ایک اور ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اتر گئی تاہم رفتار کم ہونے کی وجہ سے معجزانہ طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ٹرینوں کا پٹڑی سے اترنا ہمارے ہاں معمول بنتا چلا جا رہا ہے بلکہ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک ہی پٹڑی سے اتر چکا ہے۔ ڈہرکی ٹرین حادثہ کی رپورٹ ایک دن میں جاری کرنے کے دعویدار وزیر نے 9 بلی کے بکرے پیش کرکے فرمان جاری کیا کہ اگر ملتان موٹروے پر چار ارب ڈالر خرچ نہ کیے جاتے تو اس رقم سے ریلوے کی حالت بہتر بنائی جا سکتی تھی۔ یہ بھی بتایا کہ تحقیقات چار ہفتوں میں مکمل ہو گی۔ ٹھیک ہے‘ لیکن ان چار ہفتوں کے دوران ملک و قوم کو اس طرزِ حکمرانی کے نجانے کون کون سے صدمات اٹھانا پڑیں اور ہو سکتا ہے اس عرصے میں یہ سانحہ ماضی کے دیگر سانحات کی طرح وقت کی گرد میں دبتا چلا جائے گا۔ اس سے پیشتر بھی وقت کی گرد نجانے کتنے ہی سانحات کی قبریں بنا چکی ہے۔ ایسے سانحات میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجود حکمرانوں کی لایعنی وضاحتیں اور توجیہات سن کر عوام تو بس اپنے بال ہی نوچ سکتے ہیں۔
وزیر موصوف ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے فرماتے ہیں ''اگر میرے استعفے سے مرنے والوں کی جانیں واپس آ سکتی ہیں تو میں تیار ہوں‘‘۔ بے حسی اور کیا ہوتی ہے؟ ہمارے سوا کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو‘ جہاں کسی بڑے سانحے یا دلخراش واقعہ پر حکمران بس ایک نوٹس لے کر رپورٹ طلب کر لیں۔ ان کا کام نوٹس لینا اور رپورٹ طلب کرنا ہی ہے۔ باقی سب گورکھ دھندہ معمول کے مطابق جاری و ساری رہتا ہے۔ نہ کہیں آسمان گرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے۔ سانحہ ہو یا حادثہ‘ سبھی پر ایک ہی ردعمل‘ وہی نوٹس‘ وہی کمیشن‘ وہی رپورٹیں۔
سیاہ بخت عوام روز ناجانے کتنی بار مرتے ہیں۔ کبھی طرز حکمرانی کے نتیجے میں۔ کبھی عجیب و غریب فیصلوں کے نتیجہ میں۔ مصلحتوں سے مجبوریوں تک‘ بندہ نوازی سے کنبہ پروری تک‘ بوئے سلطانی سے من مانیوں تک‘ عوام قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں نجانے کتنی بار مرتے ہیں۔ عوام ان سانحات پر حکومتی ردعمل کا ماتم کریں یا سینہ کوبی‘ بالوں میں خاک اڑائیں یا گریبان چاک کرکے بیابانوں میں نکل جائیں؟ یہ کیسے لوگ ہیں؟ انہیں نیند بھی آجاتی ہے۔ کھابے بھی اڑاتے ہیں۔ سارا دن شاہانہ تام جھام پہ اترائے بھی پھرتے ہیں۔ عوام کی حالت زار پر نہ ان کے اعصاب شل ہوتے ہیں‘ نہ قدم ڈکمگاتے ہیں‘ نہ ہی رعشہ طاری ہوتا ہے۔ کیا یہ اس طرزِ حکمرانی کا حساب دے پائیں گے؟ گورننس جیسی اس عطا میں خطا کو رب کیسے معاف کرے گا؟ کیا یہ عطا کا حق ادا کر پائے ہیں؟ حکمران ماضی کے ہوں یا دور حاضر کے‘ سبھی رب کی اس عطا کو غالباً اپنی ادا سمجھتے رہے ہیں جبکہ گورننس جیسی عطا میں خطا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ خطا کے باوجود عطا کا برقرار رہنا مہلت کہلاتا ہے۔ اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھانے والے بالآخر خسارے میں ہی رہتے ہیں۔
سدا بادشاہی اللہ کی۔ کیسے کیسے ناگزیر چپ چاپ گزر گئے۔ قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہیں کے دَم قدم سے ہے۔ اپنی اپنی اَناؤں‘ خطاؤں میں گم یہ سارے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا‘ اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ اپنے ہی عوام پر فاتح بن کر حکمرانی کرنے والوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں ہے۔
ایسے حالات کا ماتم کرنے کے لیے نہ صرف الفاظ کا قحط درپیش ہے بلکہ قلم بھی لڑکھڑا رہا ہے۔ سہارے کے لیے ایک فرضی حکایت بطور استعارہ پیش خدمت ہے:کسی زمانے میں کسی ملک کا بادشاہ کافی عرصہ سے بیمار تھا۔ جب بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے ایک عجیب و غریب اعلان کروا دیا کہ میرے مرنے کے بعد میری تدفین سے پہلے جو شخص ایک رات میری قبر میں گزارے گا‘ اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی لیکن کئی بار منادی کروانے کے باوجودکوئی نہ آیا۔ اڑتی اڑتی یہ خبر ملک کے دور دراز علاقے میں ایک مفلوک الحال شخص تک بھی جا پہنچی جس کی کل کائنات ایک جھونپڑی اور ایک گدھا تھا۔ دن بھر وہ گدھے پر وزن لاد کر محنت مزدوری کرتا اور شام ڈھلنے کے بعد جھونپڑی میں پڑا رہتا۔ بادشاہ کا یہ اعلان سن کر اس نے سوچا کہ ساری زندگی فاقہ کشی اور محنت مزدوری میں گزر گئی‘ ایک رات ہی کی تو بات ہے، اس کے بدلے آدھی سلطنت مل گئی تو باقی زندگی عیش و آرام سے گزر سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا۔ دربانوں نے محل میں اطلاع دی کہ ایک شخص آیا ہے اور وہ بادشاہ سلامت کی قبر میں ایک رات گزارنے پر راضی ہے۔ بادشاہ نے اطلاع پاتے ہی اسے اندر بلا لیا۔ اپنے وزیروں سے کہا کہ اسے شاہی مہمان بنا کر رکھا جائے اور میرا انتقال ہوتے ہی اسے میرے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات کیلئے لٹا دیا جائے اور صبح ہوتے ہی اسے قبر سے نکال کر‘ نہلا دھلا کر قیمتی پوشاک پہنائی جائے اور آدھی سلطنت اس کے حوالے کر دی جائے۔ بادشاہ کی روح قبض ہوتے ہی اس کی وصیت کے عین مطابق اس شخص کو قبر میں لٹا دیا گیا۔ رات کے آخری پہر حساب کتاب شروع ہوا تو وہ شخص اٹھ کے بیٹھ گیا اور بولا ''یہ قبر میری نہیں، میں تو یہاں صرف ایک رات کے لیے آیا ہوں، اس قبر کا اصل مکین صبح ہوتے ہی آ جائے گا‘‘۔ جواب ملا کہ اس وقت تو تم ہی موجود ہو حساب تمہیں دینا پڑے گا، وہ جب آئے گا‘ اس کا حساب تب ہو جائے گا۔
خیر! اس کا حساب شروع کیا اور کہا گیا کہ تم نے فلاں وقت اپنے گدھے کو کھانا نہیں دیا تھا لہٰذا تمھیں اس ظلم پر دو سو کوڑے پڑیں گے۔ کوڑے کھا کر ابھی سیدھا ہی ہوا تھا کہ ایک اور مقدمہ تیار تھا کہ فلاں وقت گدھے پر اس کی ہمت سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا تھا۔ زیادہ وزن کی وجہ سے گدھا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہا تھا۔ اس بے رحمی پر تمھیں تین سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ مزید تین سو کوڑے کھانے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اسے کہا گیا کہ ابھی لیٹے رہو، ابھی تمھاری سزا باقی ہے۔ پوچھنے پر اس شخص کو بتایا گیا کہ فلاں وقت طوفانی بارش تھی اور ساری رات گدھا بھیگتا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن تم مزے سے بستر میں سوتے رہے۔ تمھاری سفاکی پر دو سو کوڑے لگیں گے۔ مزید دو سو کوڑے کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہو کر ایک طرف لڑھک گیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ جلد صبح ہو اور وہ قبر سے باہر نکلے۔
صبح ہوتے ہی بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس شخص کو قبر سے نکالنے کے لیے قبر کھولی گئی تو کوڑے کھا کھا کر اس ادھ موے شخص میں بجلی سی کوند گئی۔ باہر نکلتے ہی وہ سرپٹ دوڑ پڑا۔وزرا اور درباری اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاہی دربانوں کو اس کے تعاقب میں دوڑایا گیا جو اسے جلد ہی پکڑ لائے تو وزیروں نے اس شخص سے کہا کہ تم شرط پوری کرکے آدھی سلطنت کے حق دار بن چکے ہو۔ اب تمہارے ٹھاٹ باٹ کے دن آئے ہیں تو تم بھاگ کیوں رہے ہو؟ وہ شخص ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے‘ بس مجھے جانے دو! میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے پایا‘ آدھی سلطنت کا حساب کیسے دوں گا؟
اس طرزِ حکمرانی کا جبر اور عوام کا صبر‘ دونوں ہی آمنے سامنے آ چکے ہیں۔