لگتا ہے قتلِ طفلاں کی منادی ہوچکی ہے شہر میں‘ ہر بچہ یہ فریاد کرتا دکھائی دیتا ہے کہ 'ماں مجھے بھی تو بہا دے مثلِ موسیٰ نہر میں‘۔ حشر کا سماں ہے۔ اسے بربریت کہوں‘ دہشت گردی کہوں‘ سفاکی کہوں‘ کیا کہوں؟ دماغ شل اور آنکھیں پتھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ تصور سے ہی میری تو روح کانپ اٹھی ہے۔ منتوں مرادوں سے مانگا تین سالہ خضر باپ کے ساتھ موٹرسائیکل پرنانی کے گھر سے آرہا تھاکہ نجانے کہاں سے قاتل ڈور آئی اور اس کی شہ رگ پر یو ں پھرگئی کہ اس معصوم کی زندگی کی ڈور ہی کٹ گئی۔ باپ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپنے لخت جگر سے باتیں کرتا ہوا جارہا تھا۔ اسے خبر ہی نہ تھی کہ اس کے جگر کا ٹکڑا اس دنیا میں نہیں رہا۔ اپنی دھن میں مگن ہنسی خوشی جانے والا باپ جانتا ہی نہ تھاکہ اس کی دنیا لٹ چکی ہے۔ اس منحوس خبر نے اعصاب سے لے کر نفسیات تک‘ دل و دماغ سے لے کر ہوش و حواس تک‘ دن کے چین سے لے کر رات کے آرام تک سب کچھ برباد کرڈالا ہے بلکہ ماضی میں ایسے واقعات کے سبھی زخم بھی ہرے کرڈالے ہیں۔
گزشتہ برس انہی دنوں کی بات ہے کہ لاہور کا عمران اپنی فیملی کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ ایک قاتل ڈور آئی اور اس کی معصوم بچی کے گلے پر چھری کی طرح چل گئی۔ خون کا فوارہ اُبلا اور باپ کو اپنے جگر کے ٹکڑے کے خون میں تر کر گیا۔ یہ کوئی پہلا دلخراش واقعہ نہیں‘ یہ پہلی ڈور بھی نہیں جو کسی معصوم کی شہ رگ پر پھری ہو۔ آئے روز ایسے واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں‘ لیکن رسمی افسوس کے بعد پھر دنیا کے جھمیلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے غموں سے نڈھال ہوچکے ہیں لیکن پتنگ سازی سے لے کر پتنگ بازی تک سبھی کردار نجانے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر اس خونیں کاروبار اور کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نہ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے نہ ہی کوئی پکڑنے والا۔ ماضی قریب میں پنجاب کے کئی شہروں میں قاتل ڈور درجنوں بچوں کی روح کا جسم سے رشتہ ختم کرکے آج بھی موت کے سائے کی طرح لہرا رہی ہے۔
یہ کیسا کھیل ہے‘ یہ کیسا شوق ہے‘ اس سے بڑھ کر خون کی ہولی اور کیا ہوگی؟ اسی خونریزی کی وجہ سے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس خونیں کھیل پر پابندی لگادی تھی‘ مگر پابندی کے باوجود پتنگ بازی جاری ہے اور اس سے جڑے سانحات بھی تواتر سے رونما ہوتے چلے آرہے ہیں۔ کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں آئین سے قوانین تک‘ سماجیات سے معاشیات تک‘ اخلاقی قدروں سے لے کر مذہب اور عقائد تک‘ سبھی کو بگاڑنے اور حشر نشر کرنے میں ہمارا کوئی ثانی ہو۔ افسوس ہے ایسے نظام پر‘ ایسی گورننس پر‘ ایسے طرزِ حکمرانی پر‘ ایسے سیاسی بیانات پر‘ ایسے معاشرے اور ایسی اخلاقی قدروں پر۔
ایسے سانحات پر نوٹس بھی لیا جاتا ہے ایک آدھ تھانیدار بھی معطل کردیا جاتا ہے اور پھر ان بچوں کی قبروں کے ساتھ ہی حکومتی اقدامات کی بھی ایک قبر بن جاتی ہے۔ سبھی دعوے‘ سبھی نوٹسز اس قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتے ہیں‘ یعنی ایسے سانحات کی جتنی خبریں اتنی ہی قبریں۔ ان ناحق مارے جانے والوں کا خونِ رائیگاں سمجھنے والوں کو خبر ہوکہ جن مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا‘ جن کے قاتل کیفرِ کردار تک نہیں پہنچتے‘ ان مظلوموں کی فریادیں بارگاہِ الٰہی میں پیش ہو کر دہائی دیتی ہیں۔ تین سالہ خضر ہو یا ماضی میں ناحق مارے جانے والے معصوم بچے‘ سبھی یقینا بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوکر اپنا اپنا مقدمہ درج کروا چکے ہوں گے۔ مقدمات تو زمین پر بھی درج ہوچکے ہیں اور عوام بھی وقتی افسوس کرنے کے بعد اپنے جھمیلوں میں گم ہوچکے ہیں۔ حکومتی ذمہ داران پولیس کوان واقعات کا ذمہ دار قرار دے کر عوام کو اور خود کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں‘ جبکہ ان واقعات کی ذمہ داری صرف پولیس پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
پولیس گلی گلی پھر کر پتنگ بازی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہے؟ یہ صرف انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ سب اپنے اردگرد نظر رکھیں‘ اس جاں لیوا شوق کے سامان کی تیاری سے لے کر پتنگ بازی تک سبھی کچھ تو ہمارے اردگرد ہو رہا ہوتا ہے۔ نہ پتنگ نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوتی ہے اور نہ پتنگ اُڑانے والے نے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی چھت سے پتنگ اُڑائی جائے اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو پتہ نہ چلے کہ فلاں چھت سے پتنگ اُڑائی جا رہی ہے۔ ہمسائے میں اگر کسی کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے یہ سوچ کر ضرور ڈال دینے چاہئیں کہ یہ آگ کہیں میرے گھر تک نہ آن پہنچے۔ اسی طرح پتنگ بازی کی اطلاع ایمرجنسی 15 پر ضرور کرنی چاہیے کہ یہ خونیں ڈور کہیں میرے آنگن میں نہ پھر جائے۔ ویسے بھی پتنگ اُڑانے والے سے کیسی ہمدردی‘ کیسی ہمسائیگی اور کہاں کی وضع داری۔ یہ سبھی کچھ نبھانے والے پتنگ بازوں کے ساتھ اس خونیں کھیل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
پتنگ بازی کو نظرانداز کرنا مجرمانہ غفلت سے ہرگز کم نہیں۔ اس حوالے سے معاشرے میں یہ احساس اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ پتنگ بازی کرنے والا ہمارا کھلا دشمن ہے۔ مساجد‘ تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلانا بھی ضروری ہے کہ جہاں پتنگ بازی ہوتی نظر آئے فوری طور پر پولیس کو اطلاع ضرور کریں تاکہ یہ جاں لیوا شوق مزید قیمتی اور معصوم جانیں لینے کا باعث نہ بنے۔ ایسے واقعات پر پولیس کو موردِ الزام ٹھہرا کر ہم کسی طرح بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ یہ مسئلہ صرف انتظامی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے۔ اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انتظامیہ کا مددگار بننا ہوگا‘ تب کہیں جاکر یہ جاں لیوا کھیل روکا جا سکے گا۔
تاہم ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جس طرح پولیس کو قمار بازی‘ منشیات فروشی اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں کا علم اکثر مخبر سے آجاتا ہے‘ انہی مخبروں کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ خبر پتنگیں اور ڈور بنانے والوں کی بھی لے لیا کریں۔ جس طرح قمار بازی اور منشیات کے اڈوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اسی طرح ان چھپے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بھی انسدادی کارروائیاں کی جائیں تاکہ نہ پتنگ اور ڈور تیار ہو اور نہ ہی کسی چھت سے اُڑائی جا سکے۔ اس جاں لیوا خونیں کھیل کے امکان کو ختم کرنا ہی اصل کام ہے۔ یہ خونیں ڈور گلے پر پھرنے سے پہلے کسی کا نام اور مقام نہیں پوچھتی‘ ہر خاص و عام کو اپنا کردار اس لیے ادا کرنا کہ یہ قاتل ڈور کہیں میرے آنگن میں نہ پھر جائے‘ مگر ہمارا من حیث القوم روّیہ بس یہی ہوتا ہے کہ ؎
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افراد اور اقوام اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے تباہ ہوتے ہیں۔ غیر سنجیدہ‘ بے حس اور دردِ دل سے عاری معاشرہ عذابِ الٰہی کا موجب بنتا ہے۔ کورونا سمیت عذابِ الٰہی کی کتنی ہی تازہ ترین شکلیں ہم صبح و شام دیکھتے ہوئے بھی انجان بنے پھرتے ہیں۔ بے موسمی بارشیں‘ فصلوں کی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک‘ گرانی‘ بدحالی اور مہنگائی کی تباہی کے سواعوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یااللہ رحم... یاخدایا رحم... یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے نمونے ہیں۔ کون سی اصلاحات‘ کون سے اقدامات‘ کیسی پالیسیاں اور کون سی گورننس... جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر ہماری تدبیریں اور تحریکیں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