آج کا موضوع حواس گم کردینے والی وہ چند خبریں ہیں جو دن کا چین لوٹنے سے لے کر رات کی نیند اڑانے تک اعصاب اور نفسیات پر کیسے کیسے عذاب کا باعث بنتی ہیں‘کچھ نہ پوچھئے۔جہاں گورننس بانجھ اور میرٹ اپاہج ہو وہاں نیت اور ارادوں سے لے کر قول و فعل تک سبھی گورکھ دھندا ہی ہوتا ہے ۔ اکثر کوشش کرتا ہوں کہ مجہول سیاست اور سیاسی سرکس کے آئٹمز سے بھی بچ بچا کر صرف عوام کی بات کی جائے مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ بات عوام کے مسائل اور مصائب کی ہو اور سیاسی بازی گروں کا ذکر نہ آئے۔ جب عوام کے مسائل اور حالت زار کی بات ہوگی سیاسی اشرافیہ کا ذکر ضرور آئے گا۔ میرٹ اور گورننس کے نام پر چڑھائے جانے والے چاند اور عوام کے ساتھ روز اول سے جاری کھلواڑ پر کمنٹری سے فرار کیسے اختیار کیا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم اور 54رکنی کابینہ کے شہر اقتدارکو چند گھنٹوں کی بارش نے آئینہ تو خوب دکھا ڈالا ہے ۔
چارہ گروں کی بستی بھی چارہ گری سے قاصر ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ زمینی توجیہات‘ جواز اور عذر آسمانوں پر مسترد ہوچکے ہیں۔ داد رسی کے لیے زمینی خدائوں سے مایوس خلق خدا کے مقدمات تب آسمانوں پر درج کرلیے جاتے ہیں۔ شہر اقتدار میں چند گھنٹوں کی بارش نے کیسوں کیسوں کی اور کون کون سی قلعی کھولی ہے‘ اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے اختصار اور احتیاط ہی بہتر ہے تاہم سمجھنے والے سمجھ گئے۔کھلے آسمان تلے سڑکوں پر کچل کر مارے جانے والے ہوں یادرندگی کا نشانہ بننے والے کم سن بچوں کے لیے انصاف طلب کرنے والے ماں باپ۔ قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں جواں سال اولاد کے قتل کے غم سے نڈھال ماں باپ کے دلوں میں بھی اس طرز حکمرانی کی قبر بن چکی ہے۔خواتین کی بے حرمتی سے لے کر درندگی سمیت سفاکی کے ان گنت واقعات اخلاقی قدروں اور قانون کی پاسداری کا روز منہ چڑاتے ہیں۔درندگی اور بربریت کا دہلا دینے والا تازہ ترین واقعہ نور مقدم کی سفاکانہ موت اس مہذب اور جدید شہر کے عوام اور حکمرانوں کے لیے المناک سوال ہے۔
فکری آزادی سے لے کر مادر پدر آزادی تک سبھی مناظراور اخلاقی دیوالیہ پن کی کتنی ہی داستانیں آئے روز رقم ہو رہی ہیں۔رب کی نافرمانی سے لے کر آئین و قانون کی پامالی تک کس کو کس کا تحفظ حاصل ہے یہ کوئی معمہ نہیں۔ سب کو سبھی جانتے ہیں۔سماجی قدروں اور اخلاقیات سے بے نیازخاص مائنڈ سیٹ روشن خیالی کے نام پر اندھیرے پھیلانے والے کوئی گمنام نہیں۔سبھی حسب نسب اور نامی گرامی ہونے کے ساتھ ساتھ اونچے شملے والے بھی ہیں۔ جن کے سامنے کسی کی عزت سے لے کر مال و جان تک حقیر ترین شے ہے۔ قانون کے رکھوالوں کو اپنی اپنی نوکریوں کی رکھوالی سے فرصت ملے تو وہ اس طرف بھی کچھ توجہ کریں۔اگر کہیں قانون حرکت میں آبھی جائے تو ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین کو دیت کے نام پر معاوضہ وصول کرنے پر نہ صرف مجبور کردیا جاتا ہے بلکہ انہیں یہ بھی خو ب باور کروا دیا جاتا ہے کہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں نہ تمہیں انصاف ملے گا اور نہ قانون تحفظ دے سکے گا۔
قیامت خیز بارش سے شہر اقتدار میں بہنے والی غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں اور ناحق مارے جانے والوں کے ذمہ دار بھی کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ سوسائٹیاں کوئی جن بھوت پریت نہیں بنا گئے۔چمک سے آنکھیں چندھیا جائیں تو بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کا کس کا دل نہیں کرتا۔ گندے نالوں پر غیر قانونی تعمیرات کس کی سرپرستی میں اور کس کی اجازت سے قائم کی جاسکتی ہیں؟اشرافیہ کا جادو سر چڑھ کر بول نہیں رہا بلکہ چنگھاڑے چلے جارہاہے۔اپنی دنیا سنوارنے کی دھن میں اور کتنوں کی زندگی میں اندھیرے پھیلانا باقی ہیں؟ اشرافیہ سیاسی ہو یا انتظامی اور کاروباری‘سبھی کے ہاتھ نجانے کون کون سے کارِ بد میں رنگے ہوئے ہیں اور بڑھتی ہوئی ہوسِ زر نجانے مزیدکتنے شہرخموشاں آباد کرے گی۔
