مصمّم ارادہ تھا کہ آج سیاست اور سیاسی بازیگروں سے بچ بچا کر کچھ ہلکے پھلکے اور سماجی معاملات پر بات کریں گے‘ لیکن اکثر ایسے ارادے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ناکام بھی رہتے ہیں کیونکہ سیاسی بازیگر کوئی نہ کوئی کرتب کر ہی ڈالتے ہیں جو موضوعات سے لے کر ارادوں تک کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک مشیر صاحب کمال کی شخصیت ہیں۔ کیا اپنے کیا پرائے‘ کیا حلیف کیا حریف‘ سبھی ان سے شاکی اور نالاں نظر آتے ہیں۔ انہیں ایک اور کریڈٹ بھی ضرور دینا چاہیے کہ وزیراعظم کے اکثر قریبی اور بااعتماد دیرینہ ساتھیوں کو ان سے دور کرنے سے لے کر مزاحمت پر آمادہ کرنے تک‘ سبھی انگلیاں انہی کی طرف اٹھتی ہیں۔ وزیراعظم ان کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر اس حد تک انحصار کرتے ہیں کہ ایک ایک کر کے سبھی پرانے اور قریبی دور ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان کا تازہ ترین ہدف جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ میں شامل نذیر چوہان ہیں جن کے خلاف ایک متنازع بیان پر ان کی مدعیت میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اور نذیر چوہان ثانوی سے مرکزی حیثیت حاصل کر کے ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں جبکہ کچھ اور لوگ موصوف مشیر صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی مسلمان کو غلط نام دینے والا خود وہی ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر گیند نذیر چوہان کے کورٹ میں ڈال دی ہے کہ وہ اپنے بیان کی صداقت ثابت کریں۔ اﷲ ہی جانے کون بشر ہے؟
جن صاحب کی میں بات کر رہا ہوں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ریس میں نہ صرف اکیلے ہی دوڑے چلے جا رہے ہیں بلکہ خود کو وزیراعظم کا نمبرون کھلاڑی ثابت کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہی لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگز اور ڈی بریفنگز میں مخالفین کے علاوہ وزیر اعظم کے بیشتر اہم کھلاڑیوں کو بھی رن آؤٹ کروا چکے ہیں۔ جہانگیر ترین سے لے کر زلفی بخاری تک کئی کھلاڑی ان کا شکار ہو چکے ہیں‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ تین سالوں میں ہونے والی کارروائیوں اور ان سے برآمدہ نتائج کے بعد ڈھول کا پول کھلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ روزانہ درجنوں مائیک سجا کر آن کیمرہ اپوزیشن کی کرپشن کی داستانیں دہرانے والے ان سبھی کرداروں سے غافل اور بے خبر کیوں ہیں‘ جن میں کوئی کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی ایوانِ وزیر اعظم کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ کوئی برسرِ اقتدار پارٹی کی چھتر چھایہ میں ہے تو کوئی حلیف بن کر کھال بچائے بیٹھا ہے۔
تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے تین سال ہونے کو آئے ہیں اور اب اقتدار کے دورانیے کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔ جوں جوں اقتدار کی مٹھی سے وقت کی ریت سِرک رہی ہے توں توں زمینی حقائق کی چکا چوند نے حکومتی چیمپئنز کی آنکھیں چندھیا ڈالی ہیں۔ جھانسوں اور جھوٹے دلاسوں کی وجہ سے حکمران زبان و بیان کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ وہ سارے اقدامات جنہیں شجرِ ممنوعہ‘ نا ممکن‘ نا قابلِ برداشت اور عوام دشمن قرار دے کر یہ گھن کھایا کرتے تھے آج وہی سب کچھ کرنے پر آمادہ اور انہی اقدامات کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔
روزِ اول سے ہی وزیر اعظم دو ٹیمیں لے کر میدانِ اقتدار میں اُترے تھے‘ ایک ٹیم منتخب نمائندوں پر مشتمل تھی جو عوام کا ووٹ لے کر آئے تھے جبکہ دوسری ٹیم کپتان کے ساتھ آئی تھی جو ذاتی رفقا اور مصاحبین پر مشتمل تھی‘ جن میں اکثریت کی اہلیت اور قابلیت تا حال نا معلوم ہے۔ بیان بازی سے لے کر زبان درازی تک ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا۔ کئی ایک کی شعلہ بیانی کے شعلوں نے وہ کام کر دکھایا کہ صاف نظر آتا تھا‘ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ غیر منتخب ذاتی رفقا اور مصاحبین کے انتخاب سے لے کر اُن کے مشوروں اور فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کو کئی بار سبکی کا سامنا بھی رہا ہے لیکن سبکی پر سرزنش اور جواب طلبی کے بجائے تھپکی دے کر ہر بار جگ ہنسائی کا سامان کرنے والوں کے ایک طرح سے حوصلے بڑھائے جا رہے ہیں۔
حکومتی چیمپئنز کا دعویٰ ہے کہ اقتصادی وکٹ دن بدن تیز ہوتی چلی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اسی پر کھڑے ہو کر چوکے چھکے بھی لگائے جائیں گے تاہم حکومتی گرما گرم دعووں کے باوجود عوام کے چولہے تا حال ٹھنڈے ہیں۔ جب تک دعووں کی گرمی چولہوں تک نہیں پہنچے گی ڈیڈ وکٹ بھلے کتنی ہی تیز ہو جائے سب الفاظ کا گورکھ دھندا ہی سمجھا جائے گا۔ وزیر اعظم دورۂ لاہور کے دوران خطرے کا نشان اونچا کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اس دورے کا بنیادی مقصد لنگر خانے اور پناہ گاہیں ہی تھیں‘ اس موقع پر نیلسن منڈیلا کا یہ قول بے اختیار یاد آیا گیا کہ غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے۔ جو کارخانوں کے جال بچھا کر معاشی انقلاب لانے کے دعوے کرتے اقتدار میں آئے تھے وہ کارخانوں کے بجائے لنگر خانے بنائے چلے جا رہے ہیں۔
اقتدار کی نصف سے زیادہ مدت پوری ہو چکی ہے لیکن سماجی انصاف سے لے کر غربت کے خاتمے تک کے لئے تا حال پہلا قدم ہی نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ غربت کے خاتمے کے نام پر جو غریب ماری ہر دور میں جاری رہی وہ آج بھی کئی اضافوں کے ساتھ جاری و ساری نظر آتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کا مذکورہ بالا قول ہمارے سبھی حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ اقتصادی اصلاحات سے لے کر معاشی انقلاب تک‘ میرٹ اور گورننس سے لے کر قول و فعل اور مطابقت تک سبھی معاملات نا کام اور نا مراد ہی ٹھہرے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر موجیں مارنے کی روایات آج بھی جاری ہیں۔
کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ اقربا پروری کو بھی خوب رواج دیا جا رہا ہے۔ عوام کو جو سنہری خواب کنٹینر پر کھڑے ہو کر دکھائے گئے تھے وہ سبھی چکنا چور ہو چکے ہیں۔ گورننس کے ساتھ ساتھ میرٹ کا حشر نشر بھی خوب جاری ہے۔ حکومت کو ماضی کے پالیسی ساز اور سہولت کار میسر ہیں اور سابق ادوار کی طرح اس حکومت پر بھی Nears & Dears کی اجارہ داری ہے‘ جن کا ایک ہی مشن ہے کہ خواص کا ضمیر اور عوام کی مت مار دو اور پھر فرضی اعداد و شمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ڈھول پیٹو کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابق ادوار کا دورِ حاضر سے موازنہ کریں تو سبھی ایک دوسرے کا ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں جبکہ حکومت کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس نے سبھی ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑ ڈالے ہیں۔
منتخب نمائندے ہوں یا غیر منتخب شریکِ اقتدار اور سرکاری بابوز‘ سبھی کا یہ عالم ہے کہ کوئی سیر ہے تو کوئی سوا سیر‘ نہ عوام کسی کا مسئلہ ہیں اور نہ عوام کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار ہے‘ سبھی اپنے اپنے ایجنڈے پر گامزن اور اترائے پھرتے ہیں۔ عوام اچھے دنوں کی تلاش میں بد سے بد تر حالات سے دوچار ہوتے چلے جائیں تو کیسی گورننس اور کہاں کی حکمرانی؟ خوابوں کی تعبیر لوٹنے سے لے کر دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے تک‘ وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر ملک و قوم کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے تک‘ لوٹ مار کے سبھی سلسلے ماضی کی طرح آج بھی جاری ہیں۔ ایسے میں فیض احمد فیض کا یہ شعر پیش خدمت ہے ؎
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں