"AAC" (space) message & send to 7575

شہباز شریف کی واپسی …

ایک حالیہ کالم میں عوام کے دکھوں کا رونا رونے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے گٹھ جوڑ کے علاوہ کھال اور گردن بچانے کے لیے میثاق جمہوریت جیسے ڈھونگ پر بات کی تھی جس کا جواب محترم حسن نثار کے کالم میں آ چکا ہے۔ انہوں نے 24 سال پرانی پیش گوئی کو کامن سینس قرار دیا ہے۔ یہی کامن سینس اگر ہمارے دانشوروں اور حکمرانوں کو نصیب ہو جائے تو سیاسی اکھاڑے کے آدھے سے زیادہ داؤ پیچ نہ صرف ختم ہو جائیں بلکہ کھڑکی توڑ رش بھی کَرش ہو سکتا ہے۔ ذاتی خواہشات اور مخصوص مقاصد پر مبنی دانشوری نہ صرف افراتفری کا باعث ہے بلکہ اکثر سیاسی استحکام پر بھی کاری ضرب بنتی ہے۔ جہاں سیاست عدمِ استحکام کا شکار ہو گی وہاں ریاست کے سبھی شعبے اس عدمِ استحکام کے اثرات سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟
معیشت جیسا اہم شعبہ براہ راست متاثر اس لیے ہوتا ہے کہ ادھر منتخب حکومت عدمِ استحکام کا شکار ہوئی‘ اُدھر سٹاک ایکسچینج دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے جبکہ معاشی عدمِ استحکام امن و امان اور سماجی انصاف کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ایسی صورتحال میں انتظامی مشینری کنفیوژ ہونے کے علاوہ سیاسی مفاہمتیں اور وفاداریاں بھی ڈگمگا جاتی ہیں۔ حالیہ کالم کی چند سطور دہرائے بغیر اصل معاملات اور ایجنڈے کی وضاحت میں تشنگی کا اندیشہ ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد قارئین اور قریبی حلقہ احباب کی طرف سے آنے والا فیڈ بیک کسی مباحثے سے کم نہیں‘ تاہم قارئین کی آسانی اور مزید وضاحت کیلئے یہ چند سطور بطور حوالہ پیش خدمت ہیں ''اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز کے موجودہ بیانیے کی موجودگی میں شہباز شریف کی یہ گوٹی مزید کتنا عرصہ فٹ رہ سکتی ہے؟ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف جلد یا بدیر نواز شریف سے ملاقات کے لیے جائیں گے اور انہیں مفاہمت کی سیاست پر قائل کرنے کے علاوہ ان کے بیانیے کی گرمی کو بھی ٹھنڈا کریں گے تب کہیں جا کر شہباز شریف کی گوٹی فٹ رہ سکے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کے پاس دینے کو کیا ہے؟ کیا وہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیوں کا بیعانہ اٹھا چکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا مریم نواز اپنے چچا کی گوٹی فٹ کرانے کے لیے اپنے بیانیوں سے دستبردار ہو سکیں گی؟ ایک اور سوال انتہائی اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ اگر مریم نواز اپنے موجودہ بیانیوں سے دستبردار ہو کر مفاہمت پر آمادہ ہوتی ہیں تو بینیفشری کون ہو گا؟ خود مریم نواز یا شہباز شریف؟ یہ کیونکر ممکن ہو گا کہ بیانیوں پر نظر ثانی اور سمجھوتا تو مریم نواز کریں اور گوٹی فٹ رہے شہباز شریف کی؟ دور کی کوڑی لانے والے ہوں یا سیاسی منظر نامے کے کردار‘ اکثر کا یہی کہنا ہے کہ شہباز شریف زیر احتساب ہونے کے باوجود کمفرٹ زون میں ہی رہے ہیں‘‘۔
شہباز شریف کے ہاتھ کچھ آتا ہے یا اُن کے ساتھ ہاتھ ہوتا ہے یہ معمہ دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے تاہم اس صورت حال میں ایک تاثر انتہائی مہارت اور مؤثر انداز میں اُجاگر کیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کو ملنے والا کمفرٹ زون اقتدار میں واپسی کا اشارہ ہے۔ سیاسی بازی گروں کا یہ پراپیگنڈا بھی خوب کامیاب جا رہا ہے کہ مقتدر حلقے شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے کر چکے ہیں‘ اسی لیے وہ قید و بند کے بجائے آزادانہ گھومتے نظر آتے ہیں اور آنے والے دنوں میں وہ بیرونِ ملک جا کر اپنے بڑے بھائی سے معاملات طے کر کے واپس آئیں گے اور آئندہ الیکشن یا حکومت کی قبل از وقت رخصتی کی صورت میں انہیں کوئے اقتدار کا مکین بنایا جا سکتا ہے۔ یہ پراپیگنڈا اس قدر کمالِ مہارت سے کیا جا رہا ہے کہ حکومت سمیت کیا حلیف کیا حریف کم و بیش سبھی اس پراپیگنڈا کی زد میں آ چکے ہیں۔
اس تھیوری کا حکومت کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ انتظامی مشینری جنہیں عرفِ عام میں سرکاری بابو کہا جاتا ہے‘ بھی اس پراپیگنڈا پر تقریباً اعتقاد کی حد تک یقین کر چکی ہے اور اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس خوف کا شکار ہے کہ اگر شہباز شریف کی واپسی ہو گئی تو ان کا حال اور مستقبل کیا ہو گا؟ وہ سبھی اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ شہباز شریف کی واپسی کی صورت میں ہر اس افسر کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب جائے گا جو حکومت میں کارکردگی دکھاتا رہا ہو گا اور انہیں شہباز سے کون بچائے گا؟ یوں یہ خدشات اور وسوسے سول بیوروکریسی کے لیے گلے کی پھانس بن چکے ہیں کہ کہیں پرفارمنس دکھانے کی قیمت ہی نہ ادا کرنی پڑ جائے۔ شہباز شریف کی واپسی کا پراپیگنڈا حکومت کی گورننس اور میرٹ دونوں کو کھاتا چلا جا رہا ہے جبکہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ جو افسر شہباز شریف کی ٹیم اے کا حصہ رہ چکے ہیں اور آج حکومت میں اہم عہدوں پر مامور ہونے کے باوجود بوجوہ اور دانستہ پرفارمنس سے گریزاں ہیں‘ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ مذکورہ افسران آج بھی شہباز شریف کو جواب دہ اور انہی کی خواہشات کے مطابق امورِ سرکار چلا رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔
رواں مالی سال ختم ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ اس دوران ترقی اور گورننس کا اندازہ فنڈز کے استعمال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جبکہ اہم ترین عہدوں پر فائز افسران گورننس اور مفادِ عامہ کے منصوبوں کی ضد ہی ثابت ہوئے ہیں تاہم اس سوال کی اہمیت اور تقویت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کی واپسی کیونکر ممکن ہو گی جبکہ شہباز شریف اپنے اُن بیانیوں کی قیمت ساتھ ساتھ برابر وصول کیے جا رہے ہیں جو وہ بوجوہ اور احتیاطاً زبان پہ نہ لا سکے۔ شیخ رشید روزِ اول سے ہی شہباز شریف کے خلاف جاری کارروائیوں سے شاکی اور نالاں ہونے کے علاوہ یہ بھی برملا کہتے ہیں کہ ''شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہے۔ لیکن یہ گوٹی مریم نواز کے تعاون اور بیانیوں پر سمجھوتے کے بغیر کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ شہباز شریف تو اپنے بیانیوں اور تعاون کی قیمت وصول کر چکے ہیں جبکہ مریم نواز اپنے تعاون کی وصولی کے لیے شہباز شریف کو کیسے مینڈیٹ دیں گی جبکہ اندرونی سرد مہری سے لے کر انتشار اور اختلافات کی خبریں اور واقعاتی اشارے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے نواز شریف اور مریم نواز کی برطانیہ سے واپسی پر شہباز شریف استقبال کے لیے ایئر پورٹ پہنچنے کے بجائے شہر کی بھول بھلیوں میں گھومتے یہی بھول گئے کہ وہ اپنے بھائی اور بھتیجی کا استقبال کرنے ایئرپورٹ جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ترجیحات اور موقف میں ان کے تضادات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ ویسے بھی اقتدار کی سیاست میں نہ کوئی بھائی ہوتا ہے نہ کوئی بہن‘ نہ کوئی چچا ہوتا ہے نہ کوئی بھتیجا‘ تاہم یہ تھیوری آج بھی اہم ہے کہ نواز شریف منتقم مزاجی اور شہباز شریف موقع شناسی اور معاملہ فہمی کی سیاست کے قائل ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی شہباز شریف کمفرٹ زون میں آ سکتے تھے لیکن بھائی کی محبت اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے وہ اکثر پیشکشیں رد کرتے رہے۔ شہباز شریف کی مفاہمت اور معاملہ فہمی کی پالیسی انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے تو بچا لائی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز ان کی معاملہ فہمی سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں اپنے بیانیوں کی قیمت وصول کرنے کا مینڈیٹ دیتے ہیں یا اپنی شعلہ بیانیوں اور مزاحمت سے دست برداری کی قیمت خود وصول کرتے ہیں۔ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ بیوروکریسی میں شہباز شریف کی واپسی کا پراپیگنڈا ایک آسیب کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ اس خیال کو جنم دینے کا کریڈٹ حکومت کی طرزِ حکمرانی کو ضرور دینا چاہیے۔ آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حکومت اس بار عامل کے بجائے کسی کامل سے رابطہ کرے تو نجات مل سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں