چاند عید کا ہو یا رمضان کا‘ ہمارے ہاں اکثر چاند دیکھنے کے بجائے چَن چڑھانے پر زور رہا ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے ان کے کارنامے دیکھ کر صرف چہروں اور کردار کا فرق ہی نظر آتا ہے باقی سب کچھ آج بھی اُسی طرح جاری و ساری ہے جیسے ہر دور میں رواج رہا ہے۔موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آئے تقریباً تین سال ہونے کو ہیں اس دوران دو عیدوں پر چاند دیکھنے کے نام پہ کیا کیا گیا یہ سب جانتے ہیں۔ ابھی تو عوام سرکار کی پہلی عیدالفطر کا معاملہ نہیں بھول پائے تھے کہ چند روز قبل ایک نیا ایشو سامنے آ گیا۔
دو سال قبل بھی خیبر پختونخوا حکومت نے 28روزوں کے بعد عید کا اعلان کرکے سرکار کے لیے ایک ''چاند‘‘ چڑھا ڈالا تھا۔ اُس وقت کے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے چاند کی جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے انہیں رویت ہلال کمیٹی کے سابقہ چیئرمین مفتی منیب الرحمن سے چاند کی لڑائی بھلا ڈالی تھی۔ وہ قمری کیلنڈر کے مطابق پانچ جون 2019ء کو عید منانے کا اعلان کرچکے تھے جبکہ مفتی منیب الرحمن کا موقف تھا کہ چاند اور عید کا اعلان رویت ہلال کمیٹی ہی کرے گی۔ فواد چودھری کو کیا معلوم تھا کہ انہیں مفتی منیب الرحمن کے بجائے تحریک انصاف کے اندر ہی مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 28روزوں کے بعد عید کیونکر ممکن ہوئی اس کا جواب حکومت کے پاس نہ تھا۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں کوئی عید منا رہا تھا تو کوئی روزے سے تھا۔ حکومت خود اس معاملے میں بے بس اور بٹ کر رہ گئی تھی ۔اس وقت بھی سوائے فواد چودھری کے ساری حکومت نہ جانے کہاں جا سوئی تھی۔ نہ کہیں حکومت نظر آتی تھی‘ نہ اس کی کوئی رِٹ‘ حکمران جماعت ویسے بھی روز ِاوّل سے ہی انتشار کا شکار اور مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ رنگ برنگی اور بھانت بھانت کی بولیاں ہمیشہ ہی حکومت کے لیے سبکی اور پسپائی کا باعث بنی رہی ہیں، جس کا جو جی میں آتا ہے بیان دے ڈالتا ہے۔ جو من چاہتا ہے کر ڈالتا ہے۔
یہ کوئی سیاسی اورمعمول کا معاملہ ہرگز نہ تھا بلکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا معاملہ تھا۔ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ 2019ء میں 28روزوں کے بعد خیبر پختونخوا میں منائی جانے والی عید کے نتیجے میں عوام کے ایک روزے کا حساب کون دے گا۔ اگر اس وقت حکومت نے فواد چودھری کی بات پر کان دھرے ہوتے تو شاید اس مرتبہ عید کے چاند پر ایک بار پھر ماضی والا معاملہ نہ ہوتا۔ چند روز قبل رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کی مبینہ باہمی گفتگو پر مبنی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ عید بھی متنازع بن چکی ہے ۔اس غیر ذمہ داری اور مصلحت پسندی کا استغاثہ بھی آسمانوں پر یقینا لکھا جا چکا ہوگا اور ظاہر ہے جس روز سب کے ساتھ انصاف کیا جائے گا‘ اس دن یہ معاملہ بھی ضروری زیرِ غور لایا جائے گا۔ تب سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ کس نے کیا کیا‘ اور کیوں کیا۔
رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کی لیک ہونے والی ویڈیو میں اکثر ارکان سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو یاد کرتے دکھائی دیے۔ اعلان کرنے کے دباؤ پر اکثر ارکان پریشان اور تذبذب کا شکار تھے کہ آج مفتی منیب الرحمن ہوتے تو انہیں اس دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ تاہم قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ موجود چیئرمین عبدالخبیر آزاد سابق خطیب بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالقادر آزاد کے صاحبزادے ہیں اور اپنا ایک حلقہ احباب رکھتے ہیں۔
اس حساس معاملے پر توجہ نہ دینا حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ فطرت اور مذہب کو مذاق اور ثانوی سمجھنے والے کسی بھول میں نہ رہیں کہیں وہ خود ثانوی اور مذاق نہ بن کر رہ جائیں۔ رمضان اور مذہبی تہواروں پر سیاست اور مصلحتیں کہیں مہنگی نہ پڑ جائیں۔ قانون جب فیصلوں سے عاری ‘خاموش اور سو یا پڑا ہو تو ایسے میں قانونِ فطرت کا حرکت میں آنا عین منطقی ہے۔ اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں‘بس سمجھنے کی بات ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ عجلت میں چاند کا اعلان کرنے کا مقصد جمعہ کی عید سے گریز تھا۔ ہمارے ہاں یہ بدعت روزِ اوّل سے ہی حکمرانوں کو خائف کیے ہوئے ہے کہ جمعہ کے روز عید منانے کی صورت میں دو خطبے حکومتِ وقت پر بھاری ہوتے ہیں ؛چنانچہ ہر دور میں حکومتِ وقت کی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ عید جمعہ کو نہ منائی جائے۔ اس کے لیے انہیں اکثر چاند میں ردّوبدل کے الزام کا بھی سامنا رہا ہے۔ اگر اس بار بھی ایسا ہی ہے تو ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ دو خطبے بھاری ہوتے یا نہیں ہوتے لیکن سرکار کی طرزِ حکمرانی کے اثرات اور نتائج خود حکومت پر ضرور بھاری پڑ چکے ہیں۔ دو خطبوں کا اگر اثر ہوتا تو اس نے بس ایک بہانہ ہی بننا تھا۔
تحریک انصاف کو بر سر اقتدار آئے تین سال ہونے کو آئے ہیں لیکن روزِ اول سے ہی بلنڈرز کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کپتان کے بیشتر چیمپئنز کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کے پَلے کچھ ہو نہ ہو confidence کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اکثر مقامات پر تو over confidence کے نتیجے میں ایسا ایسا منظر دیکھنے کو ملا ہے کہ صاف نظر آتا ہے کہ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی منتخب عوامی نمائندہ ہے تو کوئی غیر منتخب مصاحب‘ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی خود کو وزیراعظم کا قریبی اور زیادہ با اعتماد ثابت کرنے پر بضد اور سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ مردم شناسی کے فقدان کی وجہ سے بعض وزیروں اور مشیروں کی نہ صرف موجیں لگی ہوئی ہیں بلکہ وہ دن بدن حکومت کے لیے پاؤں کی زنجیر بنتے چلے جارہے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے حکومت کے لیے آگے بڑھنا اور عوام کی توقعات پر پورا اترنا شاید ناممکن ہو چکا ہے۔ وہ توقعات جو اپنے ساتھ کیے گئے وعدوں کی وجہ سے عوام نے حکومت سے وابستہ کر رکھی ہیں۔
بات ہو رہی تھی روزوں اور عیدین کی‘ موجودہ حکومت نے کورونا کی صورتحال کے پیش نظر پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا رکھا ہے۔ رمضان المبارک میں ایس او پیز کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے خدا کرے کہ اس کے نتائج کبھی سامنے نہ آئیں اور چھپی آفتیں ہمیشہ چھپی ہی رہیں۔ تاہم ملک بھر میں سیاحتی مقامات پر آنے جانے پر سخت پابندی کے باوجود کچھ جگہوں پر منائی جانے والی عید پر پوری قوم تجسس کا شکار ہے‘ عین اسی طرح کہ ملک بھر میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کے دوران تین مرلے کے مکان کو بھی معافی نہ مل سکی اور لاکھوں لوگ بے سروسامانی کے عالم میں بال بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے اپنے مکان کے ملبے پر بیٹھ کر صرف آسمان کو تکتے رہتے تھے۔ ایسے میں خبر آئی کہ کہیں ایک غیر قانونی تعمیر کو چند لاکھ جرمانے کے عوض این آر او دے دیا گیا۔ ایسے میں ذہن میں سوال ابھرا کہ کیا سارے ایس او پیز اور ضابطے صرف عوام کے لیے ہی رہ گئے ہیں؟ کیا یہی ہے وہ سماجی انصاف اور کڑا احتساب جس کا ڈھول بجایا جاتا رہا ہے؟