آج ہم شہباز شریف کی ڈیل یا ڈھیل کے بارے میں بات نہیں کریں گے اور نہ مجہول سیاست میں الجھ کر مایوسیوں کے اندھیرے میں اضافہ کریں گے‘ نہ ہی وزیراعظم کے دورئہ سعودی عرب کے بارے میں کوئی دور کی کوڑی لائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کے ایسے بیرونی دورے ہر دور میں تواتر سے ہوتے چلے آئے ہیں۔ ہر دور میں ہر دورے کو حکومتی چیمپئنز کامیاب اور تاریخ ساز قرار دیتے نہیں تھکتے تھے جبکہ ہر بار یہ دورے کچھ یوں ہی ثابت ہوئے ہیں کہ:؎
یہ مطالبوں کا خلوص ہے
یہ ضرورتوں کا سلام ہے
یہ نوازشیں نہیں بے غرض
انہیں آپ سے کوئی کام ہے
تاہم وزیراعظم کے دورئہ سعودی عرب میں ایک بات ضرور اہم اور انہونی محسوس ہوتی ہے کہ وزیراعظم کے وفد میں پنجاب سینئر وزیر عبدالعلیم خان بھی شامل تھے۔ کفر ٹو ٹا خدا خدا کر کے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب سے صرف عبدالعلیم خان کو شریکِ سفر بنانا قفل کھلنے کی بھی نشانی ہے۔ خدا کرے کہ یہ قفل کھلا ہی رہے اور وہ حکومتی چیمپئنز اپنے عزائم اور مقاصد میں ناکام و نامراد رہیں جو وزیراعظم کو ان کے مخلص اور تحریک انصاف کے اصل چہروں سے دور کرتے چلے آئے ہیں۔ جہانگیر ترین ہوں یا علیم خان دونوں ہی اکثر حکومتی چیمپئنز کے مخصوص ٹارگٹ کی بھینٹ چڑھتے چلے آئے ہیں۔ اب اُمید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم اپنے مشیروں کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے اثر سے نکل کر ان ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلیں گے جو تحریک انصاف کی طویل جدوجہد میں عمران خان صاحب کے شانہ بشانہ اور ثابت قدم رہے ہیں اور ان کی خدمات بھی ناقابلِ تردید ہیں۔ قارئین آج کے کالم میں سیاسیات کا کوٹہ صرف اتنا ہی ہے ، باقی بات اخلاقیات اور سماجیات پر کریں گے۔
ہم میں سے بعض خلق ِخدا کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کر کے اور پرہیز گاری کے تمنائی بن کر کس قدر خود فریبی کا شکا رہے۔ ایسے لوگ اپنے اُس رَبّ کو کتنی دیدہ دلیری سے دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اور دلوں کا بھید بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘ ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ اس سے کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں۔ لیلۃ القدر دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یقینا انتہائی قدرومنزلت کی رات ہے۔ 74 برس قبل اسی رات مملکتِ خداداد معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اس تناظر میں ہمارے لیے یہ رات دہری اہمیت کی حامل ہے۔ ایک طرف اتنی بابرکت اور ہزار مہینوں سے بہتر رات‘ دوسری طرف اسی رات وہ خطہ عطا کیا گیا جس کے حصول کے لیے دی گئی قربانیوں کی داستان اس قدر دلخراش اور طویل ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ خاک وخون کی یہ کہانی اس قدر دردناک ہے کہ ہزاروں خاندان وہ زخم نہیں بھلا پائے جن سے رسنے والا خون انہیں تقسیمِ ہند کے بعد کے وہ ہولناک مناظر ذہنوں سے محو نہیں ہونے دیتا۔ گزشتہ رات بھی لیلۃ القدر کی تلاش میں اپنے رَبّ کے حضور گڑگڑانے اور معافیاں مانگنے کے علاوہ رحم و کرم انتہائی زور و شور سے طلب کیا جا رہا تھا۔ مملکتِ خداداد کے مسلمان بھی اس رات سربسجود اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت کے لیے گڑگڑاتے اور آہ وزاریاں کرتے رہے ہیں کہ اے خدایا! بس ایک بار معاف کر دے‘ ایک موقع اور عطا فرما دے‘ تیری نافرمانیوں اور گستاخیوں سے توبہ کر کے‘ تجھ سے رحم طلب کرتے ہیں۔ یہ سبھی اس یقین کے ساتھ اپنی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کا رَبّ ان پر ضرور مہربان ہو گا۔ میری بھی دعا ہے کہ پروردگار ان کی دعائیں قبول کرے۔ اپنے رَبّ سے رحمت اور بخشش کی اُمید اور طلب کے لیے اچھا گمان رکھنا اس کی شانِ کبریائی کا تقاضاہے۔ اس کے خزانے میں کیا کمی ہے ،وہ دینے پر آئے تو دنیا بھر کے خزانے‘ نعمتیں‘ رحمتیں اور برکتیں ایک پل میں دے ڈالے۔
تعجب اس امر پر ہے کہ رات بھر عبادات میں مگن اور سجدہ ریز رہنے والوں میں سے کچھ دن چڑھتے ہی اپنے پرانے معمولات اور کام دھندوں میں اسی طرح اُلجھے دِکھائی دیتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہیں رہتا کہ وہ چند گھنٹے پہلے اپنے رَبّ سے کیسے کیسے وعدے کرکے معافیاں طلب کرتے رہے۔ اس مملکتِ خداداد کا استحصال کرنے والے سبھی ناشکرے اس کی تباہی میں برابر کے شریک اور ذمہ دار ہیں۔ عبادات میں مگن رہنے والوں میں سے کچھ حقوق العباد سمیت کئی دیگر معاملات میں صفر پائے جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہی کچھ ایسے بھی ہیں جو رات بھر توبہ اور استغفار کرنے کے بعد صبح اٹھتے ہی اوزان و پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر حقوق العباد پر چھری چلانے تک سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ ایسے لوگ کس ڈھٹائی اور بے شرمی سے وہ سارے کام کرتے نظر آتے ہیں جن کی معافیاں وہ گزشتہ رات مانگتے نہ تھکتے تھے۔
اس بابرکت اور مقدس رات کو معرض وجو دمیں آنے والے مملکتِ خداداد پر کیسے کیسے مفادات کے مارے اپنے اپنے ایجنڈوں کے ساتھ مسلط رہے ہیں۔ ملک تو حاصل کر لیا لیکن اس تحفۂ خداوندی کی تباہی اور بربادی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ نہ تو آئین و قانون کی حکمرانی قائم کر سکے‘ نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب ہو سکے۔ نہ ہی سماجی انصاف فراہم کر سکے‘ نہ ہی اخلاقی قدریں بچا سکے۔ طرزِ حکمرانی سے طرزِ زندگانی تک سبھی کچھ تضادات‘ بے اعتدالیوں اور بداعمالیوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ نہ کہیں گورننس کا کوئی نشان ہے اور نہ ہی کہیں میرٹ نظر آتا ہے۔ یہ سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری سے کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔
عوام کی اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ کہیں تو یہ حکمرانوں کے سہولت کار نظر آتے ہیں اور کہیں ان کے پیروکار‘ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی مال بناؤ اور مال بچاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی زکوٰۃ و خیرات کے پیسے سے چیرٹی کر کے اترائے پھرتا ہے تو کوئی سرکاری وسائل پر کنبہ پروری کر کے نازاں ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زرکے کیسے کیسے مناظر صبح و شام‘ جابجا ہر سو نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عملی زندگیوں کا منظر نامہ شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے: ؎
مرچ میں اٹھاؤں تو/اینٹ کا برادہ ہے/ دودھ پانی پانی تو/شہد لیس چینی کی/محافظ ہی ڈاکو ہیں/عصمتوں پہ بولی ہے /جس جگہ میں رہتا ہوں / بے حسوں کی جنت ہے/سود کے نوالوں سے /جب ڈکار آتے ہیں /شکر کی صداؤں سے/رب کو یاد کرتے ہیں /رب بھی مسکراتا ہے/جب یہ لوگ راتوں میں/ کچھ تلاش کرتے ہیں
سانحہ ہو یا حادثہ‘ وبا ہو یا بلا‘ جس ملک میں حکمران اور عوام ہر موقع پر مال بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار اور یکساں چوکس رہتے ہوں‘ حکمران اپنے طرزِ حکمرانی اپنے تئیں بہترین قرار دیتے نہ تھکتے ہوں اور ریاستِ مدینہ کے استعارے بے دریغ استعمال کرتے ہوں‘ ایسے میں عوام ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک‘ اوزان و پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر ملاوٹ تک‘ مکروفریب سے لے کرحق مارنے تک‘ لوٹ کھسوٹ سے لے کر مار دھاڑ تک‘ اس کارِ بد میں سبھی شریک اور ذمہ دار ہوں تو کیسی معافیاں اور کیسی نجات ہے؟ بے شک وہ ذات باری تعالیٰ الغفور اور الصبور بھی ہے‘ المقدم بھی ہے اور المؤخر بھی ہے۔ تعجب ہے رب کی یہ سبھی صفات جاننے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہی ذات باری تعالیٰ ''العادل‘‘ بھی ہے اور اس کے عدل کا کون متحمل ہو سکتا ہے۔