نیب لاہور نے ایک جعلساز کو گرفتار کیا ہے جو مختلف سرکاری محکموں سے کام نکلوانے کے لیے خود کو ڈی جی نیب سکھر ظاہر کرتا تھا۔ بعض ہائوسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ سے فائدے حاصل کرنے کے لیے بھی اس جعلساز نے نیب کا نام استعمال کیا۔ جس ملک میں معصوم بچوں کی خوراک‘ دودھ اور ادویات تک ملاوٹ کے زہر سے آلودہ ہوں‘ قانون‘ ضابطے اور سیاسی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے نمائشی ہوں‘ حکمرانوں کی نیت اور ارادوں سے لے کر اقدامات اور فیصلوں تک سب کچھ دکھاوا اور عمل سے کوسوں دور ہو وہاں ایسے جعلی افسران پیدا ہونا حیرانی کی بات نہیں۔ یہ جعلسازیاں گلی محلوں سے لے کر سڑکوں اور شاہراہوں تک‘ محکموں سے لے کر وزارتوں اور ایوانوں تک‘ ہر جگہ‘ ہر دور میں کثرت سے پائی جاتی رہی ہیں۔ چور وہ ہے جو پکڑا جائے۔ جس ملک میں حکمرانوں کے اعلانات ملاوٹ زدہ ہوں وہاں خالص نتائج کیونکر برآمد ہو سکتے ہیں؟ تاہم گورننس کی حالتِ زار کی اصل وجہ وہ نمائشی اور جعلی وعدے ہیں جن کا تعلق نیت اور ارادے کے بجائے جھانسوں اور دلاسوں سے ہے۔
وطنِ عزیز میں کون کون سی جعلسازی کا رونا روئیں؟ جعلی نیب افسر تو پکڑا گیا‘ ملک بھر میں جاری دیگر جعلسازیوں کے لیے بھی کاش کوئی متحرک ہو۔ جس ملک کی اشرافیہ جعلی کلیموں اور جعلی کھاتوں پر اترائی پھرتی ہو وہاں کچھ بھی جعلی ہوسکتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت کیسے کیسے جعلی کلیم داخل کرکے دنیا سنوارنے والوں نے آج پورا ملک آگے لگایا ہوا ہے۔ اس دھوکا منڈی میں مختلف ناموں کے ساتھ ایک پروڈکٹ انتہائی مقبول اورہمیشہ سے سرگرم ہے‘ اس پراڈکٹ کا نام کبھی دوست توکبھی مصاحب خاص تو کبھی کارِ خاص ہوتا ہے۔ ہر دور میں ہر حکمران کے ساتھ کچھ دم چھلے اس پراڈکٹ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سابقہ ادوار میں یہ دم چھلے خاصے اہم‘ کارگر اور اکثر اہم معاملات میں اثر انداز بھی ہوتے رہے ہیں‘ اس حکومت میں بھی کچھ دم چھلے تقریباً تین سالوں سے اسی اچھل کود میں مصروف ہیں کہ کسی طرح خود کو وزیراعظم کا دوست یا مصاحب خاص ثابت کرسکیں۔ وہ کسی طور ٹلتے اور تھکتے نظر نہیں آتے‘ اوٹ پٹانگ حرکتوں سے لے کراپنے منہ میاں مٹھو بن کر سوشل میڈیا پر ایسا تاثر اجاگر کرنے کی دھن میں مگن ہیں کہ وہ نہ صرف وزیراعظم کے انتہائی قریبی ہیں بلکہ وزیر اعظم ان سے اہم امور پر مشورے بھی طلب کرتے ہیں اور اپنے دیے گئے ان مشوروں کو وہ کسی قومی خدمت سے کم تصور نہیں کرتے۔ یہ منظرنامہ اکثر مضحکہ خیز صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ایسے میں برادر محترم حسن نثار کا یہ تبصرہ ہر بار مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ جو خود کو وزیر اعظم کا دوست کہتا ہے وہ خود بے وقوف ہے یا پبلک کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ ڈھونگ رچا رہا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی جعل سازی سے اور پورے وثوق سے کہتا ہوں‘ جس دن حکمرانوں کی نیت اور ارادے خالص ہو گئے اس دن اس ملک کے کونے کونے سے ہر قسم کی جعل سازی یقینی طور پر ختم کی جا سکتی ہے۔ جب اقدامات جعلی ہوں گے تو اشیائے خورونوش سے لے کر ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ تک جعل سازی کون اور کیسے روک سکتا ہے؟ جب جعلی کلیموں کا چمتکار فرش پر بیٹھی مخلوق کو عرش پر پہنچا دے اور عرش پر بیٹھوں کو فرش پر لا پٹخے تو ایسے میں کیسی اخلاقی قدریں اور کہاں کا سماجی انصاف؟ جب یہ عناصر کسی ریاست میں ناپید ہو جائیں تو وہاں جعلی افسران‘ جعلی حکمران اور جعلی فرمان ہی ہو سکتے ہیں۔ جعل سازوں کی اس دھوکا منڈی میں عام آدمی کیونکر زندہ ہے؟
دھوکا منڈی کی سیر کے بعد اب چلتے ہیں دیگر موضوعات کی طرف جو قلم آرائی پر اکسائے چلے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈیرہ غازی خان میں ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا حکم جاری کردیا ہے‘ یہ آپریشن پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی ہوگی۔ خدا کرے ان کا یہ اقدام عملدرآمد تک خالص رہے اور اس میں کوئی حکومتی چیمپئن مصلحت کی ملاوٹ نہ کرسکے کیونکہ ڈیرہ غازی خان کے مخصوص علاقوں میں ڈاکو عوام کے جان و مال کیلئے عذابِ مسلسل بنے چلے آرہے ہیں۔ اب بھی اکثر علاقوں کو بجا طور پر علاقہ غیر کہا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد تختِ پنجاب کے غیر متوقع فیصلے پر دور کی کوڑی لانے والوں نے کمال کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تبدیلی تو اب ضرور آئے گی‘ جس پر ایک دل جلے نے پوچھ لیا کہ اس فیصلے کے باوجود آپ تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں؟ تو جواب ملا کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘ اب لاہور تونسہ اور تونسہ لاہور نظر آئے گا۔ لاہور میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں‘ اجڑی اور برباد گرین بیلٹوں کے علاوہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیروں کے تعفن نے پورے شہر کی فضا کو مکدر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میںکہا جاسکتا ہے کہ لاہور کو تونسہ بنانے کے واضح اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں‘ لاہور کو تونسہ بنانے کا ایجنڈا کامیابی سے جاری ہے‘ تاہم بحیثیت پاکستانی یہ دعا ہے کہ تونسہ تو ضرور لاہور بننا چاہئے لیکن خدا کرے کہ لاہور کو تونسہ بنانے کا پراجیکٹ کامیاب نہ ہو۔
باعثِ فکر اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ڈاکوئوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ بھی وزیراعظم ہی کو لینا پڑا۔ یاددہانی اور ریکارڈ کی درستی کیلئے عرض کرتا چلوں کہ اگست 2020ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے میں مثالی گورننس قائم کرنے کیلئے گڈ گورننس کونسل تشکیل دے کر خود کو اُس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اُس وقت بھی یہی تحفظات شیئر کیے تھے کہ تعجب ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب کو گورننس کونسل کی تشکیل کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور گورننس کی براہِ راست ذمہ داری بھی اُسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اقدام کھلا اشارہ تھا کہ اس کونسل کی تشکیل سے قبل گورننس کے معاملات کہیں اور دیکھے جا رہے تھے یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا تھا۔ گڈ گورننس کونسل کے قائم ہونے کے بعد اس وقت بھی ان سے عوام کا یہی مطالبہ تھا کہ اب کچھ کرکے دکھائیں یا گڈ گورننس کونسل کے سربراہ بن کر یا وزیراعلیٰ بن کر۔ گا‘ گے‘ گی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
عوام کا دکھ یہ ہے کہ انہیں نہ وزیراعلیٰ عملی طور پر میسر آسکا اور نہ گڈ گورننس کونسل کا سربراہ ان کا مسیحا بن سکا۔ عوام کل بھی بھٹک رہے تھے اور آج بھی بھول بھلیوں میں منزل ڈھونڈ رہے ہیں۔ وزیر اعظم تقریباً تین سال سے صوبائی دارالحکومت کے دورے کررہے اور ہر دورے کے بعد وزیر اعلیٰ پر اظہارِ اعتماد اور عوام کو ایک نئی آس دلا کر واپس چلے جاتے ہیں‘ لیکن واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ہربار خطرے کا نشان اوپر کرنے آتے ہیں‘ یہ وہی خطرے کا نشان ہے جو متوقع سیلاب سے قبل گائوں والوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے ایک سرکاری بابو نے اوپر کرکے یہ خوشخبری دی تھی کہ آپ اطمینان سے گھر جاکر سوئیں میں نے نشان اونچا کرکے سیلاب کا خطرہ ٹال دیا ہے‘ لیکن سیلابی ریلے کب کسی سرکاری بابو کے نشان کو مانتے ہیں۔ رات کے کسی پہر سیلابی ریلا آیا اور پورا گائوں بہا کرلے گیا‘ بابو کی تسلی میں آکر سونے والے سوتے ہی رہ گئے۔
اس طرزِ حکمرانی میں اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نواز شریف سے خاصی متاثر اور انہی کا ماڈل اپنائے ہوئے ہے۔ یاد رہے1990ء میں وزیراعظم بننے کے باوجود نوازشریف پنجاب کے معاملات اور قلمدان اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے وفاقی دارالحکومت سے لاہور آکر اہم فیصلوں کی منظوری دیا کرتے تھے۔ کیا حلیف کیا حریف‘ کیا اپنے کیا پرائے‘ سبھی گورننس کے اس ماڈل سے تنگ اور عاجز ہونے کے علاوہ وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کی تبدیلی پر بضد تھے جبکہ وزیر اعظم وائیں کے سوا کسی کو وزیراعلیٰ بنانے پر تیار نہ تھے اور پھر وائیں کو بچاتے بچاتے تختِ پنجاب سے ہاتھ دھونا پڑگئے۔ آج بھی تختِ پنجاب خودمختار فیصلوں کی اہلیت اور گورننس کی خاصیت سے محروم نظرآتا ہے۔