"AAC" (space) message & send to 7575

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

کاش ایسا ہوتا کہ عوامی نمائندے عوام کے استحقاق کیلئے اکٹھے ہوئے ہوتے۔ ان عوام کیلئے آواز اٹھائی ہوتی جو اِن کے دعووں اور وعدوں میں آ کر ہر بار مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی ہو یا شہری سہولیات‘ ان سبھی سے بے نیاز عوامی نمائندوں کو عوام کی حالتِ زار پر تو کبھی رحم نہ آیا۔ اپنے ضمیر پر کیسا کیسا بوجھ اٹھائے ہائوس میں سج دھج کر آ بیٹھتے ہیں۔ عوام سے وعدہ خلافیوں اور بد عہدیوں میں ڈوبے ہر دور میں صرف اپنے ہی بت کی پرستش کرتے ہیں۔ انکی لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا دیگر سکینڈل‘ یہ انہیں اپنا استحقاق سمجھ کر نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں۔ لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا ایوان کے اندر بیٹھ کر اپنی دنیا سنوارنے کی دھن‘ سیاسی سرکس میں قلابازیاں ہوں یا ایوان میں لگا اکھاڑا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو یا دست و گریباں ہونے کے واقعات۔ دشنام طرازی ہو یا تند و تیز جملوں کا تبادلہ۔ الغرض عوامی مسائل سے بے نیازی کے سبھی مناظر کو قانونی تحفظ دینے کیلئے‘ کیا حلیف کیا حریف‘ سبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مفادات کے جھنڈے تلے ایک بار پھر اکٹھے نظر آتے ہیں۔
تحفظِ استحقاقِ بل پاس کروانے کے بعد عوامی نمائندے نجانے کس گمان میں ہیں کہ اب ان کے حمام میں جھانکنے والے کو سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ غالباً کسی بھول میں ہیں کہ تاریخ گواہ ہے لوگوں نے ایسے کئی بل پاس کروانے والوں کو بلبلانے پر مجبور کیے رکھا ہے۔ ضیاالحق کی سنسرشپ سے لے کر کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے تک ان گنت تمغے بھی صحافی برادری کے سینوں پر چمک رہے ہیں۔ اسی طرح مشرف دور میں میڈیا ہائوسز پر پابندیاں اور ریاستی دبائو بھی کوئی پرانی بات نہیں تھی۔ نواز شریف کا دور ہو یا بے نظیر بھٹو کا‘ پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا‘ سبھی نے طرزِ حکمرانی پر مثبت تنقید کو پرسنل اٹیک تصور کیا اور جواباً ان حکمرانوں نے ہر دور میں صحافتی اداروں سے لے کر کارکنوں تک کو جبر کا نشانہ بنائے رکھا ہے۔
تعجب ہے کہ چودھری برادران کی معاملہ فہمی‘ صلح جوئی اور افہام و تفہیم کی سیاست کہاں گئی؟ سپیکر صاحب کی اس بل پر مسلسل خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لگتا ہے اپنے ہاتھوں بھرتی کیا گیا واجبی تعلیم کا حامل ایک کلرک ان کے لیے آسانیوں کے بجائے آزمائشوں کے ڈھیر لگائے چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسمبلی کا ایک اور افسر اپنے بیٹے کو گریڈ 17 میں خلافِ ضابطہ بھرتی کر کے میرٹ پسندی کو چار چاند لگا چکا ہے۔ اس خلافِ ضابطہ بھرتی کی خبر چلانے والے قلم اور کیمروں کی جبر کے نتیجے میں روزگار سے محرومی کا کریڈٹ بھی اسمبلی سیکرٹریٹ کو ہی جاتا ہے۔
90ء کی دہائی کے اوائل میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی سکینڈل میں عوام کی جمع پونجیوں پر دن رات ہاتھ صاف کرنے والے کچھ لوگ اُس وقت بھی اسمبلیوں میں تھے اور آج بھی اسمبلیوں میں براجمان ہیں۔ یہ کس منہ سے ارکان کے استحقاق کی بات کرتے ہیں؟ کوآپریٹو سکینڈل کے ذمہ داران کی وجہ سے کسی کا بڑھاپا رُل گیا تو کسی کی بیٹیاں بالوں کی چاندی لیے بے بسی کی تصویر بن گئیں۔ کسی کا علاج موت بن گیا تو کسی کی جوان اولاد رُل گئی۔ کسی کا گھر بکا تو کوئی خود بکنے پر مجبور ہو گیا۔ ایسا اندھیر مچایا گیا کہ کروڑوں کے کلیم کوڑیوں کے بھائو خرید کر عوام کی دنیا اجاڑنے کے بعد اپنی دنیا سنوارنے والے کون سے استحقاق کی بات کرتے ہیں؟ یہ کالا قانون صحافیوں اور سرکاری افسران کے لیے نہیں بلکہ عوام الناس پر بھی لاگو ہو گا۔ وہ عوام الناس جنہوں نے اپنے منتخب نمائندوں کو مینڈیٹ دے کر خود پر حکمرانی کے شوق پورے کرنے کیلئے ایوان میں بھیجا۔ استحقاق زدہ عوامی نمائندوں نے عوام کو کچھ تو لوٹانا ہی تھا‘ ان کے نصیب کی دھتکار اور پھٹکار کے ساتھ ذلت اور رسوائی میں کئی گنا اضافے کے ساتھ مینڈیٹ کا قرض تو چکانا بنتا ہی تھا۔ گویا عزت کے بدلے ذلت‘ اعتماد کے بدلے دھوکا‘ امید کے بدلے مایوسی‘ خوشحالی کے بدلے بد حالی‘ روٹی کے بدلے بھوک‘ چھت کے بدلے بے سروسامانی‘ امن و امان کے بدلے خوف اور عدم تحفظ‘ انصاف کے بدلے غیظ و غضب‘ داد رسی کے بدلے در در کی ٹھوکریں‘ علاج معالجہ کے بدلے کسمپرسی کی موت‘ تعلیم کے بدلے جہالت‘ سبھی کچھ تو یہ رہنما عوام کو لوٹا رہے ہیں‘ اور وہ اپنے عوام کیلئے کیا کریں؟ عوام کیلئے اتنا کچھ کرنے کے بعد سرکاری وسائل کو لوٹنے اور ملک و قوم کی دولت پر کنبہ پروری اور اقربا پروری کے علاوہ جائیدادیں اور انسانی سمگلنگ جیسے دھندوں کا استحقاق بھی کچھ لوگوں کا خاصہ رہا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح بھی انہی سے منسوب ہے جبکہ گردن اور کھال بچانے کیلئے عوام کا دیا گیا مینڈیٹ بیچ کر وفاداریاں اور پارٹیاں تبدیل کرنا بھی انہی کا شیوہ رہا ہے۔ بوئے سلطانی کی خاطر کنگ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی فہرست اور داستان اتنی طویل ہے کہ ایسے کئی کالم ناکافی ہوں گے۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ساڑھے پانچ ارب سے زائد کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والی پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کے معیار پر اٹھائے جانے والے سوالات کا معمہ بھی آج نہیں تو کل ضرور حل ہو گا۔ نئی عمارت کے نقائص اور ارکان کی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافیوں کا داخلہ تا حال بند ہے۔ انتہائی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کالے قانون میں عوام سے اس احتجاج کا حق بھی چھین لیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ سماجی نا انصافی اور ظلم و جبر کے علاوہ طرزِ حکمرانی کی شکایت اور اپنے نمائندوں کے سامنے خود پر ٹوٹنے والی قیامت کی داستان بیان کیا کرتے تھے۔ ایسا احتجاج بھی قابلِ سزا جرم قرار دے دیا جائے گا جس کے بعد عوام الناس اپنے نمائندوں کے ایوان کے ارد گرد بھی نہیں پھٹک سکیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ اپنے محبوب عوامی نمائندوں کا استحقاق مجروح کرنے کے مرتکب تصور کیے جائیں گے اور سزا اور جرمانے کے مستحق قرار پائیں گے۔ مسودہ قانون کے تحت عوام الناس پر اپنے نمائندوں سے بد عہدی اور وعدہ خلافی کی وجہ پوچھنے پر بھی سخت ممانعت ہو گی۔ عوامی نمائندے سے سوال پوچھنے اور تکرار کرنے پر بھی استحقاق کا قانون حرکت میں آ جائے گا اور ایسی حرکت کا مرتکب بھی سزا و جرمانہ کا حق دار ہو سکتا ہے۔ ایسے میں یہ شعر بجا طور پر حسب حال ہے کہ
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
صحافیوں کے قلم اور کیمرے پر قدغن لگانے کے خواہش مند ارکان کی شدید خواہش یہ بھی ہے کہ تعاون نہ کرنے والے سرکاری افسران کو بھی اس کالے قانون کے تحت نکیل ڈالی جا سکے۔ کوئی صحافی ان دودھ کے دھلے عوامی نمائندگان سے تند و تیز سوالات اور جرح نہیں کر سکے گا اور نہ ہی اسمبلی میں لگنے والے اکھاڑے کی من و عن رپورٹنگ کی اجازت ہو گی جبکہ کسی صحافی یا سرکاری افسر کی طرف سے رکنِ اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنا قابلِ سزا جرم تصور کیا جائے گا۔ الغرض بل کے تحت صحافی صرف گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق ہی کارروائی کی رپورٹنگ کر سکے گا۔ ایوان میں مارکٹائی‘ دھینگا مشتی‘ گالی گلوچ اور غلیظ جملوں کے تبادلے کی خبر ارکانِ اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے کے مترادف اور قابلِ سزا تصور ہو گی۔ چلتے چلتے نئے بل کا ایک اور نکتہ بھی شیئر کرتا چلوں کہ اسمبلی کے اندر ارکان اور سرکاری بابوئوں کے علاوہ انکے تمام خدمت گاروں کو بھی اس قانون کا تحفظ حاصل ہو گا۔ کیا صحافی‘ کیا سرکاری افسر اور کیا عوام الناس‘ کسی کی کیا مجال کہ منہ سے کوئی ایسی بات نکال سکے جو ارکانِ اسمبلی کی خدمت پر مامور خدمت گاروں کو ناگوار گزرے‘ ایسی صورت میں سزا اور جرمانے کا قانون حرکت میں آ جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ ایسا کوئی کالم بھی ارکانِ اسمبلی اور ایوان کی صدارت کے سنگھاسن پر بیٹھے سپیکر کا استحقاق مجروح کرنے کا مرتکب قرار پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں