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘کیونکہ میئر کسی پارٹی یا خاص گروہ کا نہیں ہوتا‘ بلکہ پورے شہر کا ہوتا ہے۔ جسے ''فادر آف سٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے شہر کے عوام میں کس طرح امتیاز اور تفریق کرسکتا ہے؟ اور حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ تعصب کی عینک اتار پھینکے‘ہم پر اعتماد کرے‘ہم حکومت کے شانہ بشانہ اس کی پالیسیوں اور ترجیحات کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ عوام کے حال پر رحم کریں اور ان منتخب عوامی نمائندوں کو عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا موقع دیں‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت ان کو کسی طور ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ اگر کسی میئر یا ضلعی چیئر مین نے زیر التوا ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے انتقامی کارروائی‘ اینٹی کرپشن اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس پر ستم یہ کہ کمشنرز‘ ڈپٹی کمشنر اور آر پی اوز کوبھی ''اشارہ‘‘ کردیا گیا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کیلئے ہر قسم کا تعاون اور ریلیف ممنوع ہے۔بیوروکریسی کو اور کیا چاہیے ''نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘ اس طرح رہی سہی کسر اس نے پوری کرڈالی۔ فنڈز کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی کاموں پر پابندی ہی لگی رہی۔ان حالات میں وزیر بلدیات نے تجویز دی تھی کہ میئرز اور چیئرمینوں کی اکثریت تعاون پر آمادہ ہے‘کیوں نہ انہی کو موقع دیا جائے‘ اس طرح وہ نہ صرف ''انڈر پریشر‘‘ رہیں گے بلکہ اپنا اعتماد بحال کرنے کیلئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں گے‘لیکن میں نہ مانوں کی حکومتی پالیسی کے آگے وزیربلدیات کی نہ چل سکی۔
علیم خاں کی قابلِ عمل تجویز نہ ماننے کا نتیجہ آج حکومت کا منہ چڑا رہا ہے۔ایک طرف عدالت کے احکامات ہیں دوسری طرف بلدیاتی نمائندوں کی ایک فوج اپنے دفاتر کے باہر سراپا احتجاج ہے ۔انصاف سرکار بلدیاتی محاذ پراس بند گلی میں آن پہنچی ہے جس سے علیم خاں اسے بچانا چاہ رہے تھے۔ان کی تھیوری یہ تھی کہ بلدیاتی سربراہان کی اکثریت تعاون وابستگی تبدیل کرنے پر آمادہ اور تعاون نہ کرنے والے چند سربراہان عدم اعتماد جیسے جمہوری عمل کے ذریعے باآسانی گھر بھجوایا جاسکتا ہے تاہم ایک جیتی ہوئی جنگ کو دوبارہ جیتنے کے لیے نیا میدان لگانا دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔لیکن حکومت کے مخصوص چیمپئنز نے علیم خاں کے مشورے پر عمل کرنے سے نہ صرف وزیراعظم کو منع رکھا بلکہ انکے اس آپشن پربھرپور تنقید بھی کی۔وہی مشیر اور مصاحبین وزیراعظم کو ایک نئی مشکل میں ڈال چکے ہیں۔بلدیاتی اداروں کی ہڈی گلے میں پھنس چکی ہے۔ایک طرف عوام کے نمائندے بلدیاتی ادارے ہیں‘ دوسری طرف انصاف سرکار کے ارادے۔ یہ ادارے اور ارادے ایک دوسرے کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادارے اپنا حق لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا حکومتی ارادے انہیں اس حق سے محروم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ تاہم انتہائی اہم اہمیت کا حامل ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو عدالتی فیصلے کی سیڑھی حاصل ہو چکی ہے اور حکومت کسی بھی قیمت پر ان کے پیروں سے یہ سیڑھی کھینچنے پر تلی ہوئی ہے۔فیصلہ تو خیر پہلے ہی آچکاہے اس پر عملدر آمد کے لیے حتمی اور آخری فیصلہ بہرحال عدالت کا ہی ہوگا۔