حکمران جماعت اپنے اندر ہم خیال گروپ کی تشکیل کے بعد ہوش مندی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے خوابوں اور خیالوں کی دنیا بدستور بسائے ہوئے ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کی کشتی پہ سوار سبھی چیمپئنز کے درمیان سوراخ کرنے کا مقابلہ جاری ہے اور سبھی کا یہی موقف ہے کہ فلاں کا سوراخ میرے سوراخ سے بڑا ہے ۔آنے والے وقتوں میں یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگا کہ پانی کشتی میں ہے یا کشتی پانی میں ہے۔ گویا سبھی کچھ پانی پانی بھی ہوسکتا ہے۔ایک طرف جہانگیر خان ترین کا ہم خیال گروپ نالاں ہے کہ حکومتِ پنجاب اس کے خلاف سرگرم عمل ہے دوسری طرف اہم حکومتی مشیر اور وزیر بھی پھٹ پڑے ہیں کہ تختِ پنجاب ان کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہے۔عجیب حکومت ہے نا صرف کئی حصوں اور دھڑوں میں بٹ چکی ہے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اس طرح صف آرا ہے کہ انہیں کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اصل خطرہ اپوزیشن جماعتوں سے نہیں اندرونی انتشار‘ دھڑے بندی اور ایک دوسرے کے خلاف عناد سے ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ یہ سوال شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے کہ تحفظات ناراض اور ہم خیال گروپ کے ہوں یا وزیراعظم کے قریبی وزیروں اور مشیروں کے ‘یہ سبھی کس کے نشانے پر ہیں۔پس پردہ کون ہے جو اِن کے خلاف وزیراعظم کے کان بھرنے میں مصروف رہا ہے؟کون وزیراعظم کے سامنے غلط بیانی کرکے پسپائی اور جگ ہنسائی کی کھائی کی طرف دھکیلے چلا جارہا ہے؟پردے کے پیچھے بیٹھا کون ڈوریاں ہلائے چلا جارہا ہے ؟دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ حکومت کو انتظامی اور سیاسی طور پر کنفیوژ کرنے سے لے کر غیر مستحکم کرنے تک صرف ایک ہی کیمپ تاحال متحرک اور کامیاب ہے ۔سبھی نشانے اس قدر ہوشیاری کے ساتھ تاک تاک کرلگائے گئے ہیں کہ وزیراعظم کے سبھی قریبی گھائل اور ڈھیر نظر آتے ہیں۔جہانگیر ترین سے لے کر غلام سرور خان اور زلفی بخاری تک سبھی لگتا ہے ایک ہی شکاری کا شکار بنے ہیں۔ جس طرح پہلے کمال مہارت سے وزیراعظم کو قائل کرلیا گیا کہ جہانگیر ترین کے خلاف جتنی بڑی کارروائی عمل میں لائی جائے وزیراعظم کی ساکھ بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اصول پسندی کے چرچے بھی زبان زد عام ہوں گے۔
ابتدا میں تو جہانگیر ترین کے خلاف اکثر کارروائیوں سے وزیراعظم کولاعلم ہی رکھا جاتا تھا۔ شیشے میں اتارنے والے بتدریج وزیراعظم کو اس مقام پر لانے میں کامیاب ہوگئے کہ حکومت نے جہانگیر ترین کے خلاف صرف طبل ِجنگ ہی نہیں بجا ڈالا بلکہ وسیع پیمانے پر کارروائیوں کا گھیرا بھی تنگ کرناشروع کردیاہے ۔ حکومت کے ایک احتسابی چیمپئن نے تو کمال مہارت سے نجانے کس طرح وزیراعظم کو قائل کرلیا کہ جہانگیر ترین کے گرد گھیرا جتنا تنگ کریں گے وزیراعظم کی ساکھ کو نہ صرف چار چاند لگ جائیں گے بلکہ ان کی اصول پسندی کے چرچے بھی زبان زدِ عام ہوں گے۔احتسابی کارروائیوں کو بیلنس کرنے کے لیے جہانگیر ترین کی قربانی پر وزیراعظم کو آمادہ کرنے والے یہ چیمپئنز اپنے ایجنڈے پر کافی عرصے سے کامیاب جا رہے تھے کہ اچانک جہانگیر ترین نے چپ کا روزہ توڑ ڈالا اور وزیر اعظم کو برملا اور واضح پیغام دیا کہ وہ ان کے پرانے دوست ہیں‘انہیں دشمنی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ انہوں نے اپنے خلاف کارروائیوں کو امتیازی سلوک اور چند مخصوص عناصر کی ذاتی خواہشات پر مبنی سازش قرار دیاتو دیکھتے ہی دیکھتے ان سے یکجہتی کرنے والے ارکانِ اسمبلی اور وزرا کا تانتا بندھ گیا اور اب یہ عالم ہے کہ قومی اور پنجاب اسمبلی میں انہوں نے ہم خیال گروپ کا نہ صرف اعلان کرڈالا ہے بلکہ عددی اعتبار سے ان کی اہمیت ناقابلِ تردید ہونے کے ساتھ ساتھ گیم چینجر بھی ہوسکتی ہے جبکہ حکومت سیاسی فیصلے کرنے کے بجائے بریفنگ اور ڈی بریفنگ کی روایتی پالیسی پربے تحاشا نقصان کے باوجود نازاں اور اترائے پھرتی ہے۔
جہانگیر ترین کے ساتھ عدالتوں میں پیشی پر جانے والے وزرا اور ارکانِ اسمبلی اور ان کی رہائش گاہ پر یکجہتی کیلئے اکٹھے ہونے والے درجنوں ارکان نے پہلی بار یہ تاثر دیا ہے کہ حکومت کو نہ پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ ہے اور نہ شریف برادران کی جارحانہ سیاست سے‘اصل اپوزیشن تو تحریک انصاف کے اندر جنم لے چکی ہے۔ وزیراعظم سے جہانگیر ترین کے رابطوں اور ملاقات پر جہاں کچھ مشیر اور سرکاری بابو اپ سیٹ ہیں وہاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی اپنے اندر کی پریشانی اور بے چینی کو کنٹرول نہیں کرپائے اور بے اختیاربول اُٹھے کہ ترین گروپ کسی ایک طرف ہوجائے‘یہ تیتر بٹیر نہیں چلے گا اور یہ کہ چار ارکانِ اسمبلی کے بگڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تعجب ہے‘ شاہ محمود قریشی صاحب کو درجنوں ارکان ِاسمبلی صرف چار کیوں نظر آرہے ہیں؟ شاہ جی نے تو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ عمران خان کسی صورت بلیک میل نہیں ہوں گے۔
احتسابی چیمپئنز کی بریفنگ کا شکار ہونے والے غلام سرور خان ‘زلفی بخاری اور کمشنر راولپنڈی کے بارے میں واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ کس کاریگری سے رنگ روڈ سکینڈل کا سارا ملبہ وزیراعظم کے قریبی مشیروں اور وزیروں پر ڈالا گیا ہے جبکہ کس ہوشیاری سے اصل حقائق کو وزیراعظم سے پوشیدہ رکھ کرکسے بامراد اور اکبرثابت کیا گیا ہے۔ تاہم ایک طرف وفاق میں براجمان ایک مشیر اور اہم سرکاری بابو جبکہ دوسری طرف اس واردات کے ماسٹر مائنڈکے ذاتی ایجنڈے اور عزائم کی تکمیل کے لیے تخت ِپنجاب اور ایک اہم سرکاری بابو کو کس طرح شریک ِعمل کرکے پنجاب حکومت کی ساکھ کو دائو پر لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔
بے گناہی ثابت ہونے تک زلفی بخاری نے استعفیٰ دے کر اپنا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ‘ مگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے تک مذکورہ ماسٹر مائنڈ وزیراعظم کے سامنے نجانے کون کون سے دودھ کو پانی ثابت کرچکے ہوں گے۔ آنے والے وقت میں رنگ روڈ سکینڈل کی تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ''توڑی کی پنڈ‘‘ بھی کھلتی نظر آرہی ہے جو ماسٹر مائنڈ چیمپئن اپنے بھائی کی ذاتی اور نفسیاتی خواہشات سے مجبور ہوکر اپنے سر پر اٹھا تو چکے ہیں لیکن جونہی یہ پنڈ کھلے گی تو اس کا تنکا تنکا ہوا میں اڑتا نظر آئے گا ۔ شاید اس دن سربراہ حکومت کی آنکھوں سے اعتبار اور اندھے اعتماد کی عینک بھی اتر جائے جو ان چیمپئنز نے کمال مہارت اور ہوشیاری سے جمائی ہے۔
جس طرح کوئی اپنی کمر کا تِل نہیں دیکھ سکتا اسی طرح حکمران بھی اپنے ہی کیے ہوئے اکثر فیصلوں کے نتائج سے لا علم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں گے اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد اور آگے پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس کے نام پر کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر تتر بترہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اگلی منزلوں کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ اعتراف پہلے ہی پریشان کن اور الارمنگ ہے کہ اُن سے غلط فیصلے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ سوچتے رہتے ہیں۔ مردم شناسی سے لے کر مقبول فیصلوں تک بیشتر معاملات میں حکومت کو روزِ اول ہی سے سُبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا ہے‘جبکہ بعض مشیر اور سرکاری بابو کمالِ مہارت سے اہم ترین اور حساس نوعیت کے معاملات پر وزیراعظم کو نفسیاتی اور اعصابی طورپر اپنے گرد گھما رہے ہیں‘ایسے میں رنگ روڈ سکینڈل کے متاثرہ وزیر اور مشیر کہیں ہم خیال گروپ کے ہم خیال نہ بن جائیں۔