جس ملک میں حریم شاہ اور مفتی قوی جیسے ٹاپ ٹرینڈ بن کر اصل مسائل ہی کھا جائیں وہاں مہنگائی‘گورننس‘میرٹ اور عوام کی حالتِ زار کی پروا کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایوان کا تقدس قائم ہے نہ ہی ارکان کو اس مینڈیٹ کا پاس ہے جو دے کر عوام نے انہیں اسمبلیوں میں پہنچایا ہے۔سیاسی منظر نامہ ہو یا قانون کی پاسداری۔اخلاقی اور سماجی قدریں ہوں یا احساس ِذمہ داری‘ہر طرف سرکس کا سماں ہے۔ایسا ایسا آئٹم کھڑکی توڑ ہفتہ لے رہا ہے کہ سب کچھ تہ و بالا دکھائی دیتا ہے۔اشرافیہ سیاسی ہو یا انتظامی‘ سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں ہے کہ عوام کی زندگی اجیرن کرنے کا مقابلہ کون جیتتا ہے؟
بددیانتی صرف مالی ہی نہیں انتظامی بھی ہوتی ہے اور انتظامی بد دیانتی کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قوم ماضی کے حکمرانوں کی مالی اور انتظامی بد اعمالیوں کے خمیازے بھگتتے بھگتتے پہلے کیا کم ہلکان تھی کہ لٹنے اور مٹنے کا یہ سلسلہ کئی اضافوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ ایسے ایسے واقعات اور ایسی ایسی واردات کہ اعصاب شل اور حواس گم ہوجائیں۔ کہیں نیتِ بد بال کھولے سو رہی ہے تو کہیں اعمالِ بد پائوں پسارے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف خوف کے سائے اور بے یقینی کے ڈیرے ہیں۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ کہیں احتساب کے نام پر اپنے اپنے عزائم اور ایجنڈے ہیں تو کہیں گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہے۔ سربراہ حکومت سے لے کر مشیروں اور وزیروں سمیت سرکاری بابوئوں تک زبانی جمع خرچ کے ساتھ بس الفاظ کا گورکھ دھندہ جاری ہے۔ ایسے پریشان کن حالات ہیں کہ الفاظ کے قحط کا سامنا ہے۔ اظہار محال ہے۔
حکمران کوئی مسیحا اور اس کے پاس کوئی کرشمہ نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کر دے۔ اس کی خصوصیت بس مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ وژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔ مُردوں کو بھلے زندہ نہ کرسکے لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے مگر بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ہمارے حکمران‘ ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے بلکہ ان خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کُل نہیں۔ جہاں حکمران عوام کے جذبات کو سمجھنے سے عاری اور زمینی حقائق تسلیم کرنے سے انکاری ہوں وہاں ایسے افسوسناک پرتشدد واقعات کا آئے روز رونما ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
مخلوق کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے اور یہ اعزاز قدرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ ربِّ کائنات یہ اعزاز انہی بندوں کو عطا کرتا ہے جنہیں وہ اس کام کیلئے منتخب کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے‘ وہاں اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کو بھی قدرت نے گورننس کے یکے بعد دیگرے کئی مواقع عطا کیے۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں ہوتی اور خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دینے پر آمادہ ہے اور اس مہلت کو غنیمت اور نعمت سمجھ کر اپنے طرزِ حکمرانی اور معاملات پر نظرِثانی کرتے رہنا چاہیے۔ کہیں کوئی بھول چوک یا خطا سرزد تو نہیں ہوگئی؟ جس مقصد کیلئے انہیں قدرت نے منتخب کیا ہے وہ مقصد کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب رہے؟
