یہ کیسا خطہ ہے؟ یہ کیسا ملک ہے؟ یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے جہاں بس من مانی ہی من مانی ہے؟ ابھی تو تیز گام کی بوگی نمبر بارہ میں جل کر بھسم ہونے والوں کی روحیں انصاف کے لیے بھٹک رہی تھیں کہ ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ رات کی تاریکی میں نامعلوم مقام پر گھائل ہونے والوں کی فلگ شگاف چیخوں اور آہ و بکا کے ساتھ ہر طرف انسانی خون بکھرا پڑا تھا۔ کہیں جا بجا لاشیں تو کہیں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے انسانی جسم بے یار و مددگار پڑے تھے۔ کسی کو بوگی کاٹ کر نکالا تو کسی کے اعضا پہلے ہی کٹ چکے تھے۔ ہنسی خوشی منزل کی طرف رواں دواں مسافروں کو کیا معلوم تھا کہ وہ ایک ایسی بدقسمت ٹرین کے مسافر ہیں جو انہیں منزل کے بجائے ملک عدم جا پہنچائے گی۔ انصاف کے لیے پہلے سے بھٹکتی روحوں میں مزید 65روحوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ سبھی روحیں عرش معلی پر یہی فریاد کرتی ہوں گی کہ یا باری تعالیٰ! ہمیں کس گناہ کی پاداش میں ان حکمرانوں کی رعایا بنایا تھا؟ زخمیوں کی تعداد اور نوعیت اس قدر تشویشناک ہے کہ بھٹکتی روحوں اضافے کا خدشہ بھی بدستور لاحق ہے۔
انصاف سرکار میں گورننس کے سگنل تو روزِ اوّل سے ہی ناپید ہیں جبکہ میرٹ بھی شارٹ سرکٹ کا شکار چل رہا ہے۔ تیز گام کی بوگی نمبر 12 میں ہولناک آتشزدگی کے سانحہ پر پڑی وقت کی گرد اس نئے اور تازہ ترین حادثے نے اس طرح اڑا ڈالی ہے کہ نہ صرف سبھی زخم ہرے ہو گئے ہیں بلکہ برننگ ٹرین کے سبھی مناظر چشم تصور میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ فرّاٹے بھرتی تیزگام ایکسپریس کراچی سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں تھی کہ رحیم یار خان کے قریب بوگی نمبر 12 میں بھڑکنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ جڑی دیگر بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آسمان کو لپکتے آگ کے شعلوں اور کالے دھویں میں لاچار مسافروں کی چیخوں اور آہ و بکا سے پیدا ہونے والی صورتحال کا قیامت خیز منظر ناقابلِ بیان تھا۔
ٹرین کے اندر اذیت ناک اور یقینی موت دیکھتے ہوئے کتنے ہی مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا دی تھیں جن میں اکثر کی دماغ کی ہڈی فریکچر ہو گئی تھی، کسی کا بازو ٹوٹا تو کسی کی ٹانگ، شدید زخمی حالت میں سبھی ہسپتال میں زیر علاج تھے جبکہ 70 سے زائد بدنصیب مسافر جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ خواتین اور بچوں سمیت 58 مسافروں کی شناخت بھی نہ ہو سکی تھی۔ ان کے علاوہ درجنوں مسافر بری طرح جھلس گئے تھے۔ تحریک انصاف کے اتحادی سیاسی پنڈت اور اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید نے پہلے ہاتھ ہی آتشزدگی کی ہولناک واردات تبلیغی جماعت کے اجتماع پر جانے والوں پر ڈال کر خود کو اور ریلوے انتظامیہ کو بری الذمہ قرار دیا تھا۔ آج بھی حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے بلیم گیم زور شور سے جاری ہے۔ وزیر ریلوے استعفیٰ دینے کے بجائے چوبیس گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ٹرین حادثات میں ہزاروں جانیں ضائع ہونے کے باوجود آج تک نہ کسی ذمہ دار کا تعین کیا جا سکا ہے اور نہ ہی کسی کو نشانِ عبرت بنایا گیا ہے۔ ریلوے کے وسائل پر موجیں مارنے والے وزراء کبھی کانٹا بدلنے والے کو بلی کا بکرا بناتے رہے ہیں تو کبھی پھاٹک والے کو۔ جس ریلوے کی گورننس پھاٹک کھولنے والے اور کانٹا بدلنے والے کے گرد گھومتی ہو وہاں ایسے ہولناک حادثات کے نتیجہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر وزیروں اور مشیروں کا یہ ردعمل کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ انصاف سرکار کے عرصہ اقتدار کے دوران ہونے والے ریلوے حادثات وزیراعظم کے اس ٹویٹ کا آج بھی منہ چڑا رہے ہیں جو 27 اگست 2014ء رات 11 بج کر 42 منٹ پر تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر پر جاری کیا گیا تھا:
''پوری دنیا میں ریلوے کا محض ایک حادثہ ہو جانے پربھی وزیر مستعفی ہو جاتا ہے؛ یہی حقیقی جمہوریت ہے‘‘: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان۔
برسر اقتدار آنے سے پہلے ٹرین حادثات پر وزیر ریلوے کے استعفیٰ کا مطالبہ جس شدت سے کیا کرتے تھے‘ آج وہ شدت نجانے کس سرد خانے میں جا سوئی ہے۔ برسر اقتدار آکر نہ کبھی کسی نے اپنے بیانیے کا پاس رکھا اور نہ ہی کسی نے اپنے دعووں اور وعدوں کا۔ تضاد بیانیوں کے سارے ریکارڈ شب و روز ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ہولناک حادثے پر بھی سیاست برابر کی جا رہی ہے۔ نہ کہیں شرمساری کے آثار ہیں اور نہ ہی کوئی ندامت نظر آتی ہے۔ بس پوائنٹ سکورنگ ہے جو کیے چلے جا رہے ہیں۔ حکومتی وزراء ناحق مارے جانے والوں کی لاشوں پر سیاست پر آمادہ ہیں اور ساری ذمہ داری سابق حکمرانوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ سبھی وزیر اور مشیر تین سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ بلٹ ٹرین کے علاوہ اکثر ممالک کی ٹرینیں جہاز کی رفتار کو مات دیتی نظر آتی ہیں لیکن اس خطہ سیاہ بخت میں علاج معالجہ سے لے کر اشیائے خور ونوش تک‘ ٹرین کے سفر سے لے کر ہوائی سفر تک‘ سبھی کچھ اپنے رسک پر کرنا پڑتا ہے۔ سرکار کی نہ پہلے کوئی ذمہ داری تھی نہ آج کوئی ذمہ داری لینے پر تیار ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے‘ انہیں عوام سے کوئی سروکار ہے نہ عوام کا کوئی درد۔ عوام پر تو بس شوقِ حکمرانی ہی پورا کیا جاتا ہے۔ بوئے سلطانی کے سارے جوہر عوام پر تو آزمائے جاتے ہیں۔ جہاں من مانی ہی طرزِ حکمرانی ہو‘ وہاں کیسی ریاست؟ کون سی گورننس؟ کہا ں کا میرٹ؟ انصاف سرکار کے چیمپئنز جو مطالبات کنٹینرپر کھڑے ہوکر کرتے نہ تھکتے تھے‘ آج ان سبھی مطالبات کی زد میں خود آ چکے ہیں۔
اس سانحے پر دل اس قدر غمگین اور طبیعت اتنی اداس ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں۔ ہر سطر سے خون یوں ٹپک رہا ہوکہ کاغذ بھی لہو سے تر دکھائی دیتا ہو۔ اعراب آبلہ پا ہوں اور پورا کالم سینہ کوبی پر آمادہ ہو۔ برس ہا برس بیت گئے‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل گئے لیکن عوام کی سیاہ بختی جوں کی توں رہی۔ نحوست بال کھولے سو رہی ہے یا سیاہ بختی پاؤں پسارے بیٹھی ہے؟ کیسی نظرِ بد تھی یا نیتِ بد‘ جو ریلوے جیسے دیوہیکل ادارے کو کھا گئی۔ سانحات اور صدمات سے چور یہ محکمہ نجانے کون کون سے راز اپنے اندر لیے بیٹھا ہے۔ کوئی پالیسی کے نام پر تو کوئی گورننس کے نام پر‘ کوئی میرٹ کی آڑ میں تو کوئی من مرضی سے مجبور ہوکراس ریلوے کو رول رہا ہے۔ ایسے میں بدنصیب عوام کی حالتِ زار کیا ہو گی جو دن کے چین اور رات کے سکون کے علاوہ اپنے پیاروں سمیت نجانے کیا کچھ کھو چکے ہیں۔
سانحات اور حادثات پر سخت نوٹس لینے کی روایت کے تحت ہمارے حکمران اس ٹرین حادثے پر نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں۔ سانحات اور حادثات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحات کو حادثہ قرار دینا ہو یا ناخوب کو خوب بنانا‘ کسی کی مجرمانہ غفلت کوعوام کی ماڑی قسمت ثابت کرنے کی روایت برقرار رہے گی۔ اس بار بھی وہی انکوائریاں ہوں گی‘ وہی کمیشن بنیں گے‘ وہی رپورٹیں آئیں گی‘ اور وہی بلی کے بکرے ہوں گے، اور ان بکروں کے عوض ان سبھی پالیسی سازوں اور محفوظ سفر کے ذمہ داران کو اس بار بھی ہمیشہ کی طرح بچا لیا جائے گا۔ کیا وزیر کیا مشیر‘ کیا افسران کیا حکام‘ سبھی ریلوے کے وسائل پر اسی طرح موجیں مارتے رہیں گے۔ فائلوں میں ریلوے ریفارمز بھی ہوں گی‘ انقلابی بیانات بھی جاری کیے جائیں گے‘ تیز رفتار ٹرینوں پر محفوظ سفر کے جھانسے بھی دیے جائیں گے لیکن نہ حادثات رکیں گے نہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ بند ہوگا۔ جب تک ریلوے کو کھانے والے سلامت ہیں عوام کو مرنے سے کون روک سکتا ہے؟ کھانے والے صرف ریلوے کو نہیں کھا رہے‘ یہ سبھی منزل کی طرف رواں دواں جیتے جاگتے اور ہنستے کھیلتے انسانوں کو کھا رہے ہیں۔
ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ برادرم شعیب بن عزیز کی ایک ٹیلی فون کال نے پہلے سے لہو لہو دل کا کام تمام کر ڈالا۔ شعیب بن عزیز بمشکل بس اتنا ہی کہہ پائے کہ ''آصف... نعمان چلا گیا‘‘۔ سب کو روتا چھوڑ کرجانے والا نعمان بن عزیز ہم سب کا ہردل عزیز اور شعیب بن عزیز کا عزیز از جان بھائی اور مقناطیسی کشش رکھنے والا وہ انسان تھا کہ جو اسے ایک بار ملتا‘ اسی کا ہو رہتا۔ اس ٹیلی فون کال کے بعد اس غمزدہ کالم میں غمِ یار بھی شامل ہو چکا ہے۔