"AAC" (space) message & send to 7575

بیمار ہوئے جس کے سبب

عام آدمی سے لے کر اشرافیہ تک‘حزبِ اختلاف سے لے کر حزب ِاقتدار تک‘سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ کون کتنا بڑا موقع شناس ہے۔ہمارے عوام کے بھی نجانے کیا معیار اور کیا مسائل ہیں۔ مزید تمہید کے بجائے اصل مدعا کی طرف چلتے ہیں کہ دو پارٹی نظام کی چکی میں کئی دہائیاں پسنے کے باوجود بدحال عوام آج بھی ان کے آسیب سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ان کی لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا سرکاری وسائل پر شکم پروری سے لے کر اقربا پروری کی وارداتیں ہوں‘حکومتی اداروں کو بھنبھوڑنے سے لے کر اہم عہدوں کی بندر بانٹ تک ‘ اقتدار کے سر پر ذاتی کاروبار کو فی گھنٹہ پروان چڑھانے کی راکٹ سائنس ہو یاآمدن سے زائد اثاثے بنانے کی دھن‘بیرونِ ممالک اثاثے بنانے اور ہوشربا بینک اکائونٹ کھولنے سے لے کربے نامی جائیدادوں اور ذاتی ملازمین کے ناموں پر کھولے گئے بوگس اکائونٹس ہوں یا راتوں رات درجنوں شوگرملوں اور کمپنیوں کا اضافہ ہو یالمبامال بنانے کے نت نئے طریقے۔سرکاری املاک اور اداروں کو اونے پونے بیچ کر کک بیکس کے نام پر تجوریاں بھرنے کی فنکاری ہو یا کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر سمندر کے راستے ان کی نقل و حرکت ‘ہوس ِزرسے مجبور ان لوگوں نے غیرتِ قومی تک کیا کچھ دائو پر نہیں لگایا۔
شریف برادران ہوں یا زرداری‘یہ سبھی ان وارداتوں کے نہ صرف موجد اوربینی فشری ہیں بلکہ انہیں ایک ہی سکے کے دو رُخ کہا جاسکتا ہے۔ان کے چہرے اور وارداتیں بے نقاب ہونے کے باوجود عوام آج بھی انہی کو ووٹ کیوں دیے چلے جارہے ہیں‘یہ ایک ایسا معمہ ہے جسے حل کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ضرورت ہے تو صرف یہ جاننے کی کہ عام انتخابات میں جو نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کی تھیں وہی نشستیں ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کیوں جیت رہی ہیں؟اس بارے میں دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ 2018 ء کے عام انتخابات میں جو مینڈیٹ عوام نے تحریک انصاف کو دیا تھا آج وہ ان کے لیے پچھتاوا بنتا چلا جارہا ہے۔ نئے پاکستان کے تمنائی پرانے پاکستان کوترستے دکھائی دیتے ہیں‘جس طرزِ حکمرانی کو تحریک انصاف ہدف تنقید بنا کر واویلا کیا کرتی تھی آج اسی طرز حکمرانی کی بدترین شکل بن کر عوام کے دن کا چین اور رات کی نیند لوٹ رہی ہے۔2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد شریف برادران اور زرداری صاحب کی صفوں میں سوگ کا عالم تھا‘ سبھی سہمے اور مکافاتِ عمل سے خائف نظر آتے تھے مگر تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے طرزِ حکمرانی کے جوہر کھلتے چلے گئے۔سہمی اور دبکی ہوئی اپوزیشن میں نہ صرف جان پڑتی چلی گئی بلکہ ان کے خوف اور وسوسے بھی دور ہوتے چلے گئے۔جس اپوزیشن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اب ان کا نہ تو کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی ان کی واپسی کا کوئی امکان‘وہی اپوزیشن ان کے طرزِ حکمرانی اور غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے آج نہ صرف حکومت کی نیندیں اڑا چکی ہے بلکہ اب تو حکومتی چیمپئنزکے منہ سے اسمبلی توڑنے کی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں ۔ جوں جوں حکومت سماجی انصاف اور کڑے احتسا ب جیسے اپنے بیانیے کا حشر نشر کرتی چلی گئی توں توں ایک دوسرے کو چور ‘ڈاکو اور لٹیرا کہنے والے اکٹھے ہوتے چلے گئے ہیں۔کبھی میثاقِ جمہوریت کے نام پر تو کبھی پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے والے ایسا ایسا سمجھوتا اور گٹھ جوڑ کرتے رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ایک دوسرے کے مخالف اور باہم دست و گریباں یوں بھی شیرو شکر ہوسکتے ہیں ۔ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے والے نوازشریف اور بے نظیر حصولِ اقتدار کے لیے میثاقِ جمہوریت کے نام پر بالآخرایک ہو گئے تھے۔ پھر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے کس طرح بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی بننے کی ایکٹنگ کر کے اقتدار کے بٹوارے کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا بٹوارا کیا اور چند ماہ بعد ہی یہ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کس طرح ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارتے نظر آتے تھے۔
