عیداں تے شبراتاں آئیاں
سارے لوکی گھراں نوں آئے
او نہیں آئے محمد بخشا
جیھڑے آپ ہتھیں دفنائے
میاں محمد بخش کے یہ اشعار ہر عید پر اعصاب اور نفسیات پر طاری ہو جاتے ہیں۔ دل کا تو وہ کام تمام ہوتا ہے کہ رب جانتا ہے یا بس دل ہی جانتا ہے۔ امجد اسلام امجد سے معذرت اور معمولی تبدیلی کے ساتھ ان کے چند اشعار بطور استعارہ پیش خدمت ہیں۔
عید کے یہ چند دن
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں میں
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں پر
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے ناموں پر
رینگتی بد نما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
عید کے دنوں میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اگلی عیدوں پر
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے
کتنے نمبر بکھر کر رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہوں گے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے
ہر عید پر سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری، دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاک دانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا
عدم سے وجود میں آنے پر کان میں اذان دی جاتی ہے تو وجود سے عدم میں جانے پر اس اذان کی نماز ادا کی جاتی ہے‘ زندگی بھر کے جھمیلے اور سارا گورکھ دھندا بس یوں خواب دکھائی دیتا ہے کہ یہ سارا دورانیہ صرف اذان اور نماز کا وقفہ ہے۔ یہ وقفہ ایسے ہاتھوں سے نکلتا ہے گویا مٹھی سے سرکتی ہوئی ریت ہو۔ پلک جھپکتے ہی منظر بدل جاتا ہے۔ بھرپور زندگی کے باوجود بھی اذان اور نماز کا یہ وقفہ جھونکے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر عذاب اور کیا ہو گا کہ ہم اپنے مرنے تک نجانے کتنی بار مرتے ہیں۔ جب بھی ہمارا کوئی اپنا پیارا اور عزیز وجود سے عدم میں جاتا ہے تو اس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے۔ جانے والا منوں مٹی تلے جا سویا ہوتا ہے لیکن اپنی موت کی تلخی ہماری رگوں میں چھوڑ جاتا ہے‘ خاص طور پر ماں باپ جیسی انمول ہستیوں کی موت کا زہر۔ ہم اپنی موت تک قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
عید پھر لوٹ آئی ہے۔ ہر سال کی طرح عیدکے یہ دن نجانے کیسے کیسے زخم ہرے کر جاتے ہیں اور کون کون سی یادوں کی صورت میں ماضی کے کتنے ہی دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں سے لے کر رونق میلوں تک‘ ملنے کی خوشی سے لے کر بچھڑنے والوں کے غم تک‘ یہ دن جاتے جاتے کیسے کیسے تار چھیڑ جاتے ہیں۔ اُداسی کا غلبہ کچھ اس طرح بے چین کیے رکھتا ہے کہ لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے اور ریزہ ریزہ وقت کی مٹھی سے زندگی کی سرکتی ہوئی ریت طبیعت کو مزید بے چین اور بوجھل کیے دیتی ہے۔
عدم سے وجود اور وجود سے فنا کی طرف سرپٹ دوڑتا ہر ذی روح اس جہانِ فانی میں پہلا سانس لیتے ہی یوں بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے کہ یہ رونا پھر آخری سانس تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کبھی ہنستے ہنستے رو پڑتا ہے تو کبھی اپنے رونے پر ہنستا ہے۔ کیلنڈر کے خانوں میں بٹا انسان گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ ایک ایسے سفر پر گامزن رہتا ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی پسند‘ نا پسند کا خیال رکھا گیا ہے‘ نہ ملک مرضی کا‘ نہ ماں باپ اور بہن بھائی‘ نہ حالات پسند کے اور نہ ہی وسائل پر کوئی اختیار۔
عید کا دن جب بھی لوٹ کر آتا ہے تو سال بھر کا میزانیہ سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ دن تو سبھی رنگین و سنگین یادوں سے جڑے ہوتے ہیں‘ کوئی دن کسی کی جدائی کا زخم ہرا کر جاتا ہے تو کوئی دن کسی کے ملنے کی یاد تازہ کر جاتا ہے۔ ان سبھی دنوں کی یادیں عید کے دن ایک ایسی بیل کی صورت اختیار کر جاتی ہیں جو نفسیات اور اعصاب کو ایسے لپیٹ لیتی ہے کہ کوئی اس سے جتنا بھی بچنا اور نکلنا چاہے بچ نہیں سکتا۔ یہ بیل اور اس کے پھول اور کانٹے جکڑے رکھتے ہیں۔ یہ یادیں کس کو کتنا بے چین اور گھائل کرتی ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے بس یہی کہا جا سکتا ہے 'جس تن لاگے سو تن جانے‘۔
آگہی کے عذاب سے دوچار میرے ہم قبیلہ ناسٹیلجک لوگ کبھی بچھڑنے والوں کو روتے ہیں تو کبھی بچھڑنے کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ ہم اپنے مرنے تک نجانے کتنی بار مرتے ہیں‘ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں نجانے کتنی بار‘ گویا 'ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘۔ یہ چلاچلی کا میلہ ہے‘ ہر کسی کو اپنی باری پر چلے ہی جانا ہے‘ لیکن جب بھی کوئی عزیز‘ کوئی اپنا‘ کوئی پیارا‘ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ہم بھی تھوڑے سے مر گئے ہیں۔
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا اور جانے والے لوٹ کر کبھی نہیں آتے لیکن جانے والوں کی جدائی کے غم اور احساس کے ساتھ جینا کسی عذابِ مسلسل سے کم نہیں۔ جانے والے لوٹ کر نہیں آتے وہ اپنی یادوں کی کرچیاں چھوڑ جاتے ہیں جنہیں چنتے چنتے ہمارے ہاتھ نہ صرف لہو لہان رہتے ہیں بلکہ ان کی یادوں کے نقوش محفوظ کرنے والی آنکھیں بھی جب ان کرچیوں سے بھر جاتی ہیں تو بے اختیار بھر آتی ہیں اور جو آنکھیں دنیا بھر سے آنسو چھپانے کا ہنر جانتی ہیں وہ آنسو آنکھوں میں نظر آنے کے بجائے قطرہ قطرہ دل پر گرتے ہیں اور اگر دل بھر آنے پر یہ آنسو آنکھوں سے چھلک پڑیں تو غالب کا یہ شعر شاید بے ساختہ یاد آتا ہے:؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے