"AAC" (space) message & send to 7575

کشتی میں سوراخ کرنے کا مقابلہ

جناب وزیراعظم کا یہ اعتراف ان کی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ساتھ انتہائی الارمنگ بھی ہے کہ اُن سے غلط فیصلے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ سوچتے رہتے ہیں۔ مردم شناسی سے لے کر مقبول فیصلوں تک بیشتر معاملات میں حکومت کو روزِ اول ہی سے سُبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ کہیں گورننس شرمسار ہے‘ تو کہیں میرٹ تار تار ہے‘ کہیں مشیر پاؤں کی بیڑیاں بنتے چلے جا رہے ہیں تو کہیں سُبکی اور جگ ہنسائی کا باعث ہیں‘جبکہ بعض سرکاری بابو کمالِ مہارت سے اہم ترین اور حساس معاملات کو بھی اپنے گرد ایسے گھما رہے ہیں کہ سب کچھ گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہوگا کہ فیصلہ سازی کا عمل چند مخصوص چہروں تک محدود اور انہی کے رحم و کرم پر ہے جبکہ بے اختیار وزرا اور ارکانِ اسمبلی کی اکثریت‘ دونوں نالاں اور بددلی کا شکار ہو کر اپنے حلقۂ انتخاب میں جانے سے بھی گریزاں ہیں کہ وہ عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
وزیراعظم کا ایک اوربیان بھی قابلِ ذکر ہے کہ ''ہمارے دور میں طاقتور لوگوں کا احتساب کیا گیا‘‘۔ یہ بات درست ہے کہ 2018ء سے احتساب کا وہ عمل شروع ہوا کہ 'نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز ‘کے مصداق ایسا ایسا شجرِ ممنوعہ اُکھاڑ پھینکا جس کی شاخوں اور پتوں کو کوئی چھونے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر ناقابلِ احتساب تصور کیے جانے والے سوکھے پتوں کی طرح ہوا کے دوش پہ اُڑتے دکھائی دیے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ اس ملک کے اقتدار اور وسائل پر موجیں کرنے والے نواز شریف اپنے ہی دورِ حکومت میں نااہلی اور بددیانتی کا طوق لے کر اقتدار سے نہ صرف نکالے گئے بلکہ سڑکوں پر احتجاج کرتے اور یہ پوچھتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا۔
2018ء میں شروع ہونے والے احتساب کا یہ سلسلہ تحریک انصاف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی پورے زور و شور سے جاری رہا‘ ادھر اپوزیشن کی کسی اہم شخصیت کی گرفتاری کیا گیا اُدھر حکومت کے مشیر اور وزیر درجنوں مائیک سجائے پریس کانفرنس کر کے اس کارروائی کا کریڈٹ لیتے دکھائی دیے‘ گویا ادارہ ان کے ماتحت ہو۔ اس پر ستم یہ کہ احتسابی ادارے کے اگلے اہداف اور متوقع گرفتاریوں کے بارے میں بھی یوں پیش گوئیاں کرتے نظر آئے گویا ادارہ یہ سبھی کارروائی انہی کی ہدایت پر کر رہا ہے۔
حکومت اگر اپوزیشن کے خلاف احتسابی کارروائیوں کا کریڈٹ لینے پر بضد ہے تو یہ ضد وہ شوق سے پوری کر سکتی ہے تاہم جناب وزیراعظم کے لیے مزید کریڈٹ لینے کا ایک اور نادر موقع بھی موجود ہے کہ وہ اپنے اردگرد پائے جانے والے ان سبھی کرداروں کو احتساب کے لیے پیش کر کے اپنی ساکھ اور میرٹ پسندی کو مزید چار چاند لگا سکتے ہیں۔ دیانت اور اہلیت پر کڑے سوالات اٹھنے کے باوجود یہ سبھی چہرے وزیراعظم کی دسترس اور چھتر چھایا میں موجیں مارتے پھر رہے ہیں۔ کوئی کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی ایوانِ اقتدار کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ کوئی وزیر ہے تو کوئی مشیر‘ سرکاری بابو تو معاملات کو الجھانے اور حالات کو گھمانے کے ویسے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ یہ سبھی مل کر نہ صرف حکومت کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے جارہے ہیں بلکہ ان کے درمیان حکومتی کشتی میں سوراخ کرنے کا مقابلہ بھی جاری ہے۔
تاہم طاقتور لوگوں کا احتساب کرنے کا کریڈٹ لینے والوں کو اپنی ساکھ اور سیاست بچانے کے لیے چند مزید طاقتور بھی احتساب کے لیے ضرور پیش کر دینے چاہئیں جو محض ان کی قربت کی وجہ سے تاحال احتسابی شکنجے سے دور اور محفوظ ہیں۔ آج نہیں تو کل یہ احتسابی شکنجہ ان تک ضرور پہنچے گا۔ ماضی میں گل کھلانے والے نہیں بچے تو آج موجیں مارنے والے کل کیسے بچ سکیں گے؟ مکافاتِ عمل کی چکی برابر چل رہی ہے۔ اپوزیشن کے دانے اس میں پسنے سے نہیں بچے تو حکومتی دانے کیسے بچ سکیں گے؟ نوازشریف اپنے ہی دورِ حکومت میں اس چکی کے پاٹوں میں آن پھنسے تھے تو موجودہ حکمرانوں کے پاس کون سی سلیمانی ٹوپی ہے جو انہیں مکافاتِ عمل کی چکی سے بچا لے گی؟
حیرت اور تعجب کا مقام ہے‘ مکافاتِ عمل کے اس سلسلے سے سبق سیکھنے کے بجائے ماضی کے وہ سبھی کارِ بد اسی شدت اور زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ اکثر معاملات میں تو بدترین طرزِ حکمرانی کے ریکارڈ بھی ریکارڈ مدت میں توڑ ڈالے گئے ہیں۔ توڑ پھوڑ کا یہ عمل دہرانے والے اپنے بیانیوں سے لے کر فیصلوں اور اقدامات تک نجانے کس طرح نازاں اور اِترائے پھرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مکافاتِ عمل کی چکی سے محفوظ تصور کرتے ہیں۔ ویسے بھی حکومت سماجی انصاف اور کڑے احتساب جیسے بیانیے کا جو حشر نشر کر چکی ہے اس کے بعد کون سا سماجی انصاف اور کیسا کڑا احتساب؟ مظفر وارثی کے یہ اشعار بے اختیار یاد آرہے ہیں جو عین حسبِ حال ہیں ؎
ـچہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
ایک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
اُن تک گئی جو آگ بجھانے لگے مجھے
جس طرح کوئی اپنی کمر کا تِل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح حکمران بھی اپنے ہی کیے ہوئے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لا علم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں گے اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات کے پسِ پردہ عزائم بھی کمر کے اُس تِل کی طرح اوجھل ہوتے ہیں‘ مگرجلد یا بدیر ان کے نتائج بہرحال حکمرانوں کو بھگتنا ہی پڑتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومت کی مقبولیت اور پذیرائی کا اندازہ لگانے کے لیے ضمنی انتخابات ہی کافی ہیں۔ ان کے نتائج ان فیصلوں کا آئینہ ہیں جو سربراہ حکومت اپنے مشیروں اور مصاحبین کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے زیر اثر کرتے چلے آئے ہیں۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر تتر بترہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت میں شریک اکثر چیمپئنز سابق حکمرانوں کے بھی مشیر رہے اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں‘ لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر سابق ادوار کے حکمرانوں کی آنکھ میں تنکے کا واویلا اس زور و شور سے کر رہے ہیں کہ سرکس کا سماں بندھ جاتاہے ۔کیا وزیر کیا مشیر سرکاری بابو ہوں یا ذاتی رفقا اور مصاحبین‘ کیسی کیسی واردات‘ کس کمالِ مہارت سے کرتے نظر آتے ہیں کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اگر نظر نہیں آتا تو بس حاکمِ وقت کو۔ یہ منظرنامہ قطعی نیا نہیں‘ ہر دور میں ہر حکمران کے اردگرد ایسے کردار کثرت سے نظر آتے رہے ہیں اور جو آج حکومت کے ہر اول دستے کا حصہ ہیں ان میں سے اکثر چہرے تو ماضی کے ہر دور میں اگلی نشستوں پر براجمان دکھائی دیتے رہے ہیں۔
چلتے چلتے کچھ احوال کورونا کی صورتحال کا بھی ہو جائے۔ بھارت میں تباہی کے بعد وبا کا سونامی بتدریج پھیل رہا ہے اور وطنِ عزیز میں کورونا کیسز اور اموات تشویشناک مرحلے میں داخل ہوتی چلی جارہی ہیں۔ کورونا کی یہ تیسری لہر بچوں کے لیے خاص طور پرالارمنگ اورمہلک ہے۔ اعداد و شمارخطرے کے نشان کو چھو رہے ہیں۔ ایسے میں استغفار کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کاتقاضا یہ ہے کہ کورونا کے سامنے دلیری دکھانے کے بجائے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس اَن دیکھی اور خاموش موت کا مقابلہ دلیری کے بجائے ایس او پیز پر عمل کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں