تاریخ کا پہیہ ہمیں ایک بار پھر افغانستان کی جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے گھمایا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کبھی نازک دور سے گزرتا ہے تو کبھی نازک موڑ سے‘ پون صدی ہونے کو آئی نہ وہ نازک دور گزرا اور نہ ہی وہ نازک موڑ مڑ سکے۔ گویا ہم آج بھی اسی دور میں ٹھہرے ہوئے اور اسی موڑ پر جوں کے توں کھڑے ہوئے ہیں۔ ماضی میں افغان جنگ دو آمروں کو تو خوب راس آئی۔ ضیا الحق نے جس طرح افغان جہاد کی بریڈنگ کر کے ملک و قوم کو پرائی آگ میں جھونک ڈالا اس کی قیمت لمحۂ موجود میں پیدا ہونے والا بچہ بھی ادا کرے گا۔ افغان مہاجرین کے ساتھ آنے والی منشیات اور ممنوعہ بور کا اسلحہ ہماری کئی نسلیں کھا گیا جبکہ افغان جنگ کے نتیجے میں نجانے کتنے ایسے ویسے کیا سے کیا ہوتے چلے گئے۔ اس جنگ کے بینیفشریز کے بارے میں کون نہیں جانتا۔اسی طرح نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے بھی افغانستان کے حالات کو اپنے اقتدار سے منسوب کر کے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو لگا یا لیکن جوں جوں ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ بڑھتا گیا توں توں سہولت کاروں کے جھاکے بھی اترتے چلے گئے۔
اڈے مانگنے والوں نے پورا پاکستان ہی اڈہ بنا ڈالا اور پھر امریکی احکامات کی بجا آوری میں کافی کچھ کرتے چلے گئے۔ اپنے ہی شہریوں کو امریکی ایجنسیوں کے حوالے یوں کیا گیا جیسے کوئی بھیڑ بکریاں ہوں۔ ڈو مور کا عفریت ملک کے کونے کونے میں یوں سرایت کر گیا کہ بلیک واٹر کے کارندے دن دیہاڑے نہ صرف شہروں میں دندناتے پھرتے تھے بلکہ اپنے ٹارگٹ کے راستے میں آنے والوں کو بھی سر عام گولیوں سے بھون ڈالتے تھے۔ ڈو مور کی دوڑ میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے والوں نے داخلی خود مختاری کو تار تار کیا لیکن اپنی دنیا خوب سنواری۔ دور ضیا الحق کا ہو یا پرویز مشرف کا افغان جنگ کے بینیفشریز کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ ایک بار پھر پاکستان کو افغان جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے حالات اور اسباب پیدا کیے جارہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں پسپائی کا شکار ہونے والے ہوں یا بے سروسامان مہاجرین‘دونوں پاکستان کا رُخ کر کے انہی عذابوں سے دوچار کر سکتے ہیں جن کی قیمت ادا کرتے کرتے ہماری نسلیں بھی اب تھک چکی ہیں۔
افغان جہاد میں سہولت کاری ہو یا ڈو مور کے مطالبے کا تسلسل سبھی کے نتیجے میں پورا ملک ہی دہشتگردی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا تھا۔ گلیوں اور محلوں سے لے کر سڑکوں اور بازاروں تک‘ سرکاری دفاتر سے لے کر اہم ترین اور حساس اداروں تک‘ قانون نافذ کرنے والوں سے لے کر تعلیم و تدریس کے لیے گھر سے نکلنے والوں تک‘ حصولِ تعلیم کے لیے سکول جانے والے معصوم بچوں سے لے کر میدانوں اور پہاڑوں تک دہشت اور بربریت کے کون سے پہاڑ نہیں ٹوٹے‘ ملک کے کونے کونے میں آج بھی بارود کی بو محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ نہ مارنے والے کو پتہ کہ وہ کس کو مار رہا ہے‘ نہ مرنے والے کو پتہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے؟ ایک خاص مائنڈ سیٹ نے پاکستان کا دھارا ہی بدل ڈالا۔ خوف اور دہشت کے سائے طویل ہوتے چلے گئے جنہیں شاعر نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
وہ سچ تھا...
تمہیں جو دار پر لایا
بنام دیں...
تجارت کے دھنی کچھ لوگ دھوکے سے
میرے معصوم لوگوں کو غلط رستے پہ ڈال آئے
تمہارے شہر میں جو آگ سلگی تھی
ہمارے گھر کے دروازے پہ دستک دے چکی کب کی!
مرے اجداد کی دھرتی بجائے دانۂ گندم
زمیں سے خوں اگلتی ہے
فلک سے ایک چمکتا دائرہ...
کچے مکاں مسمار کرتا ہے
تمہارے خون کی قیمت بڑی مہنگی پڑی ہم کو
بتاؤں کیا؟
یہ صورت ہے
کہ اپنے شہر کے بازار میں بھی خوف آتا ہے
نجانے کب کوئی جنت کا طالب...
مجھ کو جنت میں لے جائے
مجھے جنت نہیں جانا
ماضی میں طول اقتدار اور استحکامِ اقتدار کے لیے افغان جنگ کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے ماضی کی سبھی روایات کے برعکس اور نتائج سے بے پروا ہو کر امریکی مطالبے پر ''Absolutely Not‘‘ کہہ کر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان نہ کوئی اڈہ ہے اور نہ ہی وہ افغانستان میں جاری جنگ کے بینیفشری بنیں گے تاہم پہلے سے موجود بیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے یہ قوم اب مزید کسی ہجرت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں۔ افغانستان کی بدامنی ہو یا خانہ جنگی دونوں ہی پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ہیں‘ اس پر امراﷲ صالح اور حمداﷲ محب جیسے احسان فراموشوں کی ہرزہ سرائی ہمارے زخموں کو کچوکے لگا رہی ہے۔
افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کی تاریخ جوں جوں نزدیک آ رہی ہے ہمارے بارڈر پر کشیدگی اور ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑتی چلی جارہی ہے۔ امریکہ کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اشرف غنی کی سکڑتی حکومت اور پسپائی عنقریب بے بسی کی تصویر نظر آئے گی تاہم اب اس کی مزید حمایت نہ صرف بے سود ہوگی بلکہ اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر اس جنگ میں جھونکنے کے نتائج بھی پریشان کن ہوتے چلے جارہے ہیں؛ چنانچہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں ادھورے امن معاہدے کے بعد امریکی افواج کی واپسی کو طالبان ناصرف اپنی سٹریٹیجک کامیابی قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اور افغان حکومت کی روز بروز پسپائی بھی ان کی حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے۔ تاہم طالبان گھیرا مزید تنگ ہونے تک کابل کو فتح کرنے میں ہرگز جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے دوٹوک جواب ''Absolutely Not‘‘ کا ردِعمل ابھی آنا باقی ہے تاہم اس کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کو اس ''وارگیم‘‘ کا اہم مہرہ بنانے کے لیے بساط بچھائی جا چکی ہے۔ زمانہ قیامت کی چالیں چل رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سفارتکاری اور بیانیہ کب تک ان چالوں کی شہ مات سے بچتا ہے تاہم ماضی میں اڈے استعمال کرنے والے اڈے بدلنے کے متحمل ہو سکتے ہیں نہ ہی کوئی سمجھوتہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی کے تجربات ہوں یا سہولت کاری‘ سبھی کے نتائج ملکی سلامتی سے لے کر غیرت ِقومی تک سبھی کا منہ چڑا رہے ہیں تاہم اس بار افغان مہاجرین کے حوالے سے کوئی سخت اور مشکل فیصلہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ماضی کے نتائج سے ملنے والا سبق متقاضی ہے کہ پہلے سے موجود افغان مہاجرین کی نہ صرف واپسی کا فیصلہ لینا ہوگا بلکہ مزید ہجرت کو سختی سے ردکر کے افغان بارڈر باقاعدہ بند کر دیا جائے۔ تب کہیں جاکر وطنِ عزیز کو افغانستان کے اثرات بد سے بچایا جاسکے گا۔