ہمارے اپنے دنیا گروپ کے حسن رضا اندر کی خبر خوب نکال لاتے ہیں۔ آج بھی انہی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے کالم کے اصل موضوع سے بھٹکا کر مجبور کر ڈالا ہے کہ پنجاب بھر میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز کی مایوس کن کارکردگی پر قلم آرائی کی جائے۔ صوبائی دارالحکومت میں موجیں مارنے والے سرکاری بابوئوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کے مضبوط سفارشیوں پر بھی کڑے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح ارادے اور فیصلے حکمرانوں کی نیتوں کا بھید کھول دیتے ہیں۔ 'جیسے عوام ویسے حکمران‘ والی تھیوری کے ساتھ ایک اور اضافہ کرتا چلوں کہ جیسے حکمران ویسے ہی انتظامی افسران۔ بیوروکریسی کو کمال مہارت حاصل ہے کہ حکمرانوں کی نیتوں اور عزائم کو خوب بھانپ لیتی ہے اور پھر ان کی خواہشات کے مطابق ان کے گرد ایسا تانا بانا بنتی ہے کہ حکمران جلد یا بدیر نہ صرف اس دام میں پھنس جاتا ہے بلکہ دانہ بھی چگ ہی لیتا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ سول سروس کا معرکہ مارنے کے بعد میدان عمل کی پہلی پوسٹنگ میں ہی بعض افسران کے مابین اکثر مقابلے کا سماں نظر آتا ہے کہ سب سے پہلے بڑی گاڑی اور شہر کے پوش ترین علاقہ میں بڑا بنگلہ کون بناتا ہے۔ یہ مقابلہ پولیس سروس آف پاکستان اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے درمیان زیادہ پھنس کر ہوتا ہے۔ اس پر ذرا تحقیق کی جائے تو دور کی کوڑی لانے والوں کے دعووں کی تصدیق بھی ہوتی نظر آتی ہے۔ کرپشن اور ناقص کارکردگی لازم و ملزوم ہیں۔ جب کرپشن ہو گی تو کارکردگی کہاں سے آئے گی؟ چہیتوں کو کلیدی عہدوں سے نوازنے کی روایت خاصی پرانی ہے۔ ماضی کے سبھی ادوار میں نواز شریف سے کر بے نظیر تک‘ پرویز مشرف سے لے کر چوہدری برادران اور آصف علی زرداری تک سبھی اس روایت کو دوام بخشتے رہے ہیں۔ حکمرانوں کی نظر کرم کے نتیجہ میں انتظامی افسران اعلیٰ ہو ادنیٰ سبھی ہر دور میں بہترین سہولت کاری کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے جائز‘ ناجائز احکامات کی بجا لانے کے علاوہ ان کے ذوق و شوق کا بھی خوب خیال رکھتے ہیں۔
ماضی کے ادوار سے دور حاضر کا موازنہ کیا جائے تو ایک بات طے ہے کہ ماضی میں کسی سر چڑھے اور چہیتے افسر پر پوسٹنگ ٹرانسفر کے حوالے سے مال بنانے کا الزام اس طرح نہیں لگا جیسے موجودہ حالات میں زبان زد عام ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخصوص ترجیحات اور ان کے روایتی کلچر میں مطلوبہ اہداف کے حصول سے لے کر مال بنانے تک حکمرانوں اور سرکاری بابوئوں کے گٹھ جوڑ کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تقرریوں اور تعیناتیوں کا عمل بخدا ٹینڈر کا سماں پیش کرتا ہے۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ تمام پُر کشش اور پیداواری عہدوں پر تعیناتی کا روٹ اور طریقہ کار کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان تقرریوں اور تعیناتیوں کا نرخ نامہ بھی میڈیا کی زینت بن کر گورننس اور میرٹ کا منہ چڑاتا رہا ہے۔ مجال ہے جو کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو یا کسی کو اپنے منصب کی لاج آئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایک سابق کمشنر لاہور کو دوبارہ تعینات کروانے والوں میں کون لوگ سرگرم عمل تھے اور اس سرگرمی کے پس پردہ کیا عزائم کارفرما تھے؟ وہ تو خیر ہوئی کہ دورہ لاہور کے دوران باخبر لوگوں نے بروقت وزیر اعظم کو خبر کر دی اور وزیر اعظم نے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہی نہ صرف دوسری بار کمشنر تعینات کرنے کا نوٹس لیا‘ بلکہ حقائق جاننے کے بعد فوری طور پر کمشنری سے بھی علیحدہ کرنے کا حکم جاری کر کے ایک بڑے سکینڈل اور بدنامی سے بچا لیا۔ اس طرح کسی ممکنہ مخصوص ایجنڈے کے تحت دوسری بار کمشنر لگوانے والوں کی خوشیاں عارضی اور چند دن کی ہی ثابت ہوئیں۔ اسی طرح راولپنڈی رنگ روڈ کی تحقیقات کے ادھورے سچ کو پورا سچ بنانے والے تاحال اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں اور دو بڑی گرفتاریوں کے بعد مزید گرفتاریوں اور تحقیقات سے گریز جاری ہے۔ اہم شخصیت کے بھائی سے لے کر تخت پنجاب کے اہم سرکاری بابو تک رابطوں کے نتیجہ میں کون کون بامراد ہوا‘ جلد پتہ چل جائے گا جبکہ رنگ روڈ کے ماڈل میں تبدیلی کے بینیفشری منصوبوں کے مالکان ان مہربانوں کے شکر گزار اور بدستور تابعدار ہیں جنہوں نے راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل کو کچھ اس طرح گھمایا کہ من پسند فیصلے اور نتائج بہرحال حاصل کر لیے گئے۔سرکاری مال ہو یا وسائل‘ فیصلوں کی قیمت ہو یا نذرانے میں آئی لکشمی‘ ان سبھی پر زندگی کے مزے لوٹنے والوں کو جواب دہ اور قابلِ گرفت ضرور ہونا چاہیے۔ جس طرح ٹریفک سگنل ٹوٹنے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ آئین و قانون تک جا پہنچتا ہے اسی طرح اعلیٰ سرکاری افسران موجیں مارتے ہوئے عوام کی زندگیاں اجیرن کر کے بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگائیں گے تو کون سی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟ قیمت چکانے کے بعد کون کسے جواب دہ ہوتا ہے۔ جہاں کوئی عہدہ عوام کی داد رسی کے بجائے ان کی پریشانیوں اور مسائل میں اضافے کا باعث بن جائے وہاں انتظامی افسران کی کارکردگی پہلے دوسرے نمبر پر نہیں بلکہ پرلے درجے پر ہی ہوتی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ٹینڈر ہوتے رہیں گے اور یہ سبھی آتے جاتے رہیں گے۔
ایک زمانے میں سرکاری افسران کی دوہری شہریت کے بارے میں بڑا اودھم مچایا گیا تھا۔ لسٹیں تیار کی گئی تھیں۔ کوائف طلب کر لیے گئے تھے۔ گزرتے وقت کی دھول نے ان فہرستوں کو بھی دھول چٹا دی۔ دُہری شہریت کے حامل سرکاری افسران کے خلاف ریاست کا قانون حرکت میں کیا آتا کہ اب معاملہ دوہری شہریت سے بڑھ کر دوہری زوجیت تک جا پہنچا ہے۔ شاید کسی نے وزیر اعظم صاحب کو نہیں بتایا کہ وطنِ عزیز کے 120 اعلیٰ سرکاری افسران نے غیر ملکی خواتین سے شادیاں رچا رکھی ہیں۔ ان اعلیٰ افسران کی بیگمات امریکہ‘ روس‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ‘ چین‘ بھارت‘ برطانیہ‘ نائجیریا‘ اٹلی‘ کینیڈا‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ ترکی‘ جاپان‘ جرمنی‘ ایران‘ لبنان اور قازقستان سمیت دیگر ممالک کی شہریت کی حامل ہیں۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق‘ اگر کسی سرکاری ملازم نے غیرملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو‘ سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے‘ ورنہ اس کا یہ عمل ''مس کنڈکٹ‘‘ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آ سکی ہے...گویا نہ کہیں کوئی ''مس کنڈکٹ‘‘ ہوا ہے اور نہ ہی اس ملک میں کسی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اعلیٰ حکام میں ریٹائرمنٹ کے بعد یا دورانِ ملازمت ہی ملک کو خیرباد کہہ کر بیرونِ ملک مستقل سکونت اختیار کرنے کا رجحان شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا باقاعدہ سروے کروایا جائے تو حاصل ہونے والے اعداد و شمار یقینا قابل فکر اور چونکا دینے والے ہوں گے۔ ماضی قریب میں اہم عہدوں سے سبکدوش ہونے والی شخصیات وطنِ عزیز کے بجائے بیرونی ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں‘ جو قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے اور مجاز اتھارٹیز اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے بجائے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ ان کے بیرون ملک جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر وہ شخصیات اتنی با اثر اور طاقتور ہیں کہ قانون اور ضابطے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور مجاز اتھارٹیز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بھی اس کام میں اعلیٰ سرکاری افسران کے شانہ بشانہ ہے۔ افسر شاہی کے اس مجموعی منظر نامے کے بعد بے چارے اسسٹنٹ کمشنرز کی کارکردگی جانچنا بجا طور پر دوہرا معیار ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے تو پھر ان کی کارکردگی کا کیا کرنا ہے؟