"AAC" (space) message & send to 7575

پاکیزہ تعلیمات اور ہم

اعصاب شل اور ہاتھ پتھر کے محسوس ہو رہے ہیں۔ قلم عدم تعاون پر آمادہ اور کسی حد تک باغی دکھائی دیتا ہے۔ کسی پل چین میسر نہیں۔ ہر سو ماتم کا سا سماں ہے۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں طرزِ حکمرانی کا۔ کہیں اندازِ فکر کا ماتم ہے تو کہیں سماجی و اخلاقی قدروں کے زوال پذیر ہو جانے کا۔ آئین و قانون سے لے کر احترامِ آدمی تک سبھی کچھ 'لیر و لیر‘ دکھائی دیتا ہے۔ تحمل، برداشت اور رواداری جیسی قدریں تو بس تقریروں اور نمائشی گفتگو تک محدود ہیں‘ عملی زندگی میں ان کا وجود عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ عملی زندگی میں کیا حکمران کیا عوام سبھی کے درمیان مقابلہ دکھائی دیتا ہے کہ قول و فعل کے تضاد میں کون کتنا آگے ہے۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ ہم ظاہر کچھ کرتے ہیں‘ اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ دعویٰ نیک ہونے کا کرتے ہیں‘ لیکن موقع سے فائدہ اٹھانا بھی ہم سے زیادہ کون جانتا ہو گا؟
قول و فعل کے تضادات کے اس گھمسان کے رَن میں معاشرہ دن بدن بد صورت اور بد بودار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کورونا کے اثرات کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان فاصلے سمٹتے چلے جا رہے ہیں۔ آج ہیں تو کوئی پتا نہیں کہ کل ہوں گے یا نہیں۔ ویسے تو اگلی سانس کا کوئی پتا نہیں کہ آئے گی یا نہیں‘ لیکن وبا کی وجہ سے جو حالات بن چکے ہیں اس کو سامنے رکھا جائے تو مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں کیا سیاست کیا سیاست دان‘ کیا حکام کیا عوام سبھی کا باوا آدم نرالا ہے۔ گلوبل ایمرجنسی سے بے نیاز اور کورونا کی تباہ کاریوں سے بے خوف یہ لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں اور گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں کی طرف دیکھیں تو یوں لگتا ہے یہ محض اعلانات کے بادشاہ ہیں۔ زمینی حقائق اور عوامی ردعمل سے بے نیاز ایسے ایسے غیر مقبول اور نا موافق اقدامات پر یوں نازاں ہیں اور یوں اترائے پھرتے ہیں کہ ان کے زبان و بیان پر بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ دوسری طرف عوام بھی مقابلے پہ آمادہ نظر آتے ہیں۔ دودھ میں ملاوٹ کا زہر گھولنے سے لے کر جان بچانے والی ادویات کو زندگی کی ضد بنانے تک مال بنانے کی دھن میں کیسی کیسی شرمناک اور سفاکانہ واردات کرتے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ اوزان و پیمائش اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر دیگر اشیائے خورونوش میں نیتِ بد کی آمیزش تک سب کچھ کر گزرنے والے حقوق العباد پر اس بے دردی سے چھری چلا ڈالتے ہیں کہ انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جس مال پہ کنبہ پروری کر رہے ہیں وہ مال کسی وبال سے کم نہیں۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ بعض تصویریں ایک ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہیں۔ گویا تصویریں وہ کچھ کہہ ڈالتی ہیں جو ہزاروں الفاظ بھی بیان کرنا چاہیں تو صورت حال کی ٹھیک عکاسی نہیں کر پاتے۔ حکمرانوں اور عوام الناس کی ایسی کتنی ہی تصاویر آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ تصاویر حواس گم کرنے سے لے کر راتوں کی نیند اڑانے اور دن کا چین برباد کرنے تک کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اصل موضوع کو احتیاط اور اختصار کے ساتھ قارئین تک پہنچایا جا سکے۔
کرۂ ارض پر کس کی مجال جو میرے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت بھی کر سکے۔ خاکے بنانے والے تو میرے نبیﷺ کے غلاموں کے غلاموں کی خاکِ پا کی توہین کے بھی قابل نہیں ہیں۔ تعجب ہے کہ نبیﷺ کو ماننے والے‘ نبیﷺ کی ناموس پر اپنی آل اولاد اور جانیں قربان کرنے کے دعوے دار نبیﷺ کی تعلیمات کو کیسے فراموش کر جاتے ہیں۔ رسول عربیﷺ تو اس بڑھیا کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر جا پہنچے تھے جو روز ان پر کوڑے کے ڈھیر انڈیلا کرتی تھی۔ طائف کے بازاروں میں سنگ باری سے لہولہان ہونے کے باوجود نبی رحمتﷺ بد دعا کے بجائے گستاخوں کے لیے اصلاح کی دعا ہی فرماتے رہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ہندہ جیسی سفاک عورت کو بھی کس فراخ دلی سے معاف کر ڈالا میرے نبیﷺ نے‘ حالانکہ یہ وہی ہندہ تھی جس نے نبیﷺ کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر کے کیسے کیسے عظیم الشان مناظر دیکھنے میں آئے۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے آپﷺ نے پورا ضابطہ حیات ترتیب دے ڈالا تھا۔ رہنمائی اور تقلید کے لیے صرف اسوۂ حسنہ ہی کافی ہے۔ اس کے برعکس طرزِ فکر ہو یا طرزِ عمل‘ دونوں ہی نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں۔
دنیا کے 56 ممالک میں بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ آئے روز آزادیٔ اظہار کے نام پر یہود و کفار مسلمانوں کی دل آزاری کی جرأت کیونکر کر لیتے ہیں؟ ان کے حوصلے دن بہ دن کیوں بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ دل آزاری کرنے والے کوسوں دور بیٹھ کر ہمارا تماشا دیکھتے ہیں‘ خصوصاً اس وقت جب ہم اپنا غصہ خود پر ہی اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے اپنے لوگ اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دل آزاری کا بدلہ لے لیا ہے۔ اربوں روپے کی سرکاری املاک برباد کرنے کے علاوہ جلائو گھیرائو اور پُر تشدد واقعات کا حضورﷺ کی تعلیمات کے ساتھ ہرگز کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ امن و امان قائم رکھنے کی ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں اور افسروں کو لہولہان کرنا‘ ان کی وردیاں پھاڑ کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنا کوئی دوسرا مائنڈ سیٹ تو ہو سکتا ہے لیکن شمع رسالتﷺ کا کوئی پروانہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اپنے ہی عوام کی گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا‘ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا‘ دھرنے دے کر سڑکیں بند کرنا اور ملک بھر میں معمولاتِ زندگی کو مفلوج کرنا‘ خلقِ خدا کو اپنے ہی شہروںمیں محصور کر کے رکھ دینا ہرگز اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں۔ اور پھر کورونا کے مرض میں مبتلا وینٹی لیٹر پر لگے کسی مریض کا کیا قصور ہے کہ آکسیجن کے سلنڈر اس تک نہ پہنچائے جا سکیں اور وہ جاں بلب ہو جائے۔ اس مریض کا کیا قصور ہے جس نے تازہ تازہ بائی پاس کرایا ہے اور وہ تازہ خون یا ادویات کا ضرورت مند ہے۔ اس کی بقیہ زندگی کا انحصار ان لمحوں میں اس کے علاج کی ضروریات پر ہے۔ اگر جان بچانے والی ادویات‘ خون یا آکسیجن اس مریض تک نہ پہنچ سکے تو اُس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یا کسی گھر میں نومولود کا کیا قصور کہ اس تک تازہ دودھ نہ پہنچایا جا سکے؟ کوئی سرکار کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے جان سے گیا اور کوئی بر وقت ہسپتال نہ پہنچ سا لیکن رب کے پاس پہنچ کر ضرور فریاد کرتا ہوگا کہ تیرے محبوبﷺ کے یہ کیسے نام لیوا تھے جنہوں نے مجھ سے میری زندگی چھین لی۔ اس ناحق مارے جانے والے کی روح بارگاہ الٰہی میں یہ فریاد بھی کرتی ہو گی کہ جس نبیٔ رحمتﷺ نے ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اس کے امتی سڑکوں پر تشدد کرنے اور خون بہانے سے کیوں نہیں چوکتے؟
ہم اس قدر احتجاجی ہو چکے ہیں کہ احتجاج کرتے وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ احتجاج کس کے خلاف کر رہے ہیں اور ہماری پُر تشدد کارروائیوں کا ہدف کون بن رہا ہے۔ چنانچہ احتجاجوں میں زندگی اور نسلیں برباد کرنے کے بجائے اصل اہداف کا تعین کرنے کے علاوہ ان کمزوریوں کو بھی دور کیا جائے جن کی وجہ سے اپنے ہی گھر کو اکھاڑ اور میدان جنگ بنا لیتے ہیں۔ یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کے سبھی کلمہ گو حکمرانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں