جوتشیوں نے شبھ گھڑی کا جھانسہ دے کر بھارت کو جہنم بنا ڈالا۔کمبھ کا جو میلہ 2022ء میں منعقد ہونا تھا اسے ایک سال پہلے ہی کروا کر لاشوں کے انبار اور مریضوں کی ناختم ہونے والی قطاریں لگوا دیں۔ ماہرین نے وارننگ بھی جاری کی تھی کہ یہ میلہ قبل از وقت کروانے سے صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے لیکن جوتشیوں کا کہنا تھا کہ میلہ اگر اس سال نہ منایا گیا تو یہ شبھ گھڑی 83سال بعد لوٹ کر آئے گی۔ شبھ گھڑی کے متلاشی لاکھوں کی تعداد میں گنگا اشنان کرنے پہنچ گئے اور اب یہ عالم ہے کہ شمشان گھاٹوں میں لاشیں جلانے کیلئے جگہ نہیں رہی اور اب تو لاشوں کو بھی اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے کہ کس کی باری کب آتی ہے۔ بھارت سرکار نے یہ اعلامیہ بھی جاری کر ڈالا ہے کہ اگر شمشان گھاٹ میسر نہیں تو کھیتوں اور کھلے میدانوں میں بھی چتائیں جلا کر کورونا سے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جا سکتی ہیں‘ گویا پورے بھارت کو ہی شمشان گھاٹ ڈکلیئر کر دیا گیا ہے۔ بھارت کے ہسپتالوں میں مریضوں کو ریسکیو کرنے کے انتظامات ناپید اور ڈاکٹر بے بس ہو چکے ہیں۔ کوئی ریڑھی پر مریض ڈالے لے جارہا ہے تو کسی کو رکشے میں آکسیجن لگائی جارہی ہے۔ کوئی فٹ پاتھ پر بے یارو مددگار پڑا ہے تو کوئی ہسپتال کی دہلیز پر اندر جانے کے لیے التجائیں کرتا نظر آرہا ہے۔ ہسپتال میں داخل مریضوں کی قابل ِرحم حالت اور ان کے لواحقین کی آہ و بکا کے مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان خطرے کافرق بتدریج کم ہوتا جا رہاہے۔ خدا کرے کہ یہ فرق کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا چلا جائے اور اتنا بڑھ جائے کہ یہ دندناتی موت خود کسی موت کا شکار ہو جائے۔
بھارتی جوتشی ہوں یا ہمارے ہاں کے جگادری‘ سبھی ایک مائنڈ سیٹ کے تحت اپنا اپنا چورن بیچتے ہیں۔ کوروناکی صورتحال نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہلاکتوں کے دردناک مناظر اور عالمی احتیاطی تدابیر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پا رہیں۔ ہٹ دھرمی‘ ضد اور میں نہ مانوں کی پالیسی نے نہ صرف ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ کر ڈالا ہے بلکہ دونوں ممالک کی حکومتیں بھی ایس اوپیز پر عدم تعاون کی روش کی وجہ سے مشکل صورتحال سے دوچار ہو چکی ہیں۔ بھارت تو شبھ گھڑی کے چکر میں پورا ملک نرک بنا بیٹھا ہے جبکہ ہمارے ہاں بھی عوام اور حکومت کے مابین مقابلے کا سماں ہے۔ ایک طرف حکومت الارمنگ صورتحال کا الارم بجا رہی ہے دوسری طرف امتحانات منعقد کروانے پر نجانے کیوں بضد ہے‘ جس پر والدین شدید خدشات کا شکار ہیں۔والدین کی یہ پریشانی اس لیے بھی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ گزشتہ برس کے دوران 1200بچے کورونا سے متاثر ہوئے تھے لیکن حالیہ تین مہینوں میں 1500بچے اس موذی اور جان لیوا مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ غیر معمولی رفتار سے بڑھتی ہوئی یہ تعداد والدین کے دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے کے لیے کافی ہے‘ لیکن نجانے وہ کون سے ماہرین ہیں جو امتحانات لینے پر بضد ہیں۔ اگر ان فیصلہ سازوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدا نہ کرے ہمیں اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ قیمت تو بہرحال ہمیشہ سے عوام ہی ادا کرتے آئے ہیں اور وہی ادا کریں گے فیصلہ ساز تو بس تاوان وصول کرنے آتے ہیں اور تاوان بھی اس غلطی کا جو عوام انہیں مینڈیٹ دینے کی صورت میں کر بیٹھتے ہیں۔
ایک طرف حکومت خطرناک صورتحال کے پیش نظر پاک فوج کی خدمات حاصل کر چکی ہے جبکہ دوسری طرف امتحانات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ اگر صورتحال نازک ہے تو امتحان لینے کا فیصلہ ناقابلِ فہم ہے۔ اگر صورتحال کنٹرول میں ہے تو پھر پاک فوج کو ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کے لیے کیوں زحمت دی جارہی ہے۔ ان سوالوں کے جواب نا کسی وزیر کے پاس ہیں اور نا ہی کسی مشیر اور سرکاری بابو کے پاس۔سبھی کا یہی کہنا ہے کہ امتحان لینے کے حکومتی فیصلے پر ہم خود پریشان اور نالاں ہیں‘ لیکن ہماری کون سنتا ہے؟ وفاقی حکومت یہ الرٹ بھی جاری کر چکی ہے کہ اگر کورونا بڑھنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے چند روز میں مکمل لاک ڈاؤن بھی لگایا جاسکتا ہے۔ کورونا ایس او پیز کو لے کر حکومت خود دہرے معیار اور کنفیوژن کا شکار ہے‘ تاہم وزیراعظم پر ہی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان خوش گمان اور شبھ گھڑی کو ماننے والے جگادریوں کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ سے باہر نکل کر زمینی حقائق کے مطابق خود فیصلے کرے تو یقینا عوام کی طرف سے اسے پذیرائی ملے گی۔ بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے ناصرف انہیں عوام کی پذیرائی سے محروم کرتے چلے جارہے ہیں بلکہ غیر مقبول اور ناموافق اقدامات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت سے لے کر دہشت گردی تک‘ زلزلے سے لے کر سیلاب اور دیگر قدرتی آفات تک‘ سانحات سے لے کر حادثات اور امن و امان کے قیام تک‘ مردم شماری سے لے کر انتخابات کے انعقاد تک‘ گھوسٹ سکولوں کے خلاف آپریشن سے لے کر بجلی چوری پکڑنے تک اور اسی طرح دیگر مشکل اور کٹھن مراحل میں پاک فوج ہر دور میں حکومتِ وقت کی معاون اورمددگار ثابت ہوئی ہے۔ اب کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے میں ناکامی کے بعد حکومت نے ایک بار پھر پاک فوج کو مدد کے لیے پکارا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ حکومت مشکل فیصلوں کا بوجھ اُٹھانے سے فرار اختیار کرنا چاہتی ہے اور لاک ڈاؤن سمیت دیگر سخت فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ واللہ اعلم۔
گزشتہ برس لاک ڈاؤن کھولتے وقت بھی حکومت عوام اور کورونا کو آمنے سامنے کروا کر خود درمیان سے نکل گئی تھی۔ لاک ڈاؤن کیا کھلا گویا بے احتیاطیوں اور ایس اوپیز کی خلاف ورزیوں کا طوفان آگیا‘ جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب 'عوام جانیں اور کورونا جانے‘ والا معاملہ ہے۔ اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار اور عوام کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی نفی سے لے کر مزاحمت اور محاذ آرائی تک سبھی مراحل میں مدمقابل محسوس ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عوام بھی قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ ضابطوں اور قوانین سے لے کراخلاقی و سماجی قدروں تک‘بدنظمی سے لے کربے حسی اور سفاکی تک‘ من مانی اور ہٹ دھرمی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دودھ کے نام پر مکروہ محلول بنا کر بیچنے سے لے کر ذخیرہ اندوزی سے اور چور بازاری تک‘ ماپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر ملاوٹ جیسے مکروہ اور گھناؤنے فعل تک‘ اشارہ توڑنے سے لے کر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ تک‘ سبھی کچھ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کرتے رہیں گے۔ دوسری طرف حکومت زمینی حقائق سے بے نیاز غیر مقبول اور ناموافق فیصلوں کے باوجود نجانے کونسی گورننس کا جھنڈا اٹھائے نازاں او