"AAC" (space) message & send to 7575

’’کھڑکی توڑ ہفتہ ‘‘ بڑا شو بن سکتا ہے !

وزیراعظم اور جہانگیر ترین کے مابین رابطوں او ر کسی بریک تھرو سے خائف چیمپئنز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ وہی چیمپئنز ہیں جو عمران خان اور جہانگیر ترین کے مابین اختلافات کا بیج بونے سے لے کر اس کے پودے کو بھر بھر مشکیں ڈالنے تک نجانے کون کون سے حربے اور ہتھکنڈے آزماتے رہے ہیں۔ حکومت کے ایک احتسابی چیمپئن نے تو کمال مہارت سے نجانے کس طرح وزیراعظم کو قائل کرلیا کہ جہانگیر ترین کے گرد جتنا گھیرا تنگ کریں گے وزیراعظم کی ساکھ کو نہ صرف چار چاند لگ جائیں گے بلکہ ان کی اصول پسندی کے چرچے بھی زبان زدِ عام ہوں گے۔ان کے خلاف اکثر کارروائیوں اور مقدمات کے اندراج کے بارے میں بھی وزیراعظم کوبے خبر رکھا گیا۔ جہانگیر ترین کی وطن واپسی کے چند دنوں بعد جو مقدمہ جہانگیر ترین کے خلاف درج کرایا گیا اس کے بارے میں نہ صرف وزیراعظم بے خبر تھے بلکہ استفسار پر انہیں یہ توجیہہ پیش کی گئی تھی کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کے بعد شریف برادران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہمیں زیادہ آسانی محسوس ہوتی ہے اور یہ تاثر بھی خوب اجاگر ہوتا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کے لیے کوئی نرمی یا رعایت نہیں تو شریف برادران کس کھیت کی مولی ہیں۔احتسابی کارروائیوں کو بیلنس کرنے کے لیے جہانگیر ترین کی قربانی پر وزیراعظم کو آمادہ کرنے والے یہ چیمپئنز اپنے ایجنڈے پر کافی عرصے سے کامیاب جا رہے تھے کہ اچانک جہانگیر ترین نے چپ کا روزہ توڑ ڈالا اور وزیر اعظم کو برملا اور واضح پیغام دیا کہ وہ ان کے پرانے دوست ہیں‘ انہیں دشمنی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ انہوں نے اپنے خلاف کارروائیوں کو امتیازی سلوک اور چند مخصوص عناصر کی ذاتی خواہشات پر مبنی سازش قرار دیاتو چند حکومتی ارکان اسمبلی اور وزرا نے ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں سیاسی تعاون اور بھرپور حمایت کا بھی یقین دلایا۔
اندراجِ مقدمہ کے بعد جہانگیر ترین کے ساتھ پیشی پر جانے والے وزراء اور ارکانِ اسمبلی اور ان کی رہائش گاہ پر یکجہتی کیلئے اکٹھے ہونے والے درجنوں ارکان نے پہلی بار یہ تاثر دیا کہ حکومت کو نہ پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ ہے اور نہ شریف برادران کی جارحانہ سیاست سے ‘اصل اپوزیشن تو تحریک انصاف کے اندر جنم لے چکی ہے۔ وزیراعظم سے جہانگیر ترین کے رابطوں اور ملاقات پر جہاں کچھ مشیر اور سرکاری بابو اپ سیٹ ہیں وہاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی اپنے اندر کی پریشانی اور بے چینی کو کنٹرول نہیں کرپائے اور بے اختیاربول اُٹھے کہ ترین گروپ کسی ایک طرف ہوجائے‘یہ تیتر بٹیر نہیں چلے گا اور یہ کہ چار ارکان اسمبلی کے بگڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تعجب ہے‘ شاہ محمود قریشی صاحب کو درجنوں ارکان ِاسمبلی صرف چار کیوں نظر آرہے ہیں؟ شاہ جی نے تو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ عمران خان کسی صورت بلیک میل نہیں ہوں گے۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ ایک مرض ہر دور میں شدت سے پایا گیا ہے کہ زمینی حقائق سے آنکھیں چرائے رکھنا اور منطق اور معقولیت کی پروا کیے بغیر وہ سبھی اقدامات جاری رکھنا جن سے حکومت کی ساکھ کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔وزیراعظم اور جہانگیر ترین میں اختلافات کی چنگاری پیدا کرنے سے لے کر اسے بھڑکانے تک پیش پیش رہنے والے آج خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی سبھی تدبیریں الٹی ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔بشمول وزراء33ارکانِ اسمبلی پر مشتمل ترین گروپ کی گزشتہ روز وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جس کے لیے وزیراعظم نے بھی حکومتی ٹیم کو طلب کرلیا تھا۔ اس ملاقات کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اور جلد ہی ان حکومتی چیمپئنزکا نیا گیم پلان بھی منظر عام پر آجائے گا جو اختلافات کی بساط پراپنے مہرے چل رہے تھے۔ ان حالات میں شاہ محمود قریشی کھل کرسامنے آگئے ہیں ۔
جہانگیر ترین درجنوں ارکانِ اسمبلی (بشمول وزراء) کے ساتھ پاور شو کرچکے ہیں۔ وزیراعظم سے مذاکرات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں ‘ اس کا جلد اندازہ ہو جائے گا‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے اردگرد موجود چیمپئنز کو کسی طور یہ گوارا نہیں کہ وزیر اعظم اور جہانگیر ترین میں اختلافات کی خلیج کسی طور کم ہو۔ ایسے میں وہ ضرور کوئی نیا ایڈوینچر کریں گے جس سے ان کا ایجنڈا متاثر نہ ہو‘ تاہم اپنے اہداف کے حصول کے لیے جو کچھ کریں گے اس سے نہ صرف وزیراعظم کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں بلکہ ترین گروپ کی تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہی چیمپئنز ہیں جو حکومت میں جہانگیر ترین کی موجودگی کو اپنی اہمیت اور افادیت کے لیے خطرہ تصور کرتے تھے اورجہانگیر ترین جوں جوں امورِ حکومت سے دور ہوتے چلے گئے یہ سبھی چیمپئنزاہم اور مضبوط ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً جہانگیر ترین گیم سے آئوٹ اور وہ سبھی چیمپئن اِن ہو چکے ہیں جن کا تحریک انصاف سے کوئی لینا دینا تھا نہ ہی کوئی وابستگی۔
پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں۔ جس طرح مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کی کشتی میں وہ سوراخ کر ڈالا ہے جس کے بعد یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کشتی پانی میں ہے یا پانی کشتی میں‘اسی طرح سربراہ حکومت کو بھی شاید یہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کو اصل خطرہ پی ڈی ایم سے نہیں بلکہ ان ارکانِ اسمبلی اور وزرا سے ہے جو دن بدن جہانگیر ترین کے سیاسی شو کی رونق بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔اگر انہیں سنجیدہ نہ لیا گیا تو یہی ارکان کشتی کے اندر کا پانی بن سکتے ہیں اور کشتی کے اندر پانی صرف سوراخ ہونے کی صورت میں ہی آتا ہے۔ جبکہ حکومت کی کشتی میں سواراکثرچیمپئنز اپنے اپنے حصے کے سوراخ کاعذر یوں بیان کرتے ہیں کہ فلاں کا سوراخ مجھ سے بڑا ہے اسی لیے کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔یہ ہچکولے کشتی کو بھنور میں کب اور کیسے پہنچاتے ہیں اس کا دارومدار بھی انہی مذاکرات کے نتائج پر ہے۔
وزیراعظم کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ انہیں جاں نثاروں سے دور کرنے کا بیڑا کون اٹھائے پھر رہا ہے اور کون ان کی طاقت کو کمزوری بنانے پر تلا ہوا ہے؟ کون معتبر کو نا معتبر کرنے کے درپے ہے؟ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ حکومت کو نہ مولانا فضل الرحمن سے خطرہ ہے نہ شریف برادران سے‘زرداری سے تو خطرہ ہوبھی نہیں سکتا‘ اصل خطرہ جہانگیر ترین کے گرد اکٹھے ہونے والے ارکان اور وزراء کے اس شو سے ہے جو حکومت کی مزید ضد سے کھڑکی توڑ رش لے سکتا ہے۔یہ کھڑکی توڑ ہفتہ کسی بڑے شو کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ شو اگر کامیاب ہوا تو اس کا کریڈٹ وزیراعظم کے قریب پائے جانے والے ان چیمئنز کو ہی بجا طور پر جائے گا جو ترین کو بدترین ثابت کرنے کی دھن میں انصاف سرکار کو مشکل ترین حالات سے دوچار کرنے سے بھی باز نہیں آرہے ۔
حکومت اپنے عوام سے کتنا پیار اور ان کا کتناا حساس کرتی ہے اس کے بے شمار نمونے گورننس سے آشکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔سماجی انصاف اور معاشی استحکام سے لے کر کڑے احتساب کے حشر نشر تک سب کچھ بھی عوام سے پیار کا ہی ایک نمونہ ہے ۔ لیکن نا جانے کون سا آسیب ہے کہ سرکار جس سے بھی پیار کرتی ہے وہ اس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ماجد خان سے لے کر جہانگیر ترین تک کتنے ہی اس پیار کو پیارے ہوگئے۔ اس موقع پر بھارتی فلم کا ایک ڈائیلاگ بے اختیار یاد آگیا ہے: صاحب! ڈر مار سے نہیں پیار سے لگتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں