وزیراعظم صاحب کا تازہ ترین بیان شہ سرخیوں کی صورت میں اخبارات کی زینت بن چکا ہے بلکہ حکومتی ترجمان اس کی تشریحات کے ساتھ اہمیت پر بھی بھرپور روشنی ڈال رہے ہیں۔ بیان کے مندرجات کچھ یوں ہیں ''حکمرانوں کی کرپشن سے ملک غریب ہو جاتا ہے۔ تبدیلی قانون کی بالادستی سے ہی آئے گی۔ نظام کرپٹ ہو تو چند لوگ امیر اور باقی ملک غریب ہو جاتا ہے‘‘۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان انہی بیانیوں کی تکرار اور تسلسل ہے جو عوام کنٹینر سے لے کر برسر اقتدار آنے کے بعد بھی نجانے کب سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک طرف قانون کی بالادستی کے حق اور کرپشن کے خلاف یہ بیانیے اور دوسری طرف مشہور زمانہ سیاحتی مقام مالم جبہ پر نیب کی تحقیقات بند کرنے کا معاملہ۔ کیا ایسا کر کے سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا کوئی وعدہ پورا کیا جا رہا ہے؟
چھ ماہ قبل انصاف سرکار نے کرپشن اور ناقص کارکردگی پر افسر شاہی کے خلاف طبل جنگ بجایا تھا۔ یہ طبل جنگ بھی وہی ڈھول ثابت ہوا جسے سنتے سنتے عوام کے کان نہ صرف پک چکے ہیں بلکہ اب تو بہنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔ افسر شاہی کے خلاف کارروائی سیاسی بیان اور کاغذی گورکھ دھندہ ہی ثابت ہوئی کیونکہ ہمارے ہاں چوروں کی چوروں کو تحفظ دینے کی روایت نہ صرف کافی پرانی ہے بلکہ یہ روایت ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ جاری و ساری بھی رہتی ہے۔ انصاف سرکار کی ایک اہم شخصیت کی آبزرویشن ہے کہ پنجاب میں بیوروکریٹک مارشل لا نافذ ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف روز بروز گرتا چلا جا رہا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پولیس افسران سے لے کر ضلعی انتظامیہ تک، اعلیٰ بیورو کریسی سے لے کرنچلے گریڈوں تک‘ الغرض سبھی اہم عہدوں پر تعیناتی کے ریٹ فکس ہیں،گویا تقرریاں اور تبادلے نہ ہوئے کوئی ٹینڈر ہوگیا۔
ملائیشیا کے تاریخ ساز حکمران مہاتیر محمد دورۂ پاکستان سے واپسی پر ایک کام کی بات کہہ گئے تھے ''قیادت کرپٹ نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں‘‘۔ مہاتیر محمد کی بات سولہ آنے نہیں‘ بلکہ سولہ سو آنے درست ہے۔ کرپشن کے خلاف برسر پیکار حکومت کو ایک مہمان سربراہِ مملکت کا گھر آ کر ایسی بات کہہ جانا ایسا ہی ہے کہ ''بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔ گویا وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا بنیادی مسئلہ اور اصل بیماری کیا ہے؟ ایک عہد سازاور جہاندیدہ شخصیت کی طرف سے حکومت وقت کو دیے گئے اس مشورے اور نصیحت کو مزید آسان زبان میں بیان کرنا ہو تو کچھ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے
تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اٹھے۔گویا‘ آ گیا وہ شاہکار‘ جس کا تھا انتظار۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ کرپشن‘ لوٹ مار‘ اقربا پروری کے سیاہ دور کا خاتمہ ہو گا۔ کم و بیش اسی طرح کے خوش کن خیالوں میں گھرے عوام وزیراعظم کی پہلی تقریر کو اس منزل کا نقطہ آغاز سمجھ بیٹھے تھے جس کا خواب دھرنوں اور انتخابی مہم میں عوام کو تواتر سے دکھایا گیا تھا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا وہ خواب بتدریج ایک جھانسہ بنتا چلا گیا ہے۔ گڈ گورننس اور بہترین طرزِ حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے دورِ اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہرن کردیا اور دکھائے جانے والے تمام سنہری خواب چکنا چور کر ڈالے۔ جس دورِ حکومت میں خلق خدا نے راج کرنا تھا‘ اس دور میں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوانِ اقتدار تک‘ کہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ عوام کے لیے ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے سارے منظر جوں کے توں ہیں جبکہ سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا نعرہ بھی اب منہ چھپائے پھرتا ہے۔
ہائی سپیڈ اور انتھک وزیراعلیٰ کا ریکارڈ توڑنے کے لیے سردار عثمان بزدار کو پنجاب کی حکمرانی سونپ کر وزیراعظم نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ عوام تحریک انصاف کو مینڈیٹ دینے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشا بن چکا ہے۔ معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک‘ سب پر جمود طاری ہے۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی‘ کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں پر مشتمل فائلوں کے انبار نظر آ رہے ہیں۔ ایسی سنسنی اور ایسا تجسس پھیلایا جا چکا ہے گویا لوٹ مار کرنے والے بس اپنے انجام کو پہنچنے ہی والے ہیں۔ قانون پوری طرح حرکت میں آ چکا ہے‘ جلد ہی ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کا حصہ بننے والی ہے۔ پریس کانفرنسز اور ٹاک شوز میں نہایت پکے منہ سے کرپشن کے خلاف انقلابی اقدامات اور احتساب کی باتیں جاری ہیں۔ دلفریب دعووں اور وعدوں سے عوام کو مسلسل بہلایا جا رہا ہے۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ ہر روز ایک نئی منطق‘ ایک نیا عذر اور ایک نیا بہانہ تیار ہوتا ہے۔ احتساب کی کہانی کتنے موڑ کھا چکی ہے اور ابھی کتنے موڑ باقی ہیں، کتنے جھانسے اور کتنے دھوکے باقی ہیں‘ جو عوام نے ابھی کھانے ہیں... خدا جانے!
احتساب کے نام پر تحقیقات‘ گرفتاریوں‘ تفتیش اور ٹرائل کے باوجود مطلوبہ اہداف کا حصول اور ریکوریاں خواب و خیال بن چکی ہیں۔ عجیب نظام ہے‘ کمال احتساب ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس کیس کے ریکارڈ سے تین ہزار صفحات ایسے غائب ہو گئے گویا جن اٹھا کر لے گئے۔ ایک نہیں‘ دو نہیں‘ تین نہیں‘ پورے تین ہزارصفحات چھو منتر ہو گئے۔ تحقیق اور تفتیش پر مبنی تین سطریں ہی کیس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں‘ یہاں تو تین ہزار صفحات اڑا لیے گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے یا ملزمان کی سہولت کاری؟ دونوں صورتوں میں ذمہ داروں کے تعین میں تاخیر ناقابل فہم اور تعجب انگیز ہے۔ احتساب کی بھول بھلیوں میں الجھا کر عوام کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے‘ جس کی سمت اور منزل کے بارے میں کچھ بھی کہنا ناامیدی اور بے یقینی کے تاثر کو تقویت دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ احتساب میں حکومت کس قدر سنجیدہ اور مخلص ہے‘ اس کا اندازہ مالم جبہ، بی آر ٹی کیسزسمیت ان اہم شخصیات کی موجوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی ایوانِ وزیراعظم میں پناہ گزین ہے تو کوئی کابینہ کو ڈھال بنائے بیٹھا ہے۔
کمزور استغاثہ اور ناقص تفتیش کو بنیاد بنا کر نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھانا تو بہت آسان ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 120 نیب عدالتوں کی منظوری کے باوجود عدالتوں کا قیام تاحال زیر التوا ہے جبکہ لاہور میں موجود پانچ عدالتوں میں سے صرف دو عدالتیں کام کررہی ہیں جبکہ شہباز شریف، فواد حسن فواد، احد چیمہ اور سعد رفیق سمیت تمام ہائی پروفائل کیسز ان عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جو ججز کی تقرری کی منتظر ہیں۔ اگر ہائی پروفائل کیسز کی سماعت میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے تو کہاں کا احتساب؟ احتساب کے نام پر مخالفین کو رگڑا لگانا ہو یا انہیں زیرعتاب رکھنا ہو‘ ماضی کی یہ سبھی روایات دورِ حاضر میں بھی جوں کی توں جاری ہیں لیکن سر چڑھے اور منظورِ نظر سرکاری بابوز ہوں یا وزیر‘ مشیر، سبھی کو کھلی چھوٹ ہے۔
حکومتی ترجیحات کے پیش نظر تحقیق اور تفتیش پر اٹھنے والے سوالات کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ بے پناہ حکومتی وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کیسوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کا حساب کون دے گا؟ سرکاری خزانے پر بوجھ ڈال کر بنائے گئے ان مہنگے ترین کیسوں کے سبھی ملزمان سستے میں چھوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ جس طرح غربت خیرات سے نہیں‘ انصاف سے ختم ہوتی ہے اسی طرح احتساب بھی اپنے پرائے کی تفریق ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