یہ سیاست ہے پیارے اس میں کوئی کسی کا بھائی ہے نا بہن‘ کوئی دوست ہے نہ رفیق‘ منوا ہے نہ کوئی ہمراز‘ ان کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہوتا ہے‘ وہ ہے مفادات کا۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے‘ جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہواوہاں ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار اور عوام کا درد جاگ جائے گا۔ ایک دوسرے پر واری واری جانے والے ایک دوسرے کو گھسیٹنے‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کریں گے۔ آف دی ریکارڈ رازونیاز پَل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کو اس قدر گندا اور ننگا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ عوام اس سیاسی سرکس کے تماشائی ہیں‘ یہ سارے اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا رول پیش کرکے آتے جاتے رہیں گے عوام ان کی ''مسخریوں‘‘ اور ''کرتبوں‘‘ پر تالیاں اور بغلیں بجاتے اور انہیں ووٹ ڈالتے رہیں گے۔ امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘نیت سے لیکر معیشت تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک‘ہر سطح پر ہر کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ جس میں ان کی اپنی غرض اور مفاد غالب نہ رہا ہو۔ ملک کے طول وعرض میں کوئی ایسا حکمران آج تک نہیں آیاجس نے قانون‘ ضابطے‘ میرٹ اور گورننس کو اپنے تابع فرمان نہ بنایا ہو۔ اپنے کاروبار اور مالی ذخائر میں ہوشربا اضافے سے لے کر اقتدار کے حصول اور طول تک ہر جائز‘ ناجائز حد تک جانے والے حکمرانوں نے کب اور کون سا گُل نہیں کھلایا؟ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑسکتے ہیں۔
ماضی کے حکمرانوں کا رونا روئیں یا موجودہ چیمپئنز کا؟ ماضی کے چند ادوار کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ صاحبانِ اقتدار و اختیار طبقات کرپشن اور لوٹ مار کے کارِبد پر اس طرح نازاں رہے ہیں گویا کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہوں۔ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن‘ لوٹ مار‘ دھونس‘ دھاندلی اور اقربا پروری کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی تو ابتدا میں یہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز محسوس ہوتی تھی اور پھر بتدریج یہ آواز آوازِ خلق سے ہوتی ہوئی نقارۂ خدا بن گئی۔ دھرنوں اور2018 ء کے عام انتخابات کے دوران انتخابی نغمے اس جوش اور ولولے سے بجائے جاتے گویا جنگی ترانے بجائے جا رہے ہوں۔پھر یوں ہوا کہ عمران خان صاحب تو آگئے لیکن تاحال نہ تو قوم کی وہ شان بڑھ سکی اور نہ ہی نیا پاکستان بن سکا۔ تحریکِ انصاف برسر اقتدار آئی تو وزیراعظم کی پہلی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اُٹھے۔ گویا آگیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار‘ اب راج کرے گی خلقِ خدا اور اب کرپشن لوٹ مار اور اقربا پروری کے سیاہ دور کا خاتمہ ہوگا۔ وزیراعظم کی خوش گمانی پر مبنی اس تقریر کو عوام اُس خواب کی تعبیر سمجھ بیٹھے جو تحریک ِانصاف نے دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران تواتر سے دکھایا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا خواب بتدریج جھانسا بنتا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ اور بہترین طرزِ حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہوا کر ڈالا۔ دکھائے جانے والے سبھی سنہری خواب چکنا چور کر ڈالے۔ جس دور میں خلقِ خدا نے راج کرنا تھا اسی دور میں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوانِ اقتدار تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ جس طرح حالات نہیں بدلے اسی طرح عوام بھی خود کو بدلنے کو تیار نہیں۔آج بھی ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے عوام پل بھر کو نہیں سوچتے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں