وزیر اعظم صاحب نے ایک اور سرپرائز دے کر کتنوں کے ارمانوں کا نہ صرف گلا گھونٹ ڈالا بلکہ شیروانیاں زیب تن کرنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ کوئی مبینہ تو کوئی متوقع وزیر اعظم بنا پھر رہا تھا‘ جبکہ کوئی وزارت عظمیٰ کے حلف کی ریہرسل میں مصروف تھا۔ تخت پنجاب کے بعد آزاد کشمیر میں بھی حکومت سازی کے لیے بے چین اور حلف اٹھانے کے لیے تیار سبھی امیدوار دیکھتے رہ گئے اور وزارت عظمیٰ کا قلم دان قیوم نیازی صاحب کو سونپ کر تین سال پرانی تاریخ دہرا دی گئی۔ 2018 کے انتخابات کے بعد پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ کا انتخاب سیاسی معرکے سے کہیں بڑھ کر نفسیاتی اور اعصابی امتحان بن چکا تھا۔ عین متوقع وزیر اعلیٰ وہ تھے جو انتخابی امیدواروں میں ٹکٹوں کی تقسیم سے کر تمام اہم امور اور فیصلہ سازی میں شامل ہونے کے علاوہ ہراول دستہ سمجھے جاتے تھے۔ تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد میں ان کی مالی معاونت کے چرچے بھی زبان زدِ عام تھے۔ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہو گا کہ تحریک انصاف میں ان کی موجودگی اس ایندھن کی حیثیت رکھتی تھی جس نے جدوجہد اور اہداف کے حصول کی گاڑی کو کہیں رکنے نہ دیا۔
126 دن کا طویل ترین دھرنا ہو یا دیگر انتظامی اور سیاسی سرگرمیاں۔ انتخابی مہم ہو یا جلسے جلوس کے علاوہ نجانے کون کون سے اخراجات۔ ان سبھی میں پیش پیش اور جاں نثار دکھائی دینے والوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا تھا جو آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے میں اپنے خزانے لٹا کر چشم تصور میں خود کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر دیکھنے والوں کے ساتھ ہوا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناقابل تردید اور ہوشربا خدمات کا صلہ دیکھ کر بھی سبق نہ حاصل کرنے والے سردار تنویر الیاس بھی ڈھیروں پیشگی مبارکبادیں سمیٹے کے بعد منہ تکتے رہ گئے اور راج نیتی میں پھر وہی کھیل کھیلا گیا جو ہماری سیاسی تاریخ میں اکثر کھیلا جاتا رہا ہے۔ نواز شریف ہوں یا محمد خان جونیجو‘ سردار عثمان بزدار ہوں یا قیوم نیازی‘ سبھی اس کھیل کے سرخیل ثابت ہوئے ہیں۔
1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد ضیاالحق نے بھی اونچے شملے والوں اور سیاسی اور سماجی اعتبار سے اعلیٰ حسب و نسب والے سبھی امیدواروں کو چکما اور پوری قوم کو سرپرائز دیا تھا۔ محمد خان جونیجو کا بطور وزیراعظم انتخاب ہو یا تخت پنجاب کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں کرنا‘ یہ سبھی راج نیتی کے وہ کھیل تھے‘ جن میں ضیاالحق کے اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات شامل حال تھیں۔ قارئین! آئیے آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد سرپرائز اور راج نیتی کے اس کھیل کے تاریخی پس منظر کی سیر کرتے ہیں۔
جنرل ضیاالحق نے 1985 میں غیرجماعتی انتخابات کروائے تو جہاں اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا کر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا وہاں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے بھی انتہائی قد آور سیاستدانوں کے ارمانوں کا گلا گھونٹ ڈالا۔ اس دور کی پنجاب اسمبلی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا کہ کس کو کس پر فوقیت اور برتری دی جائے۔ ایک سے بڑھ کر ایک امیدوار اور ہر ایک غیر معمولی سماجی حیثیت اور اثر و رسوخ کا مالک تھا‘ لیکن جب قرعہ نواز شریف کے نام نکلا تو ارکان اسمبلی ہکا بکا رہ گئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان کے لیے انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا کہ ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ کو نظر انداز کر کے ایک ''بابو ٹائپ‘‘ ایم پی اے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ صورتحال پوری پنجاب اسمبلی کے لیے سوالیہ نشان بن گئی تھی۔ اونچے شملے والی سیاسی قد آور شخصیات اکٹھی ہو گئیں کہ وزارت اعلیٰ کے لیے ہم نہ سہی‘لیکن کوئی ہم سا تو ہو‘ اور یہ بابو ٹائپ نواز شریف تو ہرگز نہیں۔
نواز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ قبول کرنا ارکان اسمبلی کے لیے مشکل مرحلہ تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جنرل غلام جیلانی کی آنکھ کا تارا نواز شریف نہ صرف وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا بلکہ ارکان اسمبلی نے اسے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ واقفانِ حال یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کی تقریب حلف برداری کے بعد گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے چائے کی ٹرے اٹھائے لے جاتے ہوئے ویٹر (بیرے) کو آواز دے کر بلایا‘ اور اس کے سر سے کلاہ اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی تھی۔ حاضرینِ محفل کے لیے یہ ایک کھلا پیغام تھا کہ بیرا ہو یا نواز شریف‘ جادو کی چھڑی بہرحال ان کے ہاتھ میں ہے‘ کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زردار کر دے۔
پنجاب حکومت کے قیام کے باوجود اپنی خو سے مجبور اکثر ارکان اسمبلی نواز شریف کو دل سے وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کر پا رہے تھے اور اکثر پنجاب اسمبلی ڈیڈ لاک کا شکار رہتی۔ اس صورتحال کے پیش نظر صدر ضیاالحق کو لاہور آنا پڑا۔ انہوں نے ارکان اسمبلی پر واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ نواز شریف ہی رہیں گے‘ ان کی تبدیلی اور متبادل قیادت کی کوشش کرنے والے سن لیں کہ انہیں ہر صورت نواز شریف سے تعاون کرنا ہو گا۔ جنرل ضیاالحق کے دورۂ لاہور کے بعد وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی کوششیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ بالمقابل‘ بالآخر بغل گیر ہو گئے‘ اور پھر نواز شریف کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ ضیاالحق نے ایک موقع پر یہ بھی کہہ ڈالا کہ 'میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘۔ ضیاالحق کے ان دعائیہ کلمات کے بعد ان کی زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی۔ وہ ایک فضائی حادثہ کا شکار ہو گئے اور نواز شریف کو ان کی دعا ایسی لگی کہ پھر انہوں (نواز شریف) نے کسی کو ساتھ نہیں لگنے دیا۔
جب بھی سیاسی پنڈتوں اور قوم کو راج نیتی کا کھیل کھیلنے والوں کی طرف سے کوئی سرپرائز ملتا ہے تو مجھے کبھی حیرت نہیں ہوتی۔ عثمان بزدار صاحب کی نامزدگی پر بھی سبھی ہکا بکا اور ششدر دکھائی دیتے تھے کہ بھلا یہ کیا فیصلہ ہوا‘ اور ان کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ 'دعائیں ہم نے مانگی تھیں‘ بہاریں غیر نے لوٹیں‘ جس طرح ضیاالحق نواز شریف کو مضبوط کرنے کے لیے لاہور آئے تھے اسی طرح وزیراعظم عمران خان بھی بزدار سرکار کی سو روزہ کارکردگی کے حوالے سے سجائی گئی محفل میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر لاہور آئے۔ اس تقریب میں شریک وفاقی و صوبائی وزرا، مشیروں‘ ارکان اسمبلی، صحافیوں، دانشوروں، اعلیٰ افسران اور ملک بھر سے آئی ہوئی دیگر اہم شخصیات کی موجودگی میں وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں سادہ‘ درویش اور کھرا انسان قرار دیا۔
سادہ، درویش اور کھرا انسان ہونا یقینا اعلیٰ صفات ہیں‘ اور یہ الگ بات کہ وزیراعظم کی بزدار صاحب سے وابستہ سبھی توقعات اور دعوے نہ صرف دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ وہ بھی ان سبھی رنگوں میں رنگتے چلے گئے جن سے بچنے کے لیے خان صاحب نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ جن صفات سے متاثر ہوکر بزدار صاحب کو تخت پنجاب سونپا گیا تھا‘ وہ لاپتا اور نامعلوم ہیں جبکہ اس تقریب میں شریک حکومتی وزرا اور ارکان اسمبلی بعد ازاں نجی محفلوں میں یہ بھی برملا کہتے رہے کہ وژن اور استطاعت کے بغیر ان صفات کا کیا فائدہ؟ جس مقصد کے لیے ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جب وہی پورا نہ ہو سکے تو پھر یہ عظیم الشان تقریب کس کھاتے میں؟ کارکردگی تو اچھل اچھل کر باہر آتی ہے‘ جیسے خوشبو اور بد بو کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
قارئین! قیوم نیازی صاحب کی نامزدگی پر بھی کہیں ماتم ہے تو کہیں مایوسیوں اور ناامیدیوں کے سائے۔ کہیں انویسٹر اوندھے منہ پڑے ہیں تو کہیں موقع پرست سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ بزدار صاحب کے جانے کی خبروں اور افواہوں کو ہوا دینے والوں کو اکثر یہ کہتا رہا ہوں کہ عثمان بزدار کو لائٹ نہیں لینا۔ یہ راج نیتی کا کھیل ہے‘ اس میں فیصلے سٹیک ہولڈرز کی خواہشات اور مقاصد کے پیش نظر نہیں کیے جاتے۔ اب بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ قیوم نیازی صاحب کو بھی لائٹ نہیں لینا کیونکہ یہ فیصلہ عوام کا نہیں راج نیتی کا ہے۔