بجلی کے بلوں سے بلبلائے عوام اب غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے تلملانے پر مجبور ہیں۔یہ کیسا دھندہ ہے کہ پاور کمپنیاں اپنی سروسز کی قیمت تو عوام سے پوری اور من چاہی وصول کررہی ہیں لیکن بجلی ترسا ترسا کر دیتی ہیں۔حقوقِ صارفین کے تحت تمام پاور کمپنیاں عوام کو بلا تعطل وہ سروسز فراہم کرنے کی قانونی اور اخلاقی طور پر پابند ہیں جس کی قیمت وہ گلے پر انگوٹھا رکھ کروصول کررہی ہیں۔قیمت (بل) کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں نہ صرف جرمانہ وصول کیا جاتا ہے بلکہ کنکشن بھی منقطع کرکے حقوقِ صارفین کی نفی کی جاتی ہے۔اس پر ستم یہ کہ جرمانے کے ساتھ وصولی کے باوجود منقطع کنکشن کو دوبارہ لگانے کے لیے مٹھی گرم کرنے کے علاوہ سرکاری فیس بھی وصول کی جاتی ہے‘ جبکہ کنکشن کے حصول کی درخواست کے ساتھ مالی سکیورٹی اورمیٹر کی قیمت کا بوجھ بھی صارف کی جیب پر ہی ہوتا ہے۔ان سبھی ادائیگیوں کے باوجود سبھی پاور کمپنیاں صارفین کو مطلوبہ سروسز دینے میں نہ صرف مسلسل ناکام چلی آرہی ہیں بلکہ دن کا چین اور رات کی نیند بھی برباد کیے ہوئے ہیں۔ مہنگی بجلی خریدنے والے صارفین طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اعصابی اور نفسیاتی دبائو کی وجہ سے چڑچڑے ہو چکے ہیں۔
حقوقِ صارفین انسانی حقوق کا حصہ ہونے کے باوجود اس معاملے میں ایوانِ اقتدار سے لے کر انسانی حقوق کے علمبرداروں تک سبھی مصلحتوں اور مجبوریوں کی چادر تانے بے حسی کی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں۔حقوق انسانی کے چیمپئن ان حقوق پر لیکچر دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے‘ وہ حقوق کے لیے آواز اٹھاتے اکثر نظر آتے ہیں مگر ان لوگوں سے میرا ایک ہی اختلاف ہے کہ انسانی حقوق تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں آپ لوگ ایک بے حس معاشرے میں انسانوں کے کون سے حقوق کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں؟ جس معاشرے میں دادرسی اور انصاف خواب بن جائیں‘ مظلوموں کو دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہو‘ ان پر ٹوٹنے والی قیامتوں کے مقدمات ریاست کے بجائے آسمانوں پر درج ہوتے ہوں وہاں کہاں کے انسان اور کون سے حقوق؟ پہلے انسان سازی تو کر لو پھر انسانی حقوق کی بات کرنا۔
ماہرین انرجی سیکٹر میں ہونے والے وسیع پیمانے پر گھپلوں اور گھٹالوں کی مسلسل نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں۔کاش یہ اندیشے اور وسوسے غلط ثابت ہوجاتے۔کاش اٹھائے گئے سوالات محض سوالات ہی رہتے۔جوں جوں ان کے جواب آرہے ہیں سبھی بھید کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ایسا اندھیر مچایا جاچکا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم نجانے کون سی بریفنگ یا ڈی بریفنگ کے سحر میں ہیں۔گویا
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آنے والے دنوں میں عوام پر یہ عقدہ بھی کھل کر ہی رہے گا کہ پاور سیکٹر کے معاونِ خصوصی کے دل میں پاکستانیت کا درد ایک خاص مقصد کے تحت اٹھا ہے۔ کے الیکٹرک کی تباہی کے بعد اب یہ چیمپئن پہلے سے بھلی چنگی اور منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں گھات لگا چکے ہیں مبینہ طور پر آنے والے وقت میں لیسکو‘ آئیسکو اور فیسکو میں اُدھم مچانے کی تیاریاں کی جاری ہیں۔ پاور سیکٹر کے ٹائیکون عارف نقوی کا ان سبھی چیمپئنز کے ساتھ کیا لینا دینا اور کیا انڈرسٹینڈنگ ہے‘ امریکہ میں منی لانڈرنگ اور دیگر بدعنوانیوں میں ان پر کیوں مقدمات درج ہیں؟ برطانیہ کی جانب سے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کی باتیں کیوں سامنے آئیں؟ یہ وہ حقیقتیں بلکہ خطرات ہیں جن سے ہر دردِ دل رکھنے والا پاکستانی پریشان اور مایوس نظر آتا ہے۔ خدا جانے لوگوں نے وزیراعظم کو کون سے سبز باغ دکھائے ہیں کہ وہ ان پر اس حد تک اعتبار کر بیٹھے ہیں۔کیا آنے والے وقتوں میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے پاور سیکٹر بہت بڑا سوالیہ نشان بننے جارہا ہے؟