دل دریا سمندروں ڈونگھے‘ کون دلاں دیاں جانے ہُو۔ حضرت سلطان باہوؒ کے صوفیانہ کلام سے میرا تعلق ہمیشہ ہی ناسٹیلجک رہا ہے۔ اس کلام کی تہہ در تہہ گہرائیوں کا کوئی انت ہی نہیں لیکن چند دن پہلے ایک نئی جہت آشکار ہوئی کہ جدید دنیاوی علوم بھی کسی صوفیانہ کلام سے ہرگز کم نہیں۔ کرہ ٔارض پر کوئی علم ایسا نہیں جس میں دین کی حکمت اور تعلیمات کی جھلک نظر نہ آتی ہو۔اس تمہید کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ ابھی چند روز پہلے حضرت سلطان باہو کے کلام کا ایک اور پہلو آشکار ہوا۔ دل دریا ہو یا سمندر۔ لق و دق صحرا ہویا گھنا جنگل۔ دلوں کا حال جاننے والے نجانے کون کون سے روپ میں نہ صرف دلوں کا حال بتا رہے ہیں بلکہ ایسے ایسے بھید بھی آشکار کیے چلے جارہے ہیں جو رہتی دنیا تک انہیں زندہ اور جاوید رکھیں گے۔
معمول کے مطابق ہر صبح کی طرح گھر سے نکلنے کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک میری بڑی بیٹی ضحی نے نوٹ کروایا کہ بابا آپ کی آنکھ خاصی سرخ ہورہی ہے ۔میں نے اسکی بات کو سرسری طور پر سنا اور اپنی روٹین کے مطابق گھر سے روانہ ہوگیا۔ دن بھر کے جھمیلوں اور کام کاج میں نہ بیٹی کی بات یاد رہی نہ آنکھ کی سرخی کا احساس ہوا‘تاہم سر بھاری اور بوجھل ہونے کے ساتھ اعصابی تھکن کا احساس ضرور تھا جس کو نہ کبھی پہلے خاطر میں لایا اور نہ ہی اُس روز۔ رات کو بیگم صاحبہ کا فون آیا کہ ہم باجی (میری ہمشیرہ) کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ آفس سے فارغ ہوکر وہیں آجائیے گا۔
کوئی اور معاملہ ہوتا تو شاید ٹال مٹول سے کام لے کر گول کرجاتا لیکن بیگم اور بچوں کو میری اس کمزوری کا بخوبی اندازہ ہے کہ میری بہنیں کم اورکمزوری زیادہ ہیں‘ اس لیے رات کتنی بھی دیر ہو جائے پہنچوں گا ضرور؛ تاہم رات بارہ بجے کے لگ بھگ پہنچا تو بھانجے حمزہ عظیم نے دیکھتے ہی انتہائی تشویش سے کہاکہ ماموں آپ کی آنکھ میں اچھا خاصا خون آچکا ہے‘ جس پر نہ صرف سارا گھر اکٹھا ہوگیا بلکہ فوری طور پر ہسپتال چلنے کا اصراربھی بڑھتا چلا گیا۔ بھانجی آمنہ دوڑ کر بی پی آپریٹس اٹھا لائی اور بلڈ پریشر چیک کیا تو معلوم ہوا کہ فشارِ خون کی بلندیاں تو ہمالیہ سے مقابلے پر آمادہ ہیں۔ تشویشناک بلڈ پریشر نے اچھے خاصے خوشگوار ماحول کو نہ صرف پریشان کن حالات میں بدل دیا بلکہ آنکھ میں 'اترنے‘ والے خون نے سبھی کوہلا کر رکھ دیا۔
فوری طور پر برادر عزیز زاہد چوہدری کو آنکھ کی تصویریں اور بلڈ پریشر شیئر کیا تو اس کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ فوری طور پر طے یہ پایا کہ ایمرجنسی ریسکیو کے ذریعے فشار ِخون کونیچے لانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ جیسے تیسے رات گزری تو صبح اٹھتے ہی برادر عزیز کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر عامر بندیشہ کے سامنے بیٹھا تھا ۔ انہوں نے پہلے تو آنکھ میں اترنے والے خون پر اپنے روایتی جملے چست کیے پھر معائنہ کرنے کے بعد انتہائی سنجیدگی سے بولے :یہ اپنے ساتھ کیا کررہے ہو؟ جو ں جوں وہ میرے دل کاحال اور ممکنہ خدشات سے آگاہ کررہے تھے نجانے کیوں حضرت سلطان باہوؒ کا یہ مصرع بے اختیار میری زبان پرآگیا: دل دریا سمندروں ڈونگھے‘کون دلاں دیاں جانے ہو۔ جس پر ڈاکٹر بندیشہ بولے: اس بھول میں نہ رہنا کہ ہم تمہارے دل کا حال نہیں جانتے۔ ہم تمہارے دل کا وہ حال بھی جانتے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ اب مزید غفلت اور کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ درجن بھر تشخیصی ٹیسٹ لکھتے ہوئے کہا کہ فوری ٹیسٹ کرائو اور فی الحال کچھ ادویات تجویز کررہا ہوں انہیں فوری شروع کردو۔رپورٹس آنے کے بعد نہ صرف باقاعدہ نسخہ تجویز کروں گا اور سی ٹی اینجیو(CT Angio) بھی کروں گاتاکہ ایشوز رول آئوٹ کیے جاسکیں۔چلتے چلتے سختی سے ایک تاکید بھی کہ کھابہ گیری اور محفلِ یاراں میں زبان کے چسکے اور بدپرہیزی بھی فوری طور پر بند کرنا ہوگی۔الغرض ہم ساری عمر اسی مغالطے میں رہے کہ کون دلاں دیاں جانے‘لیکن برادر عامر بندیشہ نے تو سارے مغالطے ہی رد کردیے۔انہوں نے میرے دل کے بارے میں جو تحفظات اور پیش گوئیاں کیں ان سبھی پر تشویشی رپورٹوں نے نہ صرف تصدیق کی مہر ثبت کردی بلکہ مجھے بلا چون و چرا یہ بھی تسلیم کرنا پڑ گیا کہ جس عامر بندیشہ کو ہم بس ایک کارڈیالوجسٹ سمجھتے رہے وہ ہماری محفلوں کی جان ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل اور اندرونی معاملات کے بارے میں وہ سب جانتا ہے جس کا ہمیںگمان بھی نہیں۔دل بھلے سمندروں ڈونگھا ہی کیوں نہ ہو لیکن جاننے والوں کے علم سے گہرا ہرگز نہیں۔ تشخیصی رپورٹس کیا آئیں کیادوست احباب ‘بہن بھائی‘سبھی فکر مندی کی تصویر بن کررہ گئے۔برادر محترم حسن نثار پر تو ویسے ہی ایسی خبروں پر ناسٹیلجیا کا غلبہ مزیدغالب آجاتا ہے۔ محبت بھری فکرمندی میں لپٹی ٹیلی فونک کال پر سراپا احتجاج تھے کہ مجھے کیوں نہیں بتایا؟ اب مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ خبر مجھے ابن صحرا سے کیوں پتا لگی؟ اسی طرح یاسین خان الگ ناراض کہ مجھے ہمسایہ ہونے کے باوجود لاعلم کیوں رکھا؟ ہم سب کے ڈارلنگ لیجنڈ خالد عباس ڈارکو منتوں اور ترلوں سے روکا کہ عیادت کی زحمت کی ضرورت نہیں ہے۔ علاج شروع ہوچکا ہے۔ تشخیص کی مزید پیشرفت سے مطلع کرتا رہوں گا۔ نچھاور ہونے والے سبھی دوستوں نے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ کئی تو صبح ‘ دوپہر شام خبر گیری کررہے ہیں‘ حتیٰ کہ دفتر کے کولیگ بھی۔
عزیزازجان بلال صدیقی ہوں یابہن بھائی کس کس کا نام لوں یہاں تو محبت کرنے والوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔عمر کا ایک حصہ وہ تھا جب اپنی موت سے ڈر نہیں بس اپنوں کی موت سے ڈر لگتا تھا۔ اب یہ ڈر دُہرا ہو چکا ہے‘ اب اپنی موت کا تصور بھی اس قدر جاں لیوا ہے کہ جان سے پیارے پسماندگان کی فکر ہلکان کیے رکھتی ہے کہ ان کا کیا ہوگا‘میری موت کا دکھ کیسے برداشت کر پائیں گے اور بعد ازاں حالاتِ پریشاں سے کیسے نبرد آزما ہو سکیں گے کیونکہ یہاں حال کا کچھ پتا ہے نہ مستقبل کی کوئی ضمانت۔اس کے برعکس کسی فلاحی ریاست میں پیدا ہونے والوں کے دکھ یکسر مختلف ہوتے ہیں‘ انہیں ایسے وسوسوں اور اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا کہ انکے بعد انکے پسماندگان حکمرانوں کی گورننس کے متحمل کیسے ہو سکیں گے۔ ایسے میں یہ اندیشے دن کا چین برباد کرنے سے لیکر رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ مرنے کا خوف دہرا کر ڈالتے ہیں‘ تاہم بے بسی کے عالم میں یہ اشعار بے اختیار زبان پر آجاتے ہیں:
آہستہ چل زندگی...
ابھی کئی قرض چکانا باقی ہیں
کچھ درد مٹانا باقی ہیں
کچھ فرض نبھانا باقی ہیں
رفتار میں ترے چلنے سے
کچھ روٹھ گئے کچھ چھوٹ گئے
روٹھوں کا منانا باقی ہے
روتوں کو ہنسانا باقی ہے
کچھ حسرتیں ابھی ادھوری ہیں
کچھ کام بھی اور ضروری ہیں
خواہشیں جو گھٹ گئیں اس دل میں
اُن کو دفنانا باقی ہے
کچھ رشتے بن کر ٹوٹ گئے
کچھ جڑتے جڑتے چھوٹ گئے
ان ٹوٹے پھوٹے رشتوں کے
زخموں کو مٹانا باقی ہے
ان سانسوں پر حق ہے جن کا
ان کو سمجھانا باقی ہے
آہستہ چل زندگی