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے ہی سے منسوب کر ڈالا‘ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی اداکاری کا چمتکار ہے‘ حالانکہ گورننس کی عطا نہ تو کسی کی مہارت ہے اور نہ ہی کسی کی اہلیت۔ یہ تو بس قدرت کا خاص انعام ہے۔ وہ جس کو بھی عطا کرے۔ خطا در خطا کے باوجود مہلت کا میسر رہنا یقینا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ ہمارے سبھی حکمرانوں کو یہ عطا اور مسلسل مہلت کثرت سے میسر آتی رہی ہے۔ جوں جوں یہ مواقع انہیں میسر آتے رہے‘ توں توں یہ بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ کبھی جُھرلو تو کبھی دھاندلی۔ کبھی ڈنڈی تو کبھی ڈنڈا۔ کبھی صفائی تو کبھی صفایا‘ حتیٰ کہ '' بیلٹ‘‘ کو'' بُلٹ‘‘ سے منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ حصولِ اقتدار سے لے کرطولِ اقتدار تک‘ یہ سبھی نظارے چشمِ فلک نے کثرت سے دیکھے ہیں۔
عوام کی حالتِ زار اور طرزِ حکمرانی کا ماتم نصف سے زائد کالم کھا چکا ہے اور قارئین بھی یقینا الجھن کا شکار ہوں گے کہ یہ رونا دھونا تو اب معمول بن چکا ہے‘اصل مدعا ہے کیاجس کے لیے اتنی طویل تمہید باندھی گئی۔حیرانی اور پریشانی جتنی زیادہ ہو گی وضاحت کے لیے تمہید بھی اتنی ہی طویل ہوتی ہے۔نجانے کون سے عوامل اور عناصر ہیں جنہوں نے پرویز الٰہی جیسی شخصیت کو بھی بالآخران کی روایات کے ٹریک سے اُتار ہی ڈالا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کو گمراہ کرنے والا کوئی سرکاری بابو ہو یا استحقاق زدہ ارکانِ اسمبلی‘ دونوں ہی پرویز الٰہی کو مشکل ترین آزمائشوں سے دوچار کرنے والے ہیں۔آئیے ان وارداتوں کاجائزہ لیتے ہیں جوتحفظِ ممبران استحقاق بل کے نام پرپنجاب اسمبلی سے منظور کروالیا گیا ہے۔ایجنڈے سے ہٹ کر منظور کروائے گئے اس بل میں بیورو کریسی اور صحافیوں کو نکیل ڈالنے کا ایک جامع پلان تیار کیاگیا ہے جس کے تحت پنجاب اسمبلی کو نہ صرف عدالتی اختیارات مل چکے ہیں بلکہ ارکانِ اسمبلی پر مشتمل جوڈیشل کمیٹی صحافیوں اور سرکاری افسران کو دس ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا بھی دے سکتی ہے۔اس کمیٹی کو سیمی ٹرائل اور درجہ اول مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔جہاں صحافیوں کو حقائق سے پردہ اٹھانے اور آزادانہ رپورٹنگ کرنے پران سزائوں کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں سرکاری افسران پر بھی ارکانِ اسمبلی کی منشا اور خواہشات سے متصادم رویہ اختیار کرنے پرسزائوں کا اطلاق ہوگا۔
کوئی صحافی ان دودھ کے دھلے ارکانِ اسمبلی سے تند و تیز سوالات اور جرح نہیں کرسکے گااور نہ ہی اسمبلی میں لگنے والے اکھاڑے کی من عن رپورٹنگ کی اجازت ہوگی جبکہ کسی صحافی یا سرکاری افسر کی طرف سے رکن اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنا قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا۔الغرض اس بل کے تحت صحافی صرف گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق ہی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے کا پابند ہوگا۔ایوان میں مارکٹائی‘ دھینگا مشتی‘ گالم گلوچ اور غلیظ جملوں کے تبادلے کی خبر ارکانِ اسمبلی کااستحقاق مجروح کرنے کا باعث اور قابل سزا تصور ہوگی۔مزے کی بات یہ کہ اس بل کی منظوری میں کیا حلیف کیا حریف‘جمہوریت کے سبھی نام نہاد چیمپئنز شاد اں اور نازاں ہیں کہ انہوں نے اپنی دفاعی لائن اس قدر مضبوط کرلی ہے کہ اب وہ ایوان کے اندر ہر رنگ کے گُل کھِلا سکتے ہیں۔تعجب ہے کہ پرویز الٰہی جیسا منجھا ہوا اور زیرک سیاستدان کیسے اس جھانسے میں آگیا کہ عوام کے حقوق سے بے نیاز ارکانِ اسمبلی کا استحقاق بل آزادی صحافت کو سلب کرکے بیوروکریسی کے جن کو بوتل میں بند کرسکتا ہے۔ماضی میں ایسے بل لانے والے اکثر بلبلاتے ہی دیکھے گئے ہیں؛ تاہم مفت مشورہ پیش خدمت ہے کہ کلرکوں کو اوپر تلے گریڈوں سے لاد کرافسر تو بنایا جاسکتا ہے لیکن وژن اور تدبر کہیں دکانوں پر نہیں بکتا کہ خرید کے انہیں دے دیا جائے۔ایسے دماغوں اور ایسے دیوانوں سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔ایسے جاں نثار اکثر جان کا روگ ہی بنتے دیکھے گئے ہیں‘ہماری سیاسی تاریخ ایسے جاں نثاروں سے بھری پڑی ہے۔یہ کالا بل سیاہ کاریوں اورکالے کرتوتوں کی ڈھال ہرگز نہیں بن سکتا۔چوہدری پرویز الٰہی صاحب! آپ کوایسے مصاحبین اور ایسے جاں نثاروں سے بچ کی ہی آپ اپنی اعلیٰ سیاسی روایات کو بچا سکتے ہیں۔چوہدری صاحب ہوشیار باش!