بارشیں موسمی ہوں یا بے موسمی اگر بارانِ رحمت نہ ہوں تو قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں ۔اعمالِ بد سے لے کر گورننس اور طرزِ حکمرانی تک ‘عوام سے لے کر اشرافیہ تک‘حکمرانوں سے لے کر سرکاری بابوئوں تک سبھی کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے۔نہ آئین کی پاسداری ہے نہ قانون کا احترام۔نہ سماجی قدروں کا پاس ہے نہ اخلاقی قدروں کا خیال ۔احترام آدمیت کا تو ناپید ہی ہوچکی ہے۔گریڈوں کا جدید شہر جو تہذیب و تمدن کے علاوہ علم و فکر کا استعارہ تصور کیا جاتا ہے وہاں امن وامان سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک سبھی کچھ لیر ولیر ہوتا چلا جارہا ہے۔یہ نوحہ صرف شہرِ اقتدار کا ہی نہیں پورے ملک کا نوحہ ہے۔اس منظر نامے کا ایکشن ری پلے ہو یا اثرات بد مخصوص مائنڈ سیٹ کبھی روشن خیالی کے نام پر تو کبھی من مانی کی دھن میں نجانے کیا کچھ برباد کیے چلے جارہے ہیں ۔قانون اور ضابطوں سے لے کراخلاقی و سماجی قدروں کی تباہی کے مناظرکا ننگا ناچ وطن عزیز کے طول وعرض میںجابجا ہر سو اور صبح و شام جاری ہے۔
آج ہی پیش آنے والا واقعہ بطور استعارہ پیش کرتا چلوںکہ یہ پورا کالم نوحہ بن کر ماتم کا سماں کیوں پیش کررہا ہے۔ روزانہ صبح آنکھ کھلتے ہی واٹس ایپ پر میسجز کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ ضروری اور کام کے میسجز محفوظ کرنے کے بعد باقی سب ڈیلیٹ کر کے ہی سیل فون کی میموری بچائی جا سکتی ہے۔ آج صبح بھی کچھ اسی طرح ہوا کہ ایک سرکاری افسر کی طرف سے دو ویڈیو کلپ موصول ہوئے۔ ایک ویڈیو کلپ میں انتہائی تیز طوفان اور موسلا دھار بارش کی وجہ سے پھلدار درختوں سے بھرا باغ اجڑتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں سے لدے درخت اجڑے گلستاں کا منظر پیش کرنے لگے۔ اگلے سین میں کھڑی فصلوں پر برسنے والی بارش اور آندھی دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا بمباری یا سنگباری کا کوئی منظر ہو۔دوسرا ویڈیو کلپ معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کا تھا‘ جس میں وہ بیان کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتے ہوئے پوچھا کہ یا رب جب تُو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں کیسے پتا چلے کہ تو ہم سے ناراض ہے؟ پروردگار نے نے فرمایا: جب میں ناراض ہوتا ہوں تو نکمّوں‘ بیوقوفوں اور نااہلوں کو حکومت اور بخیلوں کو پیسہ دے دیتا ہوںاور پھر بے موسمی اور بے وقت بارشیں برساتا ہوں۔ یہ دونوں کلپ دیکھ کر کافی دیر سوچتا رہا کہ بے موسمی بارشیں‘ فصلوںکی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک گرانی‘ بدحالی‘ بے وفائی‘ مہنگائی کی تباہی کے سواعوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اللہ رحم‘یاخدایا رحم‘حکمرانوں سے لے کر بدحالی اور بے برکتی تک یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں تو پھر کون سی اصلاحات‘ کون سے اقدامات‘ کیسی پالیسیاںاور کون سی گورننس۔ جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر تمہاری تدبیریں اور تحریکیں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ عوام کو ریلیف دینے اور سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا باعث بننے والے سبھی حکمران ہمارے اعمال کی سزا ہی تو ہیں۔ ان سے نجات صرف اعمال کی درستی اور توبہ کی قبولیت کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ بے شک یہ مقامِ توبہ ہے ‘مقامِ استغفار ہے۔
میں ایک بندئہ ناچیز ہوں کوئی سکالر نہیں۔اس موضوع پر مزید لمبی چوڑی بات کرنا مناسب نہیں‘کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ ان ویڈیو کلپس کو بطور استعارہ آپ سے شیئر کرنے کا مقصد دعوتِ فکر اور صرف اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر وطنِ عزیز کے عوام تک یہ دعوتِ عام ہے سبھی کے لیے اور اشارہ ہے صرف سمجھنے والوں کے لیے۔ سبھی کچھ جانتے بوجھتے حضرت علیؓ کا یہ قول ہم نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ کفر کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پرہرگز نہیں ۔