پاور سیکٹر کے اندرونی حالات اور معاملات سے باخبر اور معتبر شخصیت نے دردمندی کے ساتھ کچھ انکشافات پر مبنی ایک پیغام بھیجا جس میں پاور سیکٹر کو درپیش بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ حکومت کے پاس وسائل بھی ہیں اور اختیارات بھی‘ کسی بھی ذمہ دار ایجنسی سے ان معلومات کی تحقیقات کروالینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر یہ سبھی کچھ ثابت ہوجائے تو اختیارات استعمال کرنا بھی بہرحال حکومت کی ہی صوابدید ہے۔تاہم ایسے حالات میں اختیارات استعمال کرنے کی روایت کم ہی پائی جاتی ہے۔پاور سیکٹر کے مذکورہ ماہر نے اپنے پیغام میں نشاندہی کی تھی کہ قادر پور گیس فیلڈ مرمت کی وجہ سے جزوی طور پر بند ہے۔ اس دوران جب تربیلا ڈیڈ لیول پر تھا‘ملک میں آر ایل این جی گیس کی قلت تھی‘ اینگرو ری گیسی فکیشن پلانٹ کو بھی مرمتی کام کے لیے بند کیا جانا ضروری تھا‘ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے فرنس آئل کی اضافی ضرورت تھی مگر اس منصوبے کو رد کرنے کا الزام بھی وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی پر عائد کیا جارہا ہے۔
سابق حکمرانوں کو لے کر پاور سیکٹر کے حوالے سے جن معاہدوں اور وارداتوں پر تحریکِ انصاف صبح شام تنقید کے نشتر برسایا کرتی تھی میرے اندازے کے مطابق ان سبھی وارداتوں کے ریکارڈ ٹوٹنے جا رہے ہیں۔ اگر بروقت ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو ہمیں نہ صرف پچھتانے کا وقت بھی نہیں ملے گا بلکہ سستی بجلی کا وعدہ بھی جھانسا بن کر رہ جائے گا۔ پاور سیکٹر کی بہترین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اونے پونے خریدنے کے لیے ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن لوگوں کو پلانٹ کیا جاچکا ہے ان کا ٹریک ریکارڈ اور شہرت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس حوالے سے حکومت سمیت تمام مقتدر اداروں کو ضرور توجہ کرنی چاہیے کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں پاور سیکٹر کا کیا حشر نشر ہو سکتا ہے۔منافع بخش ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر گھات لگائے بیٹھے کیا حالات پیدا کرنے جارہے ہیں اور مطلوبہ حالات کے اسباب پیدا کرنے میں کون کون سرگرمِ عمل ہے؟ منافع بخش الیکٹرک کمپنیوں میں کے الیکٹرک برباد کرنے والوں کے عمل دخل کو قومی سلامتی کے تناظر میں بھی دیکھ لینا چاہیے۔پاور سیکٹر ہر دور میں مال بنانے اور مال کھلانے والوں کی محفوظ شکار گاہ رہی ہے۔ ایسے ایسے معاہدے گلے کا طوق بنتے چلے گئے گویا ؎
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
حکمران ماضی کے ہوں یا دور ِحاضر کے‘ان کا اگرموازنہ کیا جائے توسبھی ایک دوسرے کا ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں۔ کوئے اقتدار میں منتخب نمائندے ہوں یا غیرمنتخب شریک اقتدار اور بابو‘ سبھی کا یہ عالم ہے کہ کوئی سیر ہے تو‘ کوئی سوا سیر‘ نہ عوام کسی کا مسئلہ ہیں اور نہ ہی عوام کے مسائل سے کسی کوسروکار۔اپنے اپنے ایجنڈے پر سبھی گامزن نظر آتے ہیں۔ہر نیا دور اور ہر نیا حکمران عوام کیلئے کچھ کرے نہ کرے اس کی ذلت اور مصائب میں اضافہ ضرور کر جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام اچھے دنوں کی تلاش میں بد سے بدتر حالات سے دوچار ہوتے چلے جائیں وہاں کیسی گورننس‘ کہاں کی حکمرانی؟ ہر دور کی طرزِ حکمرانی نے عوام کو کب نہیں لوٹا؟ خوابوں کی تعبیر لوٹنے سے لے کر دن کا چین اور رات کی نیند لوٹنے تک‘ وسائل کی بندربانٹ سے لے کر ملک و قوم کے خزانے پہ ہاتھ صاف کرنے تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے۔پاور سیکٹر میں بھید کھلنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ا رادوں سے لے کر نیت اور اعمال تک‘ سب بے نقاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آئندہ کالم میں مزید اعمالِ بد پر بات کریں گے